ایک اہم سبب یہ بھی ہے ہماری ناکامی کا!!!

  تحریر: محمد شفاء المصطفیٰ شفا مصباحی 

          آج امت مسلمہ کے حالات  جس قدر ناگفتہ بہ ہیں،وہ کسی پر مخفی نہیں۔آج ہمارا علمی، فکری،معاشی،اقتصادی اور سیاسی انحطاط اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔اور اب تو ہمارے حقوق ومراعات بھی سلب ہورہے ہیں اور ہماری آوازیں بھی دبائی جارہی ہیں۔اس میں جہاں غیروں کا ہاتھ ہے، وہیں ہماری بھی کچھ کمزوریاں ہیں،جن کے باعث آج ہمیں یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔اس لیے سب سے پہلے ہمیں اپنی ان کمزوریوں کا ازالہ کرنا ہوگا تاکہ آگے کی راہیں خود بخود استوار ہو جائیں۔ہماری یہ کمزوریاں مختلف الجہات ہیں،جن میں سب سے بڑی کمزوری سیاسی میدان میں ہمارا عدم استحکام ہے،جس کی وجہ سے ہم دن بدن  مزید زوال و انحطاط کے شکار ہوتے جارہے ہیں۔لہذا آج ہمیں سیاسی میدان میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنا ہوگا، تاکہ ہمارے روشن مستقبل کا خواب کچھ حد تک شرمندہ تعبیر ہو سکے اورہم اپنی ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدل سکیں۔اس سلسلے میں ہمیں نہایت مؤثر اقدام کرنا ہوگا اور بڑی سنجیدگی سے یہ سوچنا ہوگا کہ کس طرح ہم سیاسی میدان میں اپنی عظمت و شوکت کا جھنڈا نصب کر سکتے ہیں،تاکہ تلافی مافات کی کوئی صورت پیدا ہو سکے۔
            اسے حالات کی ستم ظریفی کہیے کہ ادھر چند سالوں میں مخالفین یہ غلط فہمی عام کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہوگئے کہ دین و سیاست میں بڑاگہرا منافات ہے اور دونوں کی راہیں الگ الگ ہیں،اس لیے علمایکرام کو سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔اس کا نتیجہ یہ ہواکہ علمایکرام سیاست سے دور ہوتے چلے گئے اور اس میدان میں ہماری قیادت بالکل مفقود ہو کر رہ گئی۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ دین و سیاست میں کوئی منافات نہیں بلکہ دونوں میں بڑا گہرا ربط ہے اور دونوں لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم،خلفاے راشدین اور علمایکرام نے ہمیشہ ملت اسلامیہ کی بھرپور سیاسی رہنمائی کی ہے۔ملت اسلامیہ کی سیاسی تاریخ کا کوئی باب ایسا نہیں جوعلمایکرام کے عملی سیاست میں حصہ لینے کے مسئلے میں خاموش ہو۔علماے کرام نے جہاں  قرآن و حدیث اور فقہ و تاریخ کی نشرواشاعت کی ہے،وہیں جرائم ومفاسد کے انسداد اور عدل و انصاف کے نفاذ کیلیے بے لوث قربانیاں دی ہیں۔اس لییآج ضرورت اس بات کی ہے کہ علماے کرام سیاسی میدان میں آگے آئیں اور اپنے حکیمانہ اور منصفانہ طرز سیاست سے امت مسلمہ کی رہنمائی فرمائیں۔
            آج ہمارا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم باہمی اختلاف وانتشار میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔پچھلے کئی دہائیوں سے سے ہمارے درمیان اختلاف و انتشار کی جو تشویش ناک صورت حال پیدا ہوگئی ہے، وہ ہماری اجتماعی قوت کو پارہ پارہ کر دینے کے لیے کافی ہے۔آج پوری قوم مختلف ٹولیوں اور گروہوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔آپسی اختلاف وانتشار نے ہمیں پوری طرح کھوکھلا کردیا ہے۔لہذا آج ہمیں سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے قومی و ملی اتحاد۔ اب ہمیں تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کرقومی و ملی مسائل کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا اور دشمنوں کی ناپاک سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے پرزور جدوجہد کرنی ہوگی۔تمام اسلامی حکومتوں کو اپنے سیاسی و مذہبی حریفوں کے خلاف متحد کرنا ہوگا۔اور (انما المؤمنون اخوۃ) کے اسلامی درس کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ اسی طرح ہمیں مختلف جماعتوں میں بٹنے کے بجائے ایک سیاسی جماعت میں شامل ہونا ہوگا،تاکہ ہماری شوکت و سطوت کا آفتاب خوب سے خوب تر تابناک ہو سکے۔
      آج ہمارے یہاں قوم و ملت کی فلاح و بہبودی کے نام پر تنظیموں کی کوئی کمی نہیں ہے۔لیکن ملی اور جماعتی مفاد میں ان کی سرگرمیوں کا دائرہ کتنا محدود ہے، وہ سب پر بخوبی عیاں ہے۔لہذا آج اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ چند متحرک اور فعال افراد پر مشتمل ایک ایسی تنظیم تشکیل دی جائے جو سماجی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے سنگین حالات میں بھی ہمارے دوش بدوش اور شانہ بشانہ رہے۔
      یوں ہی آج ہمارے یہاں قومی و ملی مسائل کے حل کے لیے کوئی منظم طریقہ نہیں ہے۔آج ہمارے یہاں اس طرح کے سنگین مسائل کے حل کا ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے کہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر اتر آئیں اور حکومت کے خلاف چند بلند بانگ نعرے لگا کر اس کی رپورٹ اخبارات کو بھیج دیں۔بس اسی احتجاج اور جذباتی نعروں کے بعد ہم اپنے آپ کو بالکل بری الذمہ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ جماعتی اور ملی مسائل میں صرف احتجاج، اخباری بیانات اور اظہار خیالات سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔بلکہ اس کے لیے ہمیں اجتماعی طور پر سنجیدہ کوششیں کرنی ہوں گی اور ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنے مطالبات، اپنی ضروریات اور اپنا موقف حکومت کے سامنے رکھنا ہوگا، تب جا کرہی کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔ 

        آج ہمارے کچھ افراد سیاسی میدان میں ہیں بھی تو انہیں  جماعتی اور ملی مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔بلکہ وہ ہمیشہ اپنی روٹی سینکنے کے چکر میں لگے رہتے ہیں اور الٹے مسلمانوں ہی کا استحصال کرتے ہیں۔آج مسلم ممالک جو سیاسی ابتری کا شکار ہیں اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ حکومت کا مطمحِ نظر مملکت کے افراد کی صلاح و فلاح کم اور ذاتی مفادات کا حصول زیادہ ہے۔مسلم ممالک کے ٹھیکے دار حکمرانوں نے اسوہ حسنہ کے سیاسی اصول و ضوابط کو نظر انداز کر دیا ہے۔ آج سیاسی قیادت، آمریت اور شخصی جبر و استبداد کے نذر ہوکر رہ گئی ہے۔لہذا وقت کا اہم تقاضا ہے کہ ہمارے علماے کرام سیاسی میدان میں آگے آئیں اور مخالفین کی غلط پالیسیوں کو ناکام بنانے کے لیے لائحہ عمل تیار کریں۔اپنی وسعت و بساط کے مطابق ملت کو درپیش مسائل کا جائزہ لیں اور ان کے حل کی راہیں تلاش کریں۔حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے جن اصولوں پر اپنی مملکت و سیاست کی داغ بیل ڈالی، انھیں اصولوں پر سیاست کی بنیاد رکھی جائے۔شورائی اور جمہوری اصولوں کو پروان چڑھایا جائے۔ تمام لوگوں کو ان کے سیاسی اور بنیادی حقوق ومراعات عطا کیے جائیں اور ایسا پر امن اور غیر مبہم نظام قائم کیا جائے کہ ایک عام شہری بھی کسی طرح کا کوئی باز پرس کرکے مطمئن ہو سکے۔
      اس سلسلے میں بہت جلد ہمیں ایک خوش آئند اقدام کرنا ہوگا ورنہ اگر ہم نے مزید بے اعتنائی برتی تو یہ ہمارے تاریک مستقبل کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور ہمارے مسائل مزید بڑھ بھی سکتے ہیں۔ (یو این این)
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں۔ 
03/ فروری2020

 

«
»

شاہین پرائمری اسکول بیدرکی طالبہ کی درد بھری فریاد

آخر کیوں کچوکے نہیں لگتے دیکھ کر مساجد کی ویرانیاں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے