کیا یہ تنازاعات کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور ان کا غلط استعمال ہونے لگا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر سرکار نظر رکھے اور اس کا غلط استعمال روکے؟ معاملہ صرف محسن صادق قتل تل ہی محدود نہیں ہے بلکہ ملک میں کئی تنازعات سامنے آچکے ہیں جو اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے مضر اثرات بھی پڑ رہے ہیں اور دھڑلے سے ان کا استعمال سماج کو نقصان پہنچانے اور بھائی چارہ کو توڑنے کے لئے بھی ہورہا ہے۔کئی سماج دشمن گروپ اس کا استعمال کر رہے ہیں اور کئی فرقہ پرست جماعتیں اسے اشتعال انگیزی کے مقصد سے استعمال کر رہی ہیں۔
پونے کی آگ
محسن صادق شیخ ایک پڑھا لکھا نوجوان تھا جو سافٹ ویر انجینئر تھا اور ساتھ ہی ساتھ ایک دیندار انسان بھی۔ والدین نے اسے بہت ارمانوں سے پڑھایا لکھایا تھا اور اس کی تربیت کی تھی۔ اس کے لئے بہت سے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے تھے مگر اچانک اس کا قتل ہوگیا اور ان کے تمام سپنے چکناچور ہوگئے۔ اس کے گھر مین کسی کو یقین نہین آرہا ہے کہ محسن اب اس دنیا میں نہیں رہا اور اسے اس جرم کی جزا ملی ہے جو اس نے کیا ہی نہیں ہے۔پولس کے مطابق اس کا قتل ہندو راشٹر سینا کے لوگوں نے کیا ہے جو اس بات سے ناراض تھے کہ کسی نے فیس بک پر بال ٹھاکرے اور شیواجی کی قابل اعتراض تصویر دالی تھی۔حالانکہ یہ جرم محسن کا نہین تھا مگر سزا اسے ملی کیونکہ ان ہندو دہشت گردوں کا ماننا تھا کہ یہ شرارت کوئی مسلمان ہی کرسکتا ہے۔ اشتعال انگیز نعرے لگا رہے ان لوگوں نے جو محسن کو اسلامی وضع قطع مین دیکھا تو آؤ دیکاھ نہ تاؤ اس پر حملہ آور ہوگئے۔ ان لوگوں نے اس سے قبل بھی پونے کی سڑکوں پر غنڈہ گردی کے مظاہرے کئے تھے اور سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔ انھوں نے یہاں تقریباً تیس سرکاری بسوں میں توڑ پھوڑ کی اور چالیس سے زیادہ پرائیوٹ گاڑیوں کو نشانہ بنایا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ امن و قانون کے لئے مسئلہ پیدا کردیں اور ریاست میں فساد برپا کریں مگر ایسا کرنے میں ناکام رہے۔معاملہ یہاں تک بھی نہیں پہنچتا اگر حکومت جلد متحرک ہوجاتی،مگر وہ حکومت ہی کیا جو وقت رہتے بیدار ہوجائے۔ خیر دیر ہی سہی ،اب حکومت اور پولس نے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی شروع کی ہے اور تقریباً دو درجن افراد کو گرفتار کیا ہے۔ یہ لوگ اس بھیڑ کا حصہ تھے جو شہر میں توڑ پھوڑ کر رہی تھی اور جس نے محسن پر حملہ کرکے قتل کیا تھا۔ گرفتار شدہ لوگوں میں ہندوراشٹر سینا کا بانی اور صدر دھننجے ڈیسائی بھی شامل ہے جس پر پولس نے کئی دفعات کے تحت مقدمے قائم کئے ہیں اور گرفتار کرکے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ اس شخص پر پہلے سے کئی معاملات درج ہیں مگر پولس نے کبھی بھی ان معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ وہ پہلے بھی اشتعال انگیزی کرتا رہا ہے اور قابل اعتراض پوسٹر وہینڈ بل کے ذریعے شہر کی فضا خراب کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔اس نے بار بار فرقہ وارانہ تشدد میں اپنے یقین کا اظہار کیا اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر غنڈہ گردی کی مگر پولس اور حکومت نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ اگر پہلے ہی اس شخص کے خلاف کارروائی کی گئی ہوتی تو یہ حادثہ رونما نہ ہوتا۔
امریکہ تک پہنچی فیس بک آگ کی آنچ
یہ معمہ اب بھی عام لوگوں کے لئے معمہ ہی ہے کہ وہ فیس بک اپ لوڈ جس نے ہندوراشٹر سینا والوں کو شرارت کا ایک موقع فراہم کیا وہ کس نے کی تھی اور اس کے پیچھے کیا مقصد تھا؟ اس پوسٹ کے سبب ناسک، ستارا اور مہاراشٹر کے کچھ دوسرے شہروں میں بھی ہنگامہ ہوا تھا اور اس میں شیوسینا کے لوگ شامل تھے۔ یہاں بھی توڑ پھوڑ کیا گیا تھا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہوئی تھی۔ مہاراشٹر پولس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس پوسٹ کرنے والے کا پتہ لگالیا ہے اور اسے گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔ حالانکہ ایک خبر یہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں پولس نے امریکی سرکار سے مدد چاہی ہے۔گویا اس پوسٹ کے تار امریکہ تک پہنچتے ہیں۔امریکی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اس سلسلے مین جلد ازجلد مدد کرے،تاکہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے۔ یہ اطلاع پہلے ہی آچکی تھی کہ یہ قابل اعتراض مواد بیرون ملک سے ڈالا گیا تھا اور ایسے آئی ڈی سے اپ لوڈ کیا گیاتھا جو اب بند کیا جا چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ آئی ڈی فرضی تھا اور جان بوجھ کراسے بنایا گیا تھا تاکہ یہ تصویر اپ لوڈ کی جاسکے۔ اس تصویر کو اپ لوڈ کرنے کا مقصد بھی اشتعال انگیزی کرنا تھا۔ اب ریاستی وزیر داخلہ آر آر پاٹل کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائیگی جنھوں نے اسے like کیا ہے۔ اسی کے ساتھ پولس ذرائع کا کہنا ہے کہ اب مہاراشٹر پولس کا سائبرکرائم سیل زیادہ متحرک ہوگیا ہے اور فیس بک و انٹرنیٹ پر موجود مواد پر نظر رکھ رہا ہے تاکہ اس طرح کا معاملہ دوبارہ نہ رونما ہو۔
فیس بک پر بابا صاحب کی توہین
فیس بک پر قابل اعتراض مواد اپ لوڈ کرنے کے معاملے میں ایک اور خبر سامنے آئی ہے کہ مہاراشٹر میں ہی کسی نے بھارت کے دستور ساز اور ملک کے اولین وزیر قانون بھیم راؤ امبیڈکر کی قابل اعتراض تصویر اپ لوڈ کی ہے جس سے ایک بڑے طبقے کو تکلیف پہنچی ہے اور کئی علاقوں میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اس معاملے میں بھی احتجاج و مطاہرے ہوئے اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ریاستی وزیر داخلہ آر آر پاٹل کے مطابق یہ سب حرکتیں اشتعال انگیزی کے لے کی جا رہی ہیں اور اس مقصد امن و امان کی صورتحال کو بگاڑنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ساری دنیا میں فیس بک کا استعمال ہورہا ہے اور اچھے مقصد سے ہورہا ہے مگر سماج دشمن عناصر اسے برے مقصد میں بھی استعمال کر رہے ہیں، جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ محسن کے قتل کے خلاف جہاں پورے ملک میں غم و غصہ کا ماحول ہے وہیں بنگلور میں اس کے خلاف احتجاج و مطاہرہ بھی کیا گیا۔ جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے حصہ لیا۔
ہنگامہ کرناٹک تک پہنچا
ابھی مہاراشٹر کا ہنگامہ پوری طرح سے فرو نہیں ہوا تھا کہ کرناٹک کے بیلگام سے خبر آئی کہ یہاں بھی ایک فیس بک پوسٹ کے سبب ہنگامہ برپا ہوگیا اور انجام کار ۱۷افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے کچھ لوگوں پر الزام ہے کہ انھوں نے فیس بک پر کچھ پوسٹ کیا تھا اور ہنگامہ اس قدر بڑھ گیا کہ گرفتاری کی نوبت آگئی۔ جن لوگوں کو پولس تحویل میں لیا گیا ان پر دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔
یوپی میں فیس بک کی اشتعال انگیزی
فیس بک پوسٹ کے ذریعے اشتعال انگیزی پھیلانے کے معاملے میں مہاراشٹر سے اترپردیش تک ایک جیسی صورتحال ہے۔ لکھیم پور کھیری میں بھی اسی طرح کا معاملہ دیکھنے کو ملا۔ یہاں کئی سماجی جرائم کو فیس بک اور سوشل میڈیا کے ذریعے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ سماج وادی پارٹی کے ایک لیڈر کی بیٹی کا اغوا ہوا اور پھر اس کی عصمت دری کی گئی تو بھگوا تنظیموں نے اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی۔ اشتعال انگیزی کے لئے فیس بک اور انٹرنیٹ کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد ایک تین سال کی بچی کی عصمت دری ہوئی جو مسلمان تھی لہٰذا اسے بھی شر پسندوں نے مذہبی رنگ دے کر دنگا کرانے کی کوشش کی۔ اچھی بات یہ رہی کہ عوام نے صبر وتحمل کا ثبوت دیا اور کوئی ہنگامہ نہیں ہوا، لیکن ماحول میں کشید گی ضرور پیدا ہوگئی اور تناؤ کا ماحول پیدا ہوگیا۔
فیس بک سے مسلمان ،ہوشیار
آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور ساری دنیا میں اس کا ستعمال خوب خوب ہورہا ہے مگر اسی کے ساتھ جرائم پیشہ افراد بھی اس کا استعمال اپنے غلط مقاصد کی تکمیل کے لئے کر رہے ہیں۔ بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی ایک طویل تاریخ ہے جن کی شروعات عموماً عبادت گاہوں کی بے حرمتی سے ہوتی تھی یا کسی مذہب کی توہین کا بہانہ بناکر یہ دنگے کرائے جاتے تھے مگر اب حالات بدلے ہیں اور اب اشتعال انگیزی کے لئے انٹرنیٹ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یوپی کے مظفر نگر میں جو مسلم کش فسادات ہوئے تھے ان کے پیچھے بھی فیس بک اور نیٹ ورکنگ سائٹس کا ہاتھ تھا۔ ان سائٹس کے ذریعے قابل اعتراض مواد لوگوں تک پہنچائے گئے تھے۔ فیس بک اور انٹرنیٹ اپنے آپ میں مفید ذرائع ہیں۔ ان کے ذریعے لوگوں کو جوڑنے کا کام کیا جاسکتا ہے اور محبت و اخوت کا پیغام عام کیا جاسکتا ہے۔ آدمی اپنے احباب سے جڑا رہ سکتا ہے ۔ اس کے ذریعے برسوں کے بچھڑے یار ملے ہیں مگر اسی کے ساتھ اس کا غلط استعمال سماج کو بہت بڑے نقصان سے دوچار بھی کرسکتا ہے۔ بھارت میں بھگوا تنظیمیں اس کا ستعمال مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کے لئے بڑے پیمانے پر کر رہی ہیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ اس کا غلط استعمال روکا جائے۔ خاص طور پر مسلمانوں کو اس معاملے میں زیادہ بیدار مغز رہنے کی ضرورت ہے کہ کبھی بھی انھیں اشتعال دلانے کے لئے ان کے مذہب کے خلاف کچھ اپ لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں اگر انھوں نے بے صبری کا مظاہرہ کیا تو خود انھیں کا نقصان ہوگا کیونکہ شرپسند عناصر ایسی حرکتیں انھیں اشتعال دلانے کے لئے ہی کرتے ہیں۔فیس بک اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال کبھی بھی ملک کے امن وامان کو آگ لگاسکتا ہے۔
جواب دیں