الیکشن تو آئے گا مگر شیطان کی گود میں

حفیظ نعمانی

ملائم سنگھ یادو کے چھوٹے بھائی شیوپال یادو سے ہم بہت زیادہ واقف ہیں اور ان کے ساتھ بار بار بیٹھنا بھی ہوا ہے اور ہمیشہ ہم نے یہی سمجھا ہے کہ وہ ایک وزیراعلیٰ کے بھائی ہیں اور ان کی سب سے بڑی ڈگری یہی ہے۔ ہمارے نزدیک وہ معمولی سی سیاسی سمجھ بوجھ کے آدمی ہیں جس کا ثبوت انہوں نے اترپردیش کے الیکشن کے موقع پر دیا کہ وہ ہر قدم پر اکھلیش یادو کے لئے مشکلیں کھڑی کرتے چلے گئے۔
ہماری نہ کبھی اکھلیش یادو سے ملاقات ہوئی اور نہ ملائم سنگھ سے مفصل گفتگو۔ لیکن دور سے دیکھنے کے بعد بھی یقین ہے کہ اکھلیش اپنے باپ سے کہیں زیادہ سیاسی دماغ کے لیڈر ہیں۔ ان کا یہ کارنامہ معمولی نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے پانچ سالہ اقتدار کے دَور میں اتنے کام کئے ہیں جتنے ان سے پہلے شاید ہی کسی نے کئے ہوں۔ اور پانچ سال کے بعد جو حکومت آئی وہ ان کے مخالفوں کی نہیں دشمنوں کی ہے۔ جس کا سب سے پہلا نعرہ تھا کہ بدعنوانی کے الزام میں اکھلیش کو جیل بھیجنا ہے۔ وزیراعلیٰ یوگی نے حکومت سنبھالتے ہی سب سے پہلے گومتی کے کنارے دربار لگایا اور ایک سے ایک بھگوا مزاج افسر سے کہا کہ جس ماہر کو بلانا چاہو بلاؤ بس یہ بتاؤ کہ اس میں اکھلیش نے کتنا کھایا ہے؟ اور سارے بھگوا افسروں نے قلم سے ساری زمین کھود ڈالی اور گردن جھکاکر یہی کہا کہ کچھ نہیں ملا۔ اس کے بعد دوسرا حملہ لکھنؤ آگرہ روڈ پر ہوا جس کی پائیداری کا مظاہرہ اکھلیش خود جنگی جہاز اُتارکر دکھا چکے تھے۔ یوگی کو خیال آیا کہ پانی اور سڑک یہی دو ایسے کام ہیں جن میں جتنا چاہو کھالو۔ آدتیہ ناتھ یوگی نے ہر طرح کے جہاز اور مال بردار جہاز اور بھاری سے بھاری جہاز اتارکر سڑک کو چشمہ لگاکر دیکھا اور گردن ڈال دی۔
جس لیڈر کا یہ کردار ہو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اگر اس کے دشمن اس کے کم سمجھ چچا کو ہتھیار بنائیں تو انہیں شرمندگی کے علاوہ کیا ملے گا؟ شیوپال نے پہلے مورچہ کا اعلان کردیا اس کے بعد شرط رکھی کہ مجھے ریاستی صدر اور میرے بیٹے کو لوک سبھا کا ٹکٹ۔ شیوپال جس ملائم سنگھ کے بل بوتے پر جانے جاتے ہیں انہوں نے 2017 ء کے الیکشن میں امرسنگھ اور کسی اندر کی آواز سے متاثر ہوکر اکھلیش سے لڑنے کے لئے ہر ہتھیار استعمال کرلیا تھا۔ اور آخر میں ہر مخالفت ختم کرکے بس وہ زنانہ ہتھیار استعمال کیا کہ اسے اکیلا چھوڑ دیا۔ ہم جانتے ہیں کہ جب پورا الیکشن کمیشن حکم کی تعمیل کررہا تھا تو ہارنا تو ہر مقابل کو تھا لیکن یہ ہوتا کہ 100 یا کچھ زیادہ سیٹیں آجاتیں۔
اب صورت حال صاف ہوگئی ہے کہ شیوپال تو بہت چھوٹی چیز ہیں ملائم سنگھ بھی کوئی مورچہ بنالیں تو اپنی ہی مٹی پلید کریں گے۔ شیوپال کی ناسمجھی یہ ہے کہ وہ الیکشن کے بعد وزیراعلیٰ کے دربار میں حاضری دینے لگے لیکن دو چار مرتبہ جانے کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ بڑے گھاگ لوگ ہیں۔ تو پھر گھر آگئے۔ اب انہوں نے مورچہ بنالیا کہ 80 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کریں گے بھاجپا کو دودھ پلانے والے اخباروں نے لکھ دیا کہ اکھلیش کے خیمہ میں کھلبلی مچ گئی۔ ہمارا خیال ہے ان کے دفتر میں مچی ہوگی۔ کہا گیا کہ صلح کی کوششیں تیز ہوگئیں۔ جو آدمی مورچہ قائم کرنے کے دوسرے دن ہی کہنے لگے کہ اگر مجھے وہ دے دو اور بیٹے کو یہ دے دو تو میں تمہارے ساتھ ہوں تو اس کی قیمت بازار میں کھوٹا سکہ ہوتی ہے۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ بی جے پی بڑے پیمانے پر ٹکٹ کاٹے گی دوسری پارٹیاں بھی نئے لوگوں کو میدان میں اتاریں گی۔ تو حرام کے نوٹوں کا بوجھ اٹھائے گھومنے والے کو جو ٹکٹ بھی ملے گا وہ لے لیں گے۔ مورچہ کی پہچان چاہے ملائم سنگھ کا بھائی ہو یا ان کا اندھیری راتوں کا دوست۔
سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ان سے باپ یا چچا بن کر کوئی عہدہ نہ مانگا جائے۔ جس کا جتنا کام اور پارٹی کو جس سے جتنا فائدہ ہوگا اسے اسی حساب سے دے دیا جائے گا۔ یہ ملائم سنگھ کی غلطی ہے کہ وہ جب جب وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے اسے ذاتی جائیداد سمجھتے ہوئے بھائی کو پی ڈبلیو ڈی اور ایری گیشن (پانی) کے وہ محکمے آنکھ بند کرکے دے دیئے جن میں دولت اسی طرح برستی ہے جیسے اس سال اگست کے پورے مہینے میں پانی برسا ہے۔
شیوپال کو برباد کرنے کیلئے امرسنگھ بھی میدان میں آگئے ہیں اور بی جے پی سے تو وہ پہلے سے ہی راہ و رسم بڑھاتے رہے ہیں۔ لیکن وہ صرف ٹکٹ دے سکتے ہیں ووٹ ان کے پاس 100 بھی نہیں ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ شیوپال کے پاس اپنے کمائے ہوئے پیسے ہوں لیکن وہ صرف اپنے بل پر اپنے بیٹے کو بھی نہیں جتا سکتے۔ ان سے رام گوپال یادو نے جو سماج وادی کا دماغ ہیں صاف صاف کہہ دیا ہے کہ جسے بھی کوئی بات کرنا ہے وہ اکھلیش یادو کو پارٹی کا صدر مانے اس کے بعد بتائے کہ وہ کیا چاہتا ہے؟
ملائم سنگھ کو شیوپال سے بہت محبت ہے انہوں نے اولاد کی طرح پالا ہے لیکن اکھلیش نے انہیں بتا دیا ہے کہ وہ دشمن پارٹی اور دشمنی کا کھلونہ بنے ہوئے ہیں جس نے ہمارا گھر تباہ کردیا۔ آج وہ امرسنگھ جو کبھی مولانا عبید اللہ خاں اعظمی کے پیچھے پیچھے پھرا کرتے تھے آج اپنے ناپاک منھ سے سماج وادی پارٹی کو نمازی پارٹی کہہ رہے ہیں۔ انہیں معلوم نہیں ہے کہ اسلام کے کسی رکن کا مذاق جو مسلمان برداشت کرے وہ مومن نہیں ہے۔ آئندہ اگر کوئی ایسی بات زبان سے نکلی تو ہوسکتا ہے کہ پھر زبان ہی نہ رہے۔ انہیں اعظم خاں سے لڑنا ہے تو لڑیں وہ مسلمان تو ہیں اسلام نہیں ہیں۔ امرسنگھ ٹھاکر ہیں تو اعظم خاں پٹھان ہیں اور دونوں ہی بدکلامی کیلئے بدنام ہیں لیکن اعظم خاں نے امرسنگھ کے دھرم پر حملہ نہیں کیا تو ان کی کیسے ہمت ہوئی کہ وہ۔۔۔۔۔۔ اب ملائم سنگھ اپنا منھ پیٹیں جنہوں نے اسے راجیہ سبھا بھیجا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ اسے فلمی ستاروں سے دھتکارکر نکالا ہے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 
04؍ستمبر2018(ادارہ فکروخبر)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے