بقلم:ام ہشام،ممبئی دن بھر کی خواری کے بعد گھر آتے ہی ان پر نظر پڑتے ہی تکان اور بیزاری سو کا لیول پار کرچکی ہوتی ہے۔اور ہو بھی نہیں کیوں نہ جہاں جہاں نظریں جاتی ہیں سلم ٹرم چیزیں دیکھنے کی عادت جو ہوچکی ہے،حتیٰ کہ ہتھیلی میں دبے ہوئے فون کے وال پیپر […]
دن بھر کی خواری کے بعد گھر آتے ہی ان پر نظر پڑتے ہی تکان اور بیزاری سو کا لیول پار کرچکی ہوتی ہے۔اور ہو بھی نہیں کیوں نہ جہاں جہاں نظریں جاتی ہیں سلم ٹرم چیزیں دیکھنے کی عادت جو ہوچکی ہے،حتیٰ کہ ہتھیلی میں دبے ہوئے فون کے وال پیپر پر موجود دبلی پتلی سی حسینہ بھی منھ چڑارہی ہوتی ہے۔تو پھر کچن سے اچانک پانی کا گلاس تھامے باہر آنے والی اس منھ جھاڑ سر پہاڑ والی مخلوق کو دیکھ کر شوہر کا موڈ کیوں نہ آف ہو۔پورے دن کی تھکان اور انتظار کا یہ بدلہ ہے کہ اس پر ایک انتہائی ناگوار سی نظر ڈال کر اپنے روٹین میں مشغول ہوجائیں۔ یہ تقریباً ہر مشرقی میاں بیوی کی کہانی ہے،لیکن میرا مدعا ہے انہیں ’کمر سے کمرہ تک‘کا سفر کروایا کس نے،چھوٹی موٹی سی لڑکی فقط ایک ہی بچے کی ولادت کے بعد ’گوشت کا پہاڑ‘بنی کیسے؟لیا واقعی کوئی ان باتوں کی وجوہات جاننے میں دلچسپی رکھتا ہے یا فقط بیوی کے موٹاپے پر گڑھے گئے چٹکلے سننے میں ہی دلچسپی ہے۔کبھی کبھار سچ کا سامنا بلیک کافی جیسی تاثیر رکھتا ہے۔ تقریباً ہر گھر میں خواتین موجود ہیں بالخصوص ٹین ایج(10-AGE)بچیوں سے لے کر مڈل ایج (Middle Age)تک۔اور موٹاپے کے مسائل بھی انہی عمر کی خواتین میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔کچھ باتیں جن پر ہمیں غور کرکے ان کا حل ڈھونڈنا تھا وہ سماجی لطیفوں کی نذر ہوگئیں۔آج شعور و بیداری کے بعد ہمیں سمجھ آیا کہ ایسی سنگین بوتوں پر کبھی ہم بھی بہت ہنسا کرتے تھے،اب سکت افسوس ہوتا ہے اور اس لیے کوشش ہے کہ دوسرے بھی اسے محض ہنسی مذاق کا نشانہ بنائیں۔ ہندوستانی خواتین کی 90%خواتین پی سی او ڈی (PCOD)اور پی سی او ایس (PCOS)کا شکار ہیں،جس کے سبب بچیاں اور عورتیں سبھی مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ممکن ہے آپ میں سے کسی نے اس بیماری کا نام ہی پہلی مرتبہ سنا ہو۔بہر حال اس بیماری پر تفصیلاً بات ان شاء اللہ پھر کبھی ہوگی آج فقط اتنا ہی کہ ہر موٹاپا ہنسی خوشی اور عیش و عشرت خوشحالی کی گواہی نہیں ہوتا کہ آپ ہنستے ہی چلے جائیں۔بیوی کو موٹاپے کے طعنے دے دے کر اس کا موازنہ پروفیشنل ماڈل یا کسی دوسری قریبی عورت سے کرکر اسے زک پہنچائی جائے۔”کمر سے کمرے تک سفر“……………بیماری پر بیماری کے ساتھ طے ہوا۔ بے شمار ہارمونل ڈس پیلینس کئی پیچیدگیوں سے گزرتی خواتین،نیند کی کمی،خون کی کمی،اینیمیا،ہارمونز کا انتشار،ماہواری کی بے قاعدگیوں کی وجہ سے بار بار اسقاط حمل،کارٹیسول کی زیادتی۔ایسی بے شمار وجوہات ہیں جو خواتین کی گرتی صحت اور ان کے موٹاپے کی وجہ ہیں۔ آپ چونکہ ساتھی،رہبر اور گاریجین بھی ہیں تو پھر اسے دوبارہ صحت مند بنانے میں اپنا ایک بڑا کنٹری بیوشن دیجئے،کیونکہ عورت صحت مند ہے تو پوارا معاشرہ صحت مند ہے۔ایک بیمار تھکے ہوئے جسم کے ساتھ خواتین دوسروں کا تو دور اپنا خیال رکھنے سے بھی قاصر ہیں۔ تو آئیے ایک قدم ان کی مدد کی طرف بڑھایئے جو سب کا خیال رکھتی ہیں۔ آج کا پہلا کام: گھر میں موجود بچی،بیوی بہن وغیرہ کی صحت کے متعلق معمولی شبہے پر بھی انہیں گائینا کولوجسٹ(ماہر امراض نسواں)کے پاس ضرور لے جائیں۔ڈاکٹر کے مشورے پر ان کے ضروری چیک اپس ضرور کروائیں۔وزن میں غیر معمولی اضافے کا سبب صرف بہت زیادہ کھانا پینا نہیں ہوتا،اکثر بیماری ہی وزن بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ خواتین کی بد زبانی،چڑ چڑاپن،کاہلی اور پھوہڑپن کے قصے ضرور بلند و بانگ انداز میں ایم منھ سے دوسرے تک پہنچائے جاتے ہیں لیکن یہ بات کوئی تسلیم نہیں کر پاتا کہ مذکورہ تمام چیزوں کے پیچھے ہر بار اخلاق و تہذیب کی کمی نہیں ہوتی بلکہ ممکنہ پچاس فیصد امکانات ہوتے ہیں کہ خاتون کسی اندرونی کشمکش،تکلیف،اذیت یا حالات کی ستائی ہوئی ہے۔نتیجتاً کارٹیسول (Cartisol)نامی ہارمونز کی بڑھوتری جو دباؤ اور ذہنی اذیت کی وجہ سے جسم میں بننا شروع ہوتا ہے۔اسٹریس اور ذہنی دباؤ سے پیدا ہونے والا یہ مادہ (ہارمونز) رفتہ رفتہ پورے جسم کی کارکردگی پر اثرڈالتا ہے۔کارٹیسول کا زور اگر اسی طرح برقرار رہا تو پورا جسمانی نظام اس کے زیر اثر ہوجاتا ہے۔پھر شروع ہوتی ہیں بہت سی پیچیدگیاں جیسے ہائی بلڈپریشر،جلد کی مختلف بیماریاں جن میں سب سے خطر ناک جلدی بیماری سوریاسس ہے،چہرے،سینے اور بالخصوص پیٹ اور کمر کے اطراف چربی کی موٹی تہہ بننا جسے ہم عام زبان میں بیلی فیٹ (Belly Fat)کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی خاتون بہت زیادہ اسٹریس (Stress) لینے کی عادی ہوچکی ہیں تو پھر وہ بار بار موڈ سوئنگز،چکر،مضمحل طبیعت،جلدی تھکاوٹ کا شکار ہوتی رہیں گی۔جسے فٹیگ(Fatigue)لگنا بھی کہتے ہیں۔مذکورہ مسائل محض ایک ہارمونز کی افراط کا نتیجہ ہیں۔سمجھاجا سکتا ہے کہ خواتین کے جسم میں موجود دیگر فطری ہارمونز میں اگر نا موافق تبدیلیاں آجائیں تو پھر کیا کیا ہوسکتا ہے؟ آج خواتین میں پی سی او ڈی اور پی سی او ایس نامی بیماری وبا کی طرح پھوٹ پڑی ہے۔اسے میڈیکل سائنس کبھی ایک خاص حالت کا نام دیتا ہے تو کبھی اپنی تحقیق کی بنا پر اسے خواتین کی بیضہ دان کی بیماری کا نام دیتا ہے،جسے میڈیکل کہتا ہے:Polycystic Ovary Syndrom//disease اب تک میڈیکل سائنس کی یہ تحقیق نا مکمل ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟یہ مرض موروثی بھی ہوتا ہے،بعض دفعہ حالات اور ماحول کی مطابقت سے مریض کو اپنا شکار بناتا ہے۔ بعض دفعہ مایوس کن زندگی گزارنے سے بھی ہوتا ہے۔اور کبھی بہت زیادہ آرام دہ زندگی گزارنے،کھانے پینے کی بے اعتدالیوں کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ہر ایک میں الگ الگ علامتیں ہوتی ہیں،لازم نہیں کہ ایک ہی عورت میں مرض کی تمام علامتیں پائی جارہی ہوں۔کئی الگ الگ وجوہات ہیں۔ کیونکہ یہ تکلیف بسا اوقات تیرہ چورہ سالہ بچی میں بھی پائی جاتی ہے اور کبھی بڑی عورت میں بھی۔اس بیماری کی وجوہات نظر انداز کرتے ہوئے میڈیکل سائنس اس کی نشانیوں اور علاج پر توجہ دیتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ مذکورہ بیماری عورت کے رحم کے دونوں کناروں پر موجود بیضہ دان سے متعلق ہے اسی لئے اس کا نام ہی پولی سسٹک اوورین ڈسورڈریا ڈسیز ہے۔پی سی او ڈی اور پی سی او ایس ہوتا یہ ہے کہ ایک صحتمند بیضہ دان عورت کے رحم میں اپنے فطری معمول کے مطابق ایام حیض میں جنین تیار کرنے والے بیضوں کو تیار کرتا ہے۔لیکن اگر اس نظام میں بگاڑ آجائے تو تولیدی نظام کے یہ انڈے اپنی مدت مکمل کرکے پھوٹ کر مادر رحم میں داخل ہونے کی بجائے اپنی جگہ پڑے رہ جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ بڑھ کر سسٹ(چھالے،رسولی،گانٹھ)کی شکل لے لیتے ہیں۔ انڈوں کے اپنی جگہ پڑے رہ کر رحم کے چھالے بن جانے سے کئی بیماریاں پیدا ہونا شروع ہوتی ہیں کیونکہ یہ فطری نظام سے بالکل الگ معاملہ چل رہا ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے خواتین کے مخصوص ایام میں ایک بڑی گڑ بڑ شروع ہوتی ہے۔جن میں حٰض کا کم ہونا،بہت زیادہ بڑھ جانا،یا بالکل ہی بند ہوجانا شامل ہے۔ اب ان حالات کا سیدھا اثر عورت عورت کے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت پر پڑتا ہے۔فطری حیض کے سائیکل میں ہی اگر بگاڑ آجائے اور اس مرض پر وقت رہتے توجہ اور کنٹرول نہ رکھا جائے تو عورت میں بانجھ پن بھی آسکتا ہے،وہ ہمیشہ کے لئے اپنی تخلیقی صلاحیت سے محروم بھی ہو سکتی ہے۔ اس مرض کا دوسرا مرحلہ کچھ اس شکل میں ہوتا ہے کہ خواتین میں ایسٹرو جن نامی ہارمونز بڑی تعداد میں بننے لگتے ہیں،جس کی وجہ سے خلاف معمول خواتین کے جسم میں کئی جگہوں پر بالوں کی کثرت ہونے لگتی ہے،جن میں سب سے بد نما مردوں کی طرح داڑھی یا مونچھ کی جگہوں پر گھنے بالوں کا اگ جانا ہوتا ہے۔ ہم اگر بزرگ خواتین سے پوچھیں تو پتہ چلے گا کہ انہیں کبھی پارلر کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ ان کے دور میں خواتین کو غیر ضروری بال نہیں آتے تھے اور اس وقت ایسی بیماریاں بھی ناپید تھیں۔ یہ بھی نئے دور کی ایک دین ہے کہ خواتین کے ساتھ ایسے مسائل بھی جڑ گئے ہیں بالوں کی یہ افراط ایسٹروجین کی زیادتی کی وجہ سے ہوتی ہے۔پھر ساتھ ہی کیل مہاسوں کی بھرمار،ہر وقت عورت کا تھکا تھکا سا رہنا، بات بات پر موڈ کی تبدیلی،افسردگی،اداس طبیعت،نیند کی کمی بے خوابی، شدید قسم کا کمر درد،تیزی سء وزن کا بڑھنا یہ سارے مسائل ایک نشانی اور الارم ہیں کہ خاتون کے فطری سسٹم میں کوئی بڑی گڑ بڑ ہوچکی ہے۔ایسی نشانیاں اگر اپے گھر کی خاتو ن یا بچی میں دیکھیں تو پہلی فرصت میں اچھی سی ڈاکٹر کے پاس لے جائیں اور ان کی تجویز کے مطابق کام کریں۔ وقت رہتے ان نشانیوں کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور بر وقت ان کا علاج نہیں کیا گیا تو آگے چل کر یہ نشانیاں مہلک بیماریوں میں تبدیل ہوسکتی ہیں مثلاً ایک غیر متووازن مدت حیض رحم کو زبردست نقصان پہنچاکر عورت کو ہمیشہ کے لئے بانجھ بنا سکتا ہے۔ بریسٹ کینسر،رحم کا کینسر،ہڈیوں کی ٹوٹ پھوٹ،ہائی بلڈپریشر،دل کا عارضہ،ڈپریشن اور ازدواجی تعلقات میں بگاڑ جیسی اہم اور بڑی خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔محض ایک ہارمونز کی اتھل پتھل کی وجہ سے جسے عوام کا سمجھنا تو دور کی بات ہے عام انسان اس کا تلفظ تک ٹھیک طور سے ادا نہیں کرپاتا۔ ہمارے سماج کا ایک بڑا المیہ ہے کہ انسان ایک ان دیکھی اور ان سمجھی بیماری کے ساتھ اپنے وجود کو زندگی کے پیچ و خم گھسیٹتا رہتا ہے لیکن لوگ اسے نارمل سمجھتے ہیں۔جب تک وہ سخت بیمار ہو کر بستر پر نہیں پڑتا یا موت کے دہانے تک نہیں جا پہنچتا۔ تو آئیے ان کی مدد کرتے ہیں اس طرح کہ خاتون کے علاوہ افراد خانہ اپنے کاموں کے اوقات منظم کرلیں تاکہ کام کرنے والی بچی یا خاتون بد نظمی اور وقت بے وقت کے کاموں کے سبب بہت زیادہ تھکاوٹ کا شکار نہ ہو،وقت پر وہ اپنی غذا لے سکے اور وقت پر سو سکے۔ شوہر اس طرح ساتھ دے کہ زندگی کے تام جھام اور ان الجھنوں کو سلجھانے میں اس پر اپنا اعتماد،محبت اور توجہ کا اظہار کریں،موقع بموقع اس کی حوصلہ افزائی اور تعریف کرتے رہیں تاکہ وہ اندر سے خوش و خرم ہو اور اسٹریس کی تباہ کاریاں اس پر اثر انداز نہ ہوں۔ گھر کے افراد دوسرے چھوٹے موٹے کاموں میں خواتین کا ہاتھ بٹا کر ان کے کام کے بوجھ کو ہلکا بنا سکتے ہیں۔اولاد سے محروم خواتین کو امید و یقین کے ساتھ طبی امداد فراہم کریں،اللہ نے اپنی اس دنیا میں ہر بیماری کی شفا رکھی ہے ہمیں بس اسے تلاشنے کی ضرورت ہے۔وزن سے پریشان خواتین کا مذاق بنانے کی بجائے ان کا معاون اور گائیڈنس بننے کی ضرورت ہے۔ گاہے گاہے انہیں ان کا گول یاد دلانا،دن میں کئی مرتبہ انہیں پانی پینے کی تاکید کرنا،واکنگ،کسرت یا منظم متوازن غذا کے ڈائیٹ پلان کی تیاری میں ان کی مدد کرنا،ریفائن اشیاء یا میدہ سے تیار شدہ اشیاء کا گھر میں بائیکاٹ کردینا،جنک فوڈ(Junk Food)کی داعت کو اچھے پھلوں سے ریپلیس کرنا وغیرہ وغیرہ۔آپ سب کا ایسا ہی تعاون ایک عورت کو صحت مند بنانے میں درکار ہے تاکہ ہمارا معاشرہ بھی صحت مند بنے۔ مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں