از: عبدالرافع محتشم ایک عرصہ سے میرے گھر کوئی آیا نہ گیافون سے حال ہی پوچھا بلایا نہ گیا اگر کوئی سامنے آیا بھی تو عالم یہ تھا دوری چھ فٹ کی رہی ہاتھ ملا یا نہ گیا اور دیدار بھی ان کا ادھورا ہی رہا ماسک چہرہ پہ رہا ہٹایا نہ گیا آفتاب طلوع ہوتے ہوئے یہ بتاتا […]
ایک عرصہ سے میرے گھر کوئی آیا نہ گیا فون سے حال ہی پوچھا بلایا نہ گیا اگر کوئی سامنے آیا بھی تو عالم یہ تھا دوری چھ فٹ کی رہی ہاتھ ملا یا نہ گیا اور دیدار بھی ان کا ادھورا ہی رہا ماسک چہرہ پہ رہا ہٹایا نہ گیا
آفتاب طلوع ہوتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ میں غروب ہوتا ہوں،روشنی منور ہوتے ہوئے یہ اطلاع دیتی ہے کہ مجھے بھی ختم ہونا ہے،صبح روشن ہوتے ہوئے یہ صدا لگاتی ہے کہ شام ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے بھی فنا ہونا ہے۔ہر پھول کھلتا ہی ہے پرمرجھا جانے کے لئے،ہر کوئی پیدا ہوتا ہی ہے پر مرجانے کے لئے۔
رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا وہ کیوں گیا، یہ بھی بتا کر نہیں گیا ایسا لگتا ہے وہ ابھی لوٹ آئے گا جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا
استاذ الاساتذہ حضرت مولانا اقبال صاحب ملا ندوی زندگی کی ۵۷ بہاریں گزار کر مالک حقیقی سے جاملے،آپ کی ۵۷ سالہ زندگی عیش کوشی ولذت طلبی سے کوسوں دور رہی،الٹا زندگی نے ہر ہر قدم پر انھیں آزمائشوں کا شکار بنایا،کبھی غیروں نے آڑے ہاتھوں لیاتو کبھی اپنوں کی روگردانی کا سامنا کیا، کبھی معاشی حالات ستانے لگے تو کبھی سماجی مسائل میں الجھے رہے،الغرض ہمیشہ کسی نہ کسی مصیبت میں گرفتار رہے،ابھی کچھ ہی مہینے قبل راقم کا ان سے تعارف ہوا،ان کی صحبت میں رہنا نصیب ہوا،ان سے استفادہ کے مواقع ملے،کہ اب ان کے وصال نے انہیں کچھ لمحوں کوزندگی کی بہترین یادوں میں تبدیل کردیا،اب آگے کی کچھ سطروں میں انھیں واقعات کو رقم کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔
مولانا ایک زندہ دل اور خود دار انسان تھے۔ ایک واقعہ: کچھ مہینے قبل بھٹکل میں ایک جلسہ منعقد ہوا،مولانا نے صدارت کے فرائض انجام دئے، دیر رات بعد جلسہ اختتام پذیر ہوا،منتظمین اپنی دوسری مشغولیات میں مصروف ہوئے،اور مولانا کے تعلق سے غافل رہے، وہ تنہا اپنی کرسی پر بیٹھے تھے،لوگ اپنے اپنے گھر لوٹ چکے تھے،میں ان سے قریب ہوا،دریافت کیاکہ ”آپ کی واپسی کا کیا انتظام ہے؟“،وہ خاموش رہے،میں سواری لئے مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا، مولانا وہیں موجود تھے، اور اس طرح خدا نے ایک خوددار شخص کی خدمت کا موقع عنایت کیا،راستہ میں ہر طرف سناٹا چھایا تھا، لوگ اپنے اپنے گھر لوٹ چکے تھے،پر سکون نینید کے مزہ لے رہے تھے،اور قوم کا ایک بے مثال خادم منتظمین کی غفلت سے تھکا ہارا اپنے گھر لوٹ رہا تھا۔
نہ شہرت تھی، نہ شوکت تھی، نہ کچھ سامان رکھتے تھے فقط اخلاص رکھتے تھے، فقط ایمان رکھتے تھے
مولانا ایک روحانی باپ،مشفق اور رحم دل بندہ تھے۔ مولانانے اپنے شاگردوں ہمیشہ اولاد کا درجہ دیا، اخلاص کے ساتھ پڑھانا، نرمی سے پیش آنا،مسکراتے ہوئے نصیحت کرنا،اپنے مخصوص انداز میں تنبیہ کرنا،غسل،کفن کو عملا کر کے بتانا،مزاحیہ انداز میں طلبہ کو سمجھانا۔۔۔الغرض درس وتدریس میں مولانا ایک نئے طرز کے موجد تھے،اپنی کمزوری کے باوجود شرارتوں پر مضبوط گرفت رکھتے،اور بڑی بے باکی سے منکرات کی روک تھام کی فکر کرتے۔
خاموشی اچھی نہیں انکار ہونا چاہئے یہ تماشا اب سرِ بازار ہونا چاہئے مولانا دل کے صاف، حق گو اورحکیم تھے: کسی سے بغض نہ کوئی نہ کوئی ملال رکھتے ہیں وہ اعلیٰ ظرف ہیں روشن خیال رکھتے ہیں
ہر کسی کو اپنا سمجھنا،اپنے تجربات کی روشنی میں مسئلہ کا حال نکالنا،زندگی کے حسین لمحوں کولطف لے لے کر سنانا،ان تمام اوصاف کے ساتھ ساتھ اپنی باتوں کا وزن رکھنا،بے تکی باتوں سے احتراز کرنا،اور ایک سنجیدہ شخص کی حیثیت سے خود کو پیش کرنا،جی ہاں،ان تمام اوصاف کی حامل شخصیت آج ہم سے رخصت ہو چکی ہے،خدا ئے تعالی موصوف کی بال بال مغفرت فرمائے ۔آمین!
مولانا ایک عالم، فقیہ اور جدید سائنسی چیزوں پر گہری نظررکھنے والے: ان کی عالمانہ شان اپنا ایک امتیاز رکھتی تھی،علماء کی قیادت فرماتے، عوام کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے،نوجوانوں کے تعلق سے فکرمند،امت کے حق میں دردمند،اور منکرات کے ازالہ کے لئے دل ارجمند رکھتے،علم دین پر بڑا عبورحاصل تھا، مسلک شافعی پر گہری نظر تھی،یہاں تک کہ جزئی مسائل پر بھی مکمل درک حاصل تھا، ان تمام خوبیوں کے باوجود جدید ٹکنولوجی سے بھی خدمت دین کے مواقع تلاش کرتے،اور علم فلکیات سے بڑی مہارت رکھتے۔ان سے فلکیات کے متعلق کچھ دریافت کیا جاتا تو اپنے جواب میں تمام جزئیات کا احاطہ فرماتے،ستاروں کے نام،ان کا محور، ان کی رفتار، ان تک پہنچنے کی مسافت، تمام جزئیات کو بیان فرماتے۔آسمان پر چمکنے والے اکثر ستاروں سے ان کی بڑی دلچسپی تھی،۔ناسا (NASA) کے ایک ایپ(APP) کے ذریعہ پوری کی پوری کہکشاں کی سیر کراتے، فرداً فرداً ہر ستارہ سے تعارف کراتے،اور اس کا بڑا شوق رکھتے۔
مولانا اپنے علم سے دوسروں کو بھی مستفید کرانے کا شوق رکھتے: مولاناکے وصال سے کچھ ہی دنوں قبل ساتھی مولوی ابوالحسن ایس ایم کے ساتھ مولانا کے مقام پر حاضری ہوئی،تو ان کی طبیعت کچھ ناساز سی معلوم ہوئی، لیکن اس وقت بھی ہمیں علم فلکیات اور اوقات صلاۃ کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی ترغیب دینے لگے، افسوس کہ ہمیں اس کا موقع نہ ہو سکا،اور مولانا اس دار فانی سے رحلت کر گئے۔انا للہ۔۔۔۔ منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
مولانا کی ایک اہم صفت جس کے وہ حامل تھے: کبھی کسی علمی نکتہ کو چھپایا، نہ بتانے میں کترایا،نہ وضاحت میں شرمایا،اور بڑی صفائی کے ساتھ ہر مسئلہ واضح فرمایا،اور بسا اوقات جس کے نتیجہ میں بڑی بھاری قیمت ادا کر نی پڑی۔ دعا ہے کہ باری تعالی مولانا کی بال بال مغفرت فرمائے،جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائے،اور ملت اسلامیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے،ان کی خوبیوں کو اپنانے کی توفیق عطا کرے۔آمین یارب العالمین!
9ذی الحجہ 1441 30 جولائی 2020
ادارہ فکروخبر بھٹکل
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں