اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

 

 

   کامران غنی صبا  ( اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نیتیشور کالج، مظفرپور )

 

میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میرے اس ذہنی انتشار سے آپ کے ذہنی انتشار کا تار ضرور ملتا ہوگا. بات دراصل یہ ہے کہ کورونا ایک "معماتی وائرس" بن کر میرے دماغ میں داخل ہو چکا ہے. واللہ شعور سنبھالنے کے بعد سے آج تک میں نے ایسی معمہ نما شئے نہیں دیکھی. اب جبکہ پھر سے کورونا کی دوسری لہر چل پڑی ہے یا چلائی گئی ہے تو میں پھر سے بہت کنفیوز ہو گیا ہوں. خدا کورونا کی سات نسلوں کو غارت کرے کہ اس" کمینی قوم" نے قوم کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے. بدقسمتی سے ہمارے ملک میں داخل ہونے کے بعد یہ وائرس بھی "وائرس زدہ" ہو گیا. اور اس خطرناک وائرس کو اس سے بھی خطرناک وائرس "فرقہ پرستی" کے وائرس نے اپنی "آغوش" میں لے لیا. پھر کیا تھا کسی کو یہ وائرس صرف مسجدوں میں نظر آنے لگا تو کچھ کو صرف مندروں میں. تبلیغی جماعت والوں کو جتنی کامیابی اپنے سال قیام سے اب تک نہیں ملی ہوگی اس سے کہیں بڑی کامیابی آن واحد میں یوں ملی کہ کورونا اپنی پوری قوم سمیت مشرف بہ اسلام ہو گیا. ہاں کچھ "روشن خیالوں" نے مسجد مندر سمیت تمام مذہبی مقامات پر "کورونا" کے ثبوت حاصل کرنے میں "کامیابی حاصل" کر لی.

دنیا میں کوئی معمولی سا بھی ہنگامی حادثہ یا واقعہ ہو اور اس کے تار ہم جیسے "اسلام پسند" یہودیوں" سے نہ جوڑیں یہ بھلا کیسے ممکن ہو سکتا ہے. کورونا کے تار بھی خود ساختہ دلائل کے ساتھ یہودیوں سے جوڑنے کی بڑی کامیاب کوششیں کی گئیں.

کورونا کے تعلق سے سب سے زیادہ کنفیوژڈ حکومت کی گایڈ لائن نے کیا یے. الحمد للہ یہ سلسلہ ایک بار پھر سے شروع ہو چکا ہے. اگر میری یہ کنفیوژن کوئی دور کر دے تو بخدا ایسے شخص کی نسلوں کے لیے دل سے دعا کروں گا. اب آپ ہی بتاییے صاحب کہ دن بھر بازار کھلے رہیں تو کوئی مسئلہ نہیں اور شام کے سات بجتے ہی کورونا اپنے بال بچوں سمیت سڑکوں اور گلیوں پر گشت لگانا شروع کر دے یہ کہاں کی منطق ہے…… ہمارے معزز (کچھ لوگوں کی زبان میں لعنتی… معاف کیجیے گا یہ گستاخی میں نہیں کر سکتا) نیتا حضرات الیکشن ریلی میں لاکھوں لوگوں کا سامنا کریں تو کورونا ان کی ہیبت سے خوف کھا کر بھاگ جائے اور ہم عوام کسی مقام پر دو چار کی تعداد میں بھی جمع ہوں تو ہم کورونا کی زد میں آ جائیں. یعنی یہ کورونا بھی ہم انسانوں کی طرح بڑا شاطر ہے اور آدمی اور جماعت دیکھ کر معاملہ کرتا ہے. ہم جیسے کمزور مل جائیں تو چڑھ دوڑے، نیتا جی اور ان کے معتقدین کو چھونے کی اس میں ہمت نہیں….

کورونا کے تعلق سے میری سب سے بڑی الجھن یہ ہے کہ اس کمبخت کو تعلیم اور تعلیمی اداروں سے خدا واسطے کا بیر کیوں ہے؟ بھئی بازار میں، سنیما گھروں میں، انتخابی ریلیوں میں، بسوں میں، ٹرینوں میں… جب ہر جگہ "اجتماعات" ہو سکتے ہیں تو اسکول کالج میں آخر ایسی کون سی قوت کشش ہے کہ کورونا کھنچا کھنچایا وہاں پہنچنے کو بے تاب ہو جاتا ہے. ہو نہ ہو اس کے پیچھے ہم جیسے سست اور کام چور اساتذہ کی سازش کارفرما ہو گی.

ہاں صاحب…. چلتے چلتے ایک بات یاد آئی کہ رمضان آتے ہی کورونا نے پھر سے اپنی دہشت پھیلانا شروع کر دی ہے. حکومت کی طرف سے گایڈ لائن ائی ہے کہ مذہبی مقامات مکمل طور پر بند رہیں گے لیکن سنیما ہال کو کھلا رکھنے کی اجازت دی گئی ہے. تو میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے کہ اپنے محلہ میں ایک "اسلامی سنیما" ہال کھلوایا جائے. جہاں "ارطغل" جیسے ڈرامے اور "مذہبی فلمیں" دکھائی جائیں. فلموں کے بیچ میں جب نماز کا وقت ہو تو وہاں باضابطہ باجماعت نماز کا اہتمام کیا جائے. اگر تراویح کے لیے کچھ حفاظ تیار ہو گئے تو اس کا بھی نظم کیا جائے. اب سوال یہ ہے کہ اجتماعی طور پر فلم دیکھنے کی جب اجازت ہے تو یقینی سی بات ہے کہ فلم دیکھنے سے تو کورونا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوگا لیکن کہیں نماز باجماعت شروع کرتے ہی کورونا نے فرقہ پرستی شروع کر دی تو……..؟

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

موت کا ایک دن متعین ہے

آ خر بار بار شان رسالت میں گستاخی کیوں اور گستاخوں کے سروں پر کس کا ہاتھ؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے