اک چہکتا بلبل (شماس گولٹے) نشیمن سے رخصت ہوگیا

محمد عاکف ندوی

یہ روح فرسا خبر میرے لئے ناقابل یقین تھی کہ میرے درجہ حفظ کے رفیق اور عزیز دوست مولوی شماس گولٹے ایک حادثاتی موت کا شکار ہوکر اپنے پروردگار سے جاملے،اور اپنے متعلقین کو مغموم چھوڑ گئے، 
إناّلله وإناّ إليه راجعون
 اللهم اغفر له وارحمه وأدخله فی جنة الفردوس آمین ۔

موصوف ایک جواں سال، زندہ دل عالمِ دین،خوش مزاج اور با اخلاق انسان تھے، خدمت خلق انکی نمایاں صفت تھی، وہ اپنے والدین کے  نہایت مطیع وفرمانبردار تھے، ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے،
اللہ تعالی نے انکے اندر انتظامی صلاحیت ودیعت فرمائی تھی، وہ کام کو سلیقہ کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچانے کے ہنر سے پوری طرح واقف تھے،
انکا شمار اپنے درجہ کے ہونہار اور ممتاز طالب علموں میں ہوتا تھا، ایک طرف وہ میدان خطابت کے شہسوار تھے تو دوسری طرف مضمون نویسی اور فن کتابت میں نمایاں مقام رکھتے تھے، شہر بھٹکل سے نکلنے والے رسائل، نقش نوائط ،ارمغان جامعہ، طیبات کے خصوصی شمارے اس پر بہترین شاہد ہیں۔
اللہ تعالی نے موصوف کو گوناگوں صفات کا حامل بنایا تھا،  
 وہ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو 
رزم ہو یا بزم ہو پاک طینت پاکباز 
کے صحیح  مصداق تھے ، وہ   اپنی خدمت کے ذریعے رزم اور بزم ہر جگہ  چھائے رہتے ۔
انکا سینہ حفظ قرآن کی دولت سے معمور تھا، وہ اپنے اعمال کے ذریعہ اللہ تعالی سے قریب ہونے کی ہمیشہ فکر کرتے ، صف اول کی پابندی انکا شعار تھا،
 وہ اپنے اساتذہ  کے مطیع اور معاون کی حیثیت سے ہمیشہ  انکا تعاون کرتے۔
 جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے جلسے ہوں یا جمیعةالحفاظ کے پروگرام وہ  تمام سرگرمیوں میں ہمیشہ آگے رہتے،اور دامے درمے سخنے قدمے امداد واعانت فرماتے۔
وہ اپنے والدین کے اکلوتے تھے،  لیکن انھوں نے اپنے والدین کی ایسی خدمت کی کہ شاید انکے والدین کو انکے اکلوتے پن کا کبھی احساس نہیں ہونے دیا ۔
 میں نے  ایسے باسعادت فرزندوں کو بہت کم  دیکھا ہے جو اپنے والدین کے کاموں میں اسطرح ہاتھ بٹھاتے ہوں۔
 دن بھر اپنی تعلیمی مشغولیات میں منہمک ہونے کے باوجود   وہ شام کو اپنے والد کے معاون بن کر انکے کاموں میں  ہاتھ بٹھاتے، وہ کام کے پکّے دھنی تھے، خدمت گذاری اور ہر انسان کے کام آنا انکا شعارتھا ، 

انکی یہ خصوصیت تھی کہ بھٹکل میں  چلنے والے نوجوانوں کے مختلف پلیٹ فارم  چاہے وہ ادارہ ادب اطفال ہو یا واٹسپ لرن قرآن، ہر جگہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، اور اپنی بے پناہ خدمات سے ہر ایک کا دل جیتتے ۔
  وہ جھجھک اور شرم کے لفظ  سے واقف ہی نہیں تھے، دوسرے الفاظ میں وہ  ہر نوجوان کو اس بات کا پیغام دیتے کہ وہ ہر میدان میں آگے بڑھ کر حصہ لینے والے بنیں، 

جامعہ اسلامیہ بھٹکل سے فراغت کے بعد وہ ہندوستان کی مشہور درسگاہ دار العلوم ندوةالعلماء لکھنئو میں اعلی  تعلیم کے لیے تشریف لے گئے لیکن ناسازیِ طبیعت نے انہیں اس بات کا موقع نہیں دیا کہ وہ سے اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری  رکھ سکیں ،
 
تعلیمی سلسلہ موقوف ہونے کے بعد وہ عملی میدان میں داخل ہوگئے اور واٹسپ لرن قرآن سے وابستہ ہوکر خدمت قرآن میں مشغول ہوگئے، 
خدمت دین کے اسی جذبہ کے ساتھ وہ آگے بڑھتے رہے اور ایک مہینہ قبل وہ  شہر بھٹکل کی قدیم  مشما مسجد میں امامت کے فرائض انجام دینے لگے، خدمت دین کے جزبہ سے سرشار اس نوجوان نے  چند دنوں قبل تفسیر قرآن کا بھی آغاز کیا تھا جو محلہ والوں کے لیے ایک قيمتي سوغات  تھي ۔

اس طرح نہ معلوم  کتنے خواب تھے جوانکے دل میں بسے ہوئے  تھے جسکی تعبیر کے وہ منتظر تھے اور کتنے عزائم تھے جسکو وہ عملی جامہ پہنانے والے تھے  لیکن انکی مختصر زندگی نے انہیں اسکی مہلت نہیں دی اور اپنے عزائم کو سینوں میں لئے ہوئے اپنے رب کے دربار پہنچ گئے ۔

 وہ اپنی مختصر  مگر قیمتی زندگی  سے ہم  رفقاء کو یہ پیغام دے گئے کہ وہ انکے خوابوں کی تعبیر بنیں، عزائم کو عمل میں لائیں اور رب کی رضا کے ساتھ زندگی گزارنے والے بنیں  ۔

 دعا ہےکہ اللہ تعالی مرحوم کی بال بال  مغفرت فرمائے اور انکو اعلی علیین میں مقام عطا فرمائے اور والدین اور تمام متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
 ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد ۔۔۔
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے نہ اپنی خوشی چلے
 
محمد عاکف  ندوی۔
مسجد شاہ علم اللہ تکیہ، میدان پور رائے بریلی ۔

«
»

شرکا دامن تھام کر نکلے تھے حکومت کرنے

اسلامو فوبیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے