ایک چراغ اور بجھا

محمد نصر الله ندوی

 ندوة العلماء،لکھنؤ
    
     آج فجر کی نماز کے بعد یہ اندوہناک خبر آئی کہ ملک کے نامور عالم دین،مناظر اسلام حضرت مولانا عبد العلیم صاحب فاروقی کا انتقال ہو گیا،ان کا انتقال ملت اسلامیہ ،بالخصوص مسلمانان لکھنؤ کیلئے ایک عظیم خسارہ ہے،وہ اپنے جد امجد امام اہل سنت حضرت مولانا عبد الشکور صاحب فاروقی رح کے جانشیں تھے،اور ان کی وراثت کے امین تھے، اہل بیت اطہار اور حرمت صحابہ کا دفاع ان کی زندگی کا مشن تھا،ان کی پوری زندگی اہل سنت والجماعت کے عقائد ونظریات کی خد مت کیلئے وقف تھی،انہوں نے ایسے ماحول میں آنکھیں کھولیں،جب ہر طرف اہل  تشیع کا غلبہ تھا اور صحابہ کرام کی ناموس پر حملہ کیا جارہا تھا،لکھنؤ اس کا مرکز تھا،جہاں کی گلی کوچوں میں ماتم کے نام پر تبرا بازی کا بازار گرم تھا،جس کے تعفن سے پورا ملک آلودہ تھا،مولانا نے اس کے خلاف مورچہ سنبھالا اور اس میدان میں اپنی پوری توانائی صرف کردی،انہوں نے اس کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا اور جب تک جسم میں جان تھی،اس مشن کو آگے بڑھاتے رہے۔

  انہوں نے پورے ملک میں مدح صحابہ کی تحریک چلائی،وہ مجلس تحفظ ناموس صحابہ کے سربراہ اور دارالمبلغین کے مہتمم تھے،اس ادارہ کو انہوں نے اپنے مشن کیلئے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا،ایک زمانہ تھا جب پورے ملک میں شہدائے اسلام کے جلسوں کے چرچے تھے، وقت کے نامور علماء ان جلسوں میں شرکت کرتے،یہاں سے جو پیغام دیا جاتا،پورے ملک میں اس کو گونج سنائی دیتی،ان کی کوششوں کے نتیجہ میں لکھنؤ میں اہل تشیع کا زور کم ہوا،عام لوگوں کے اندر اپنے عقائد کو سمجھنے میں دل چسپی پیدا ہوئی اور ان کے دل میں صحابہ کے تئیں عقیدت واحترام میں اضافہ ہوا،یقینا یہ مولانا کا کارنامہ ہے،جس کا اجر پانے کیلئے وہ اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔

  مولانا جمعیة علماء ہند کے ذمہ داروں میں تھے،ایک عرصہ تک وہ اس کے جنرل سکریٹری رہے،اور اس کے ذریعہ ملک وملت کی خدمات انجام دیں،وہ دار العلوم دیوبند کے فاضل تھے اور اس کے مسلک کے ترجمان سمجھے جاتے تھے،دار العلوم کے رکن شوری کی حیثیت سے اس کے ارباب حل وعقد میں شامل تھے،وہ ندوة العلماء کی مجلس انتظامیہ کے رکن رکین تھے،حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم کے معتمد خاص تھے،دار المبلغین لکھنؤ کے روح رواں تھے،اس کے علاوہ متعدد اداروں ،تنظیموں کے سرپرست تھے،بیباک خطیب اور داعی اسلام تھے،زبان میں بڑی سلاست اور روانی تھے،جوانی میں بڑے بڑے اجلاس کو خطاب کرتے تھے،اور عوام الناس تک دین اسلام کا پیغام آسان اسلوب میں پہنچاتے،ان کے انتقال سے وہ زبان خاموش ہوگئی،جو دفاع صحابہ کیلئے شمشیر بے نیام تھی،وہ مبلغ اسلام چل بسا،جس کی زندگی اہل سنت والجماعت کے نظریات کی تشریح کیلئے وقف تھی،جس کی ذات تحریک مدح صحابہ کا مرکز تھی،اور جو پوری زندگی باطل کے سامنے سپر رہا،رب کریم ان کی مغفرت فرمائے اور اپنے شایان شان بدلہ عطا فرمائے۔
   24/04/2024

«
»

مولانا شبر صاحب علی باپو قاسمی ، ایک مثالی شخصیت

انتخابی سیاست سے غائب ہوتے ہوئے مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے