از قلم: سجاد فکردے ندوی فقہ اسلامی سے وابستہ طالب علموں اور اسلاف کے علمی فقہی اجتہادی سرمایہ سے مستفید ہونے والوں کے ذہن میں ایک سوال بار بار گردش کرتا ہے کہ کسی فقہی مسلک یا فقیہ کے یہاں کوئی چیز حلال ہو، اور اسکے بالمقابل کسی دوسرے فقہی مسلک اور فقیہ کے یہاں […]
فقہ اسلامی سے وابستہ طالب علموں اور اسلاف کے علمی فقہی اجتہادی سرمایہ سے مستفید ہونے والوں کے ذہن میں ایک سوال بار بار گردش کرتا ہے کہ کسی فقہی مسلک یا فقیہ کے یہاں کوئی چیز حلال ہو، اور اسکے بالمقابل کسی دوسرے فقہی مسلک اور فقیہ کے یہاں حرام ہو، تو اسکی کیا حیثیت ہوتی ہے، آیا اس حلت اور حرمت کا وہی درجہ اور مقام ہے جو قرآن وحدیث میں منصوص احکامات اور انکی علت کا ہے؟ یا انکو سمجھنے اور برتنے کا کوئی اور پیمانہ ہے ؟
اس سلسلہ میں یہ بات معلوم ہونی بےحد ضروری ہے کہ ایک حلال و حرام تو وہ ہے جو نص صریح میں حلال و حرام قرار دیا گیا ہو ،تو یہ ایک اصولی چیز ہے، جس میں ردوبدل کرنا موجب کفر ہوجاتاہے، دوسرا حلال و حرام وہ ہے جو نصوص کی دلالتوں یا اشارات اقتضاآت سے استنباط کیا جائے یہ فروعی چیز ہے، اور اس نوع کا اختلاف ہمیشہ سے فقہاء تابعین حتی کہ صحابہ میں بھی رہا ہے ،ایک ہی چیز کو کسی نے حلال قرار دیا اور کسی نے حرام، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس طرح کے تحلیل و تحریم پر بحث کرتے ہوئے کسی نے کسی کو یہ الزام دیاہو کہ وہ فسق و گناہ کا مرتکب ہوگیا ہو ۔ اسکی اہم وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ فقہ اسلامی سے وابستہ امت کا ایک طبقہ شرعی مسائل کاحل آزادانہ فقہی بحث و تحقیق کے ذریعہ انجام نہیں دیتا ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر گروہ ایک مذہب فقہی کی پابندی میں اس قدر جامد ہوگیا ہے کہ اپنےہی مذہب خاص کو اصل شریعت سمجھتا ہے ،حالانکہ سلف صالحین میں جبکہ آزادانہ تحقیقات کا دروازہ کھلا تھا،فقہاء اور علماء کے مابین حلال و حرام اور فرض و غیر فرض تک کے اختلافات ہوجاتے تھے ،لیکن سلف صالحین نہ صرف یہ کہ ان اختلافات کو بر داشت کرتے تھے، بلکہ دوسروں کو بھی یہ حق دیتے تھے کہ ان کے نزدیک جو حکم شرعی ہو وہ اس پر عمل کریں ، لہذا اسی کھانے پینے کے مسئلہ کو ہی لے لیجیۓ حضرت عائشہ درندوں کے گوشت اور انکے خون کے استعمال میں جو رگوں کے اوپر کے حصہ میں رہ جاتے ہیں کوئی حرج نہیں سمجھتی تھیں، اور انکا استدلال اس آیت سے تھا( قل لا أجد في ما أوحي إلي محرما على طاعم يطعمه) اور اسی آیت کی بناء پر حضرت عبداللہ بن عباس بہی ان چار چیزوں کے سوا جن کی قرآن مجید میں حرمت وارد ہوئی ہے اور کسی چیز کو حرام نہیں سمجھتے تھے ،امام مالک درندوں کو حرام قرار دیتے ہیں، مگر شکاری پرندہ مثلا عقاب وغیرہ کو حلال قرار دیتے ہیں ،خواہ وہ مردار کھاتے ہوں یا نہ کھاتے ہوں، امام اوزاعی صرف گدھ کو مکروہ قرار دیتے ہیں، باقی ہر قسم کے پرندے انکے یہاں حلال ہیں، لیث بلی کو حلال اور بجو کو مکروہ سمجھتےہیں،عکرمہ سےکوے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ موٹی مرغی ہے۔ ان چند مثالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جہاں نص صریح موجود نہ ہو ،بلکہ نصوص کی دلالتوں یا اشارات پر مسٔلہ مستنبط کیا جائے تو یہ اختلافات فروعى نوع کے ہیں، کسی فقیہ کی رائے میں بر بنائے اجتہاد کسی چیز کا حرام ہوناہر گز یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ اصل شریعت میں حرام ہے، اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے استنباط کی بناء پر حلال قرار دے ،تو اس پر بحث ضرور کی جاسکتی ہے، لیکن یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ اس کے مقابل راۓ رکھنے والے کو گناہ گار اور فسق وفجور کا مرتکب سمجھا جائے۔
والله أعلم باالصواب
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں