’گاندھی جی! ہم شرمندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں ‘
عبدالعزیز
جس دن آزادیِ ہند کے سب سے بڑے لیڈر اور دنیائے انسانیت کیلئے قابل احترام رہنما موہن داس کرم چند گاندھی کا قتل ہوا اسی دن سے یہ بات ایک طرح سے طے ہوگئی کہ ملک میں دو نظریات ہیں۔ ایک نظریہ گاندھی جی کا ہے اور دوسرا نظریہ قاتل ناتھو رام گوڈسے کا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ناتھو رام گوڈسے کو گاندھی جی اس لئے ناپسند تھے کہ وہ ملک میں یکجہتی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، بھائی چارہ چاہتے تھے۔ اس کے برعکس گوڈسے وہی کچھ چاہتے تھے جو آج آر ایس ایس چاہ رہا ہے۔ آر ایس ایس کے لیڈروں کی تقاریر، بیانات اور لٹریچر سے صاف پتہ چلتا ہے کہ سارا سنگھ پریوار گاندھی جی کو ناپسند کرتا تھا اور کرتا ہے۔ ناتھو رام گوڈسے کو اعلانیہ آر ایس ایس اپنا کہنے سے پرہیز کرتا ہے لیکن ہندو مہا سبھا جس کے لیڈرساورکر تھے جو بعد میں آر ایس ایس میں شامل ہوئے۔ آج سنگھ پریوار میں ساورکر کی پوجا ہوتی ہے۔ حالانکہ وہ حکومت برطانیہ کے وفادار تھے اور مجاہدین آزادی کے خلاف تھے۔ سنگھ پریوار کے لوگ ساورکر کو ویر کہتے ہیں، محض اس لئے کہ وہ گاندھی جی کے نظریے کے خلاف تھے۔ ناتھو رام گوڈسے ساورکر کے چیلوں میں سے ایک تھا اور آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا کے نظریے کو نہ صرف پسند کرتا تھا بلکہ ان کی حمایت میں سرگرم عمل تھا۔
گزشتہ روز سنگھ پریوار کے سرغنہ چھتیس انچ سینہ کے دعویدار نریندر مودی نے اپنی تقریر میں کہا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی کوئی ہندو دہشت گرد نہیں تھا یا نہیں ہوا۔ یہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے، جس کو ہندستان کے ایک بڑے انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف ‘ نے دلائل سے ثابت کیا ہے۔ اس کی سرخی ہے ’ہئے نامو‘ ۔۔۔ ہئے رام سے معذرت کے ساتھ۔ یہ اس کے صفحہ اول پر پہلی خبر ہے گزشتہ روز وزیر اعظم نے واردھا کی ایک ریلی میں تقریر کی تھی۔ تقریر کے مندرجات میں سرخی کے بغل میں لکھا ہوا ہے ایک تقریر میں 13بار مودی نے ’ہندو دہشت گرد‘ کی اصطلاح بیان کی۔ اور ہندو دہشت گرد ، ہندو دہشت گرد اخبار مذکور نے 13بار لکھا ہے۔ خبر کے اندر مودی اور گوڈسے کی تصویر ہے۔ مودی کی تصویر کے نیچے کیپشن لکھا ہوا ہے کہ ’’کیا تاریخ میں ایک ایسا واقعہ ہے جس میں دہشت گردوں میں کسی ہندو کا نام ہے‘‘؟ (نریندر مودی سوموار کے دن مہاراشٹر میں) اور بغل میں ناتھو رام گوڈسے کی تصویر ہے اس کے نیچے کیپشن ہے ’’مہاتما گاندھی کو کس نے قتل کیا؟‘‘ ناتھو رام گوڈسے کی تصویر نریندر مودی سے بڑی ہے ۔ گوڈسے کی تصویر کے اوپر اخبار مذکور نے لکھا ہے ’’دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتالیکن وزیر اعظم صاحب آپ نے پوچھا ہے تو سن لیجئے کہ آپ کو آزادیِ ہند نے سب سے خطرناک دہشت گرد ناتھو رام گوڈسے تھا جس نے بابائے قوم مہاتما گاندھی کو دن کی روشنی میں قتل کیا۔ تاریخ یہی بتا رہی ہے۔
اس وقت جو تقریر پورے ملک میں انتخابی میدان کے اندر سنگھ پریوار کے لیڈر کر رہے ہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ناتھو رام گوڈسے کے نظریے کو عام کرنا چاہتے ہیں اور جنگی جنون کو ملک میں بڑھانا چاہتے ہیں۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے انتخابی قواعد کے برخلاف اپنی تقریر میں ہندستانی فوج کا نام بھی بدل دیا ہے ۔ بھارتیہ سینا کا نام ’’مودی سینا‘‘ رکھ دیا ہے۔ نام بدلنے کی اتنی بری عادت پڑگئی ہے کہ وہ ہندستانی فوج کو ’مودی سینا‘ سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔ واضح رہے کہ موہن بھاگوت نے سنگھ پریوار کی فوج کو ہندستانی فوج پر فوقیت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی فوج ہندستانی فوج سے زیادہ مستعد اور چست ہے۔ ہندستانی فوج کو تیاری میں اگر تین ماہ لگیں گے تو آر ایس ایس کی فوج کو تیاری میں صرف تین دن کا وقفہ چاہئے۔ یہ سراسر ہندستانی فوج کی توہین تھی۔یوگی ادتیہ ناتھ نے انتخاب کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے موہن بھاگوت کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے ان سے دو قدم آگے نکل گئے اور پوری ہندستانی فوج کو مودی کی فوج یا سنگھ پریوار کی فوج کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ انتخابی کمشنر کو شکایت بھیجی گئی ہے لیکن شاید ہی کمشنر یا کمیشن کو کوئی کارروائی کرنے کی جرأت ہو، کیونکہ سارے سرکاری ادارے آزادی اور خود مختاری سے محروم ہوگئے ہیں۔ سب کے سب سنگھ پریوار کے زیر اثر ہیں۔
آج کے اخبارات میں ریزور بینک آف انڈیا (RBI) کے سابق گورنر رگھو رام راجن کا بیان شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے آر ایس ایس کے تنگ نظریے کے بارے میں کہا ہے کہ یہ نظریہ ملک میں بہت بڑے بحران کا سبب بن سکتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ گاندھی اور نہرو کے خیالات اور دستورِ ہند سے روگردانی ہندستان متحمل نہیں ہوسکتا۔ ان کی کتاب ’دی تھرڈ پیلر‘ کی رونمائی گزشتہ روز نئی دہلی میں ہوئی۔ اس موقع پر سابق گورنر ریزرو بینک آف انڈیا نے دلیرانہ انداز سے کہا کہ یہ کتاب آر ایس ایس جیسی تنظیموں کے مقاصد کے خلاف ہے۔
ہندستان کے 200 عظیم اور جید مصنّفین کی ایک مشترکہ اپیل شائع ہوئی ہے جس میں ووٹروں سے اپیل کی ہے کہ نفرت کے خلاف ووٹ دیں اور تکثیری معاشرہ اور ایک ہندستان کے حق میں ووٹ دیں۔ مصنّفین نے موجودہ الیکشن کے بارے میں کہا ہے کہ ملک چوراہے پر کھڑا ہے۔ ہمارا دستور مساویانہ حقوق کے ساتھ ساتھ ہر ایک کو اپنی پسند کے مطابق کھانے، عبادت کرنے اور رہنے سہنے کی آزادی دیتا ہے۔ اختلاف اور انحراف کی بھی آزادی دیتا ہے۔ لیکن گزشتہ چند سالوں سے ہم لوگ یہ دیکھ رہے ہیں کہ مذہب ، فرقہ، ذات پات، صنف ، علاقائیت کی بنیاد پر زدوکوب اور ماب لِنچنگ جیسی وارداتیں عام ہوگئی ہیں۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ یہ ماحول باقی نہ رہے تبدیل ہوجائے۔ ہم لوگ یہ بھی چاہتے ہیں کہ قول و عمل سے جو تشدد عورتوں، دلتوں، آدیباسیوں اور اقلیتوں پر روا ہے اس کا خاتمہ ہوجائے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام شہریوں کا ووٹ نفرت کے خلاف پڑے اور مساوات، انصاف اور انسانیت کے حق میں ووٹ پڑے۔ تشدد، دھونس اور دھمکی سینسر شپ کے خلاف بھی ووٹ پڑنا چاہئے۔ اسی ووٹ کے ذریعے ہندستان کو ہم باقی رکھ سکتے ہیں۔ جس کی ضمانت دستور میں دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دستخط کنندگان ہندستان کے تمام شہریوں سے تکثیریت اور مساوات کیلئے ووٹ دینے کی اپیل کر رہے ہیں۔ (دستخط کنندگان میں امیتیو گھوش، امیت چودھری، رمیلا تھاپر، موکل کیسون، ٹی ایم کرشنا جیسے لوگوں کے نام شامل ہیں)۔
آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن کا بیان اور ہندستان کے چیدہ مصنّفین کی مشترکہ اپیل کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ملک میں دو بڑے نظریات کی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ اس جنگ میں اگر فرقہ پرستی اور تشدد کی جیت ہوتی ہے تو ہندستان جو آج ہے اس سے بھی بدتر اس کی حالت ہوجائے گی۔ علامہ اقبالؒ نے آج کے دور کو ایسا لگتا ہے کہ سو سال پہلے اپنی دوربیں آنکھوں سے دیکھ لیا تھا اور اس وقت ہندستانیوں کو آج کے حالات سے چوکنا کرنے کی کوشش کی تھی ’’وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے۔ تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔۔۔ ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے۔ دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں ۔۔۔ نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستان والو! ۔ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندستان کے شہری اگر گوڈسے اور گاندھی کے درمیان اور ان کے نظریات کے مابین واضح فرق نہ سمجھ سکے ۔ امن و انصاف کے علمبردار گاندھی کے بجائے تشدد اور دہشت گردی کے علمبردار ناتھو رام گوڈسے کے حق میں ووٹ یا اپنی رائے دے دی تو ملک تباہی اور بربادی کی طرف چلا جائے گا ۔ اور آج کا ماحول زہر آلود، جنگی جنون اور نفرت سے بھرا ہوا ہے اس سے بھی بدتر ہوجائے گا۔ اس لئے گاندھی جی یا ان کے نظریات کے حق میں ووٹ دینا ضروری ہوگیا ہے۔ جب ہی ہندستان کا دستور، ہندستانیت اور انسانیت کا تحفظ ممکن ہوسکتا ہے۔
جواب دیں