ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز۔ ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔
دیکھتے دیکھتے ماہ رمضان المبارک رخصت ہوگیا۔ جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں‘ اس وقت عید الفطر کے لئے دو دن رہ گئے ہیں۔ عید کی نماز گھر میں پڑھنی ہے یا لمحہ آخر میں اس کی عیدگاہ یا مساجد میں ا دائیگی کی اجازت ملے گی‘ ان سوالات پر بحث جاری ہے۔
جب سے ہم نے ہوش سنبھالا‘ بلکہ جہاں تک ہمارے بزرگوں کی یادداشت کا تعلق ہے‘ کم از کم سوبرس کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ رمضان المبارک کا پورا مہینہ لاک ڈاؤن میں گھروں میں بند گزر گیا۔ مساجد جو سال میں ایک مہینہ اور وہ بھی پہلے دہے تک مصلیوں کی تعداد سے تنگ دامنی کا شکوہ کرتی تھیں‘ بند رہیں۔ ویسے یہ سلسلہ شب برأت سے ہی شروع ہوچکا تھا۔ 25/مارچ 2020ء کے بعد سے نماز جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ادا کی گئی۔ باجماعت تراویح سے محروم رہے‘ آخری عشرہ میں باجماعت تہجد کا موقع نہیں مل سکا۔ ہاں! روزے سبھی نے رکھے‘ جو بھی عبادتیں ہوئیں گھروں میں خشوع و خضوع سے ادا کی گئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اِن روزوں اور عبادتوں کو اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ و طفیل جو بھی غلطیاں ہوئیں ان کو معاف کرکے قبول فرمائے۔
جن کے معاشی حالات بہتر ہیں‘ جیب میں یا بنک میں پیسہ ہے انہیں زیادہ فرق نہیں پڑا۔ روز کمانے اور کھانے والوں کے لئے فاقہ کشی کی نوبت آگئی۔ این جی اوز نے غیر معمولی انسانیت کا مظاہرہ کیا اور بعض اصحابِ خیر نے جن میں سیاستدان بھی ہیں‘ مذہبی شخصیات بھی اور سماجی خدمت گذار بھی۔ انہوں نے ہر طرح سے لاک ڈاؤن کے متاثرین میں غذائی اشیاء اور راشن کٹس تقسیم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مجلس اتحادالمسلمین کے جواں سال قائد اکبرالدین اویسی نے ہر مذہب اور طبقہ کے عوام کا دل جیتا۔ اپنی شخصی نگرانی میں انہوں نے کروڑوں روپئے کے راشن کٹس تقسیم کروائے۔ مجلس اتحادالمسلمین کے سبھی ارکان اسمبلی اور کارپوریٹرس نے اپنے اپنے طور پر اپنے اپنے متعلقہ حلقوں میں بلالحاظ مذہب و ملت راشن کٹس تقسیم کئے ہیں جس کے لئے صدر مجلس جناب اسدالدین اویسی کی خصوصی ہدایت تھی اور خود ایم پی صاحب نے کئی مقامات پر اپنے ہاتھ سے کٹس تقسیم کئے اور دوسری ریاستوں کو بھی امدادی سامان فراہم کئے۔ جناب غیاث الدین بابو خان کی نگرانی میں حیدرآباد زکوٰۃ اینڈ چیریٹبل ٹرسٹ نے نہ صرف حیدرآباد یا تلنگانہ میں بلکہ کشمیر میں بھی دست تعاون دراز کیا۔ اس کے والینٹرس نے سفر کی تکالیف جھیلیں۔ کوارنٹائن کی قید تنہائی کو بھی سہا اور اپنی روایت کو جاری رکھا۔ سہائتا ٹرسٹ نے جناب انیس الدین اور شاہد غوری کی نگرانی اور کاوشوں سے کروڑوں روپئے کے غذائی پیاکیٹس اور غذائی اجناس ان علاقوں میں پہنچائے جہاں نہ تو حکومت پہنچ سکی نہ ہی بعض این جی اوز کی رسائی ہوسکی تھی۔ جناب سید حمیدالدین چیرمین ریڈ روز گروپ آف کمپنیز کی نگرانی میں ان کے فرزندوں وقار، عمران، عرفان اور ذیشان نے لاک ڈاؤن کے دوسرے دن سے ہی تیار غذاء کے پیاکیٹس کے ساتھ ساتھ ایک خاندان کے لئے کم از کم 15تا 20دن کے اشیائے خوردونوش کی تقسیم کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ اب بھی جاری ہے۔ کنگس گارڈن فنکشن ہال کے سید نذیر نے بھی بے مثال جذبہ انسانیت کا مظاہرہ کیا۔ محمد فاروق (غوث خاموشی ٹرسٹ) نے رابطہ فاؤنڈیشن اور مہر آرگنائزیشن کے تعاون سے روزانہ ڈھائی ہزار تا تین ہزار مستحق غریب افراد کے لئے طعام کا اہتمام کیا۔ شاداں گروپ آف انسٹی ٹیوشنس بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ ڈاکٹر وزارت رسول خان مرحوم نے انسانیت کی خدمت کا جو شمع جلائی تھی‘ ان کے فرزندوں ڈاکٹر صارب رسول خان، جناب ثاقب رسول خان اور جناب شاہ عالم رسول خان اور جناب عازب رسول خان نے اسے روشن رکھا ہے۔ انہوں نے بہت ہی باوقار انداز سے ریلیف کا سامان تقسیم کیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ جلیل انصاری کی زیر قیادت ویژن ٹرسٹ نے حیدرآباد کے علاوہ نلگنڈہ کے 300 سے زائد ائمہ اور مؤذنین کو کچھ نقد رقم اور اناج کی اچھی خاصی مقدار فراہم کیں۔ مولانا غیاث رشادی کی نگرانی میں صفا بیت المال سال کے بارہ مہینے اس قسم کی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران بھی ان کی سرگرمیوں میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ ویسے بھی صفا بیت المال کو اس کی دیرینہ خدمات کی بناء پر عوامی اعتماد حاصل ہے۔ کانگریس کے ابھرتے قائد عامر جاوید نے اس سلوگن کے ساتھ کہ ”اللہ رب المسلمین نہیں رب العالمین ہے‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للمسلمین نہیں بلکہ رحمۃ للعالمین ہیں“ دوسرے مذاہب کے عوام میں بھی امدادی اشیاء تقسیم کیں‘ ان کے اس جذبہ کو کانگریس کے قومی رہنما ششی تھرور کے علاوہ تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر اُتم کمار ریڈی نے خراج تحسین پیش کیا۔ جناب محمد علی شبیر اُن قائدین میں سے ایک ہیں‘ جو بند مٹھی مدد کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ ہر سال رمضان میں اُن سے فیضیاب ہونے والے سینکڑوں افراد میں بے شمار صحافی بھی شامل ہیں۔ لاک ڈاؤن اور رمضان میں جناب محمد علی شبیر نے بڑھ چڑھ کر انسانیت کی خدمات انجام دیں۔ کانگریس کے اور بھی قائدین جن میں فیروز خان، شیخ عبداللہ سہیل، انسان فاؤنڈیشن کے عثمان محمد خان نے بھی اپنی خدمات سے عوام کے دل جیتے ہیں۔جماعت اسلامی، تعمیر ملت کی تو روایت رہی ہے کہ وہ اس قسم کی بحران میں دست تعاون دراز کرنے کے لئے کئی قدم آگے بڑھی ہیں۔
Aldrich Capital Partners جو کئی اسٹارٹ اَپ کمپنیز کی اڈوائزر اور سرپرست ہیں‘ اس نے بھی ایک ہفتہ کی مہم کے دوران ہزاروں خاندانوں کو راحت پہنچائی۔ ایسی کئی تنظیمیں اور ا دارے ہیں‘ جو خاموشی کے ساتھ خدمات ا نجام دے رہے ہیں۔ یہ سب لاک ڈاؤن کے ہیروز ہیں۔ انہوں نے اپنے طور پر جو ممکن تھا وہ کیا۔ اس کے باوجود آبادی کی اکثریت ہر طرح سے پریشان رہی۔ حکومت کی جانب سے جو نقد رقم اور کچھ راشن کٹس تقسیم کئے گئے۔ جس سے وہ لوگ محروم رہے جن کے پاس سفید راشن کارڈ نہیں ہے۔ اور مڈل کلاس سرفہرست ہے جو اس نازک اور آزمائشی دور میں سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ ا یک تو اپنی خودداری کی وجہ سے وہ اس لئے امداد کے لئے لائن میں کھڑا نہیں ہوسکتا کہ اس کا یہ برا وقت ہمیشہ کے لئے ویڈیو میں قید ہوجاتا ہے۔ اور سوشیل میڈیا پر اس کی تشہیر کی وجہ سے عزت اور وقار خاک میں مل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مڈل کلاس کے بیشتر خاندانوں نے خودداری کو مجروح ہونے سے محفوظ رکھنے کے لئے بھوکا رہنا گوارہ کیا۔ یہ قدرت کی مدد تھی کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کیلئے امداد دینے اور لینے والے دونوں کیلئے چہرے پر ماسک لگانا ضروری ہے جس کی وجہ سے بہت سے خوددار چہرے ان نقابوں کے پیچھے چھپ گئے۔
رمضان صبر کا مہینہ ہے اور رمضان 2020 میں ہر طبقہ کے فرد نے بہت زیادہ صبر سے کام لیا۔ کیوں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر کاروبار بند رہا۔ چھوٹے بڑے بیوپاری جو سال بھر رمضان سیل کی منصوبہ بندی کرتے رہے‘ وہ نوجوان جو اس ایک مہینے میں دن رات محنت کرکے اپنے ارکان خاندان کی ضروریات کی تکمیل کرتے… صرف اللہ کی مرضی کے آگے سرتسلیم خم کئے ہوئے رہے
ایسا رمضان…. جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا… مگر کشمیر کے مسلمانوں کو ایسے رمضان کا تجربہ ہے۔ کشمیر کے ایک ممتاز صحافی جناب شین میم احمد کے الفاظ میں 1990ء سے کشمیری مسلمان لاک ڈاؤن میں ہیں۔ ہندوستانی مسلمان رمضان2020ء میں آزمائشی دور سے گذر رہے ہیں جبکہ کشمیری مسلمان 30برس سے ایسے دور سے گذرتے رہے ہیں۔ مساجد سے اذان کی آواز بلند ہوتی ہے مگر باجماعت نماز نہیں ہوتی۔ جمعہ کی نماز اکثر مساجد میں نہیں ہوتی۔ جانے کتنے ہی عیدیں کشمیری مسلمانوں نے اپنے گھروں میں اللہ کا شکر اور حالات پر صبر کرتے ہوئے گذاردیں۔ جگموہن کے دور گورنری سے اس قسم کے حالات کا آغاز ہوا تھا۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ پانچ اگست 2019 کے بعد سے جو حالات ہیں‘ کچھ دنیا کے سامنے ہیں اور بہت کچھ سامنے نہیں آسکیں۔ کیوں کہ اکثر و بیشتر کشمیر کے زیادہ تر علاقے کرفیو میں رہتے ہیں۔ پھر وہاں کی حالات کی وجہ سے وہاں کے عوام خود کو لاک ڈاؤن میں محسوس کرتے ہیں۔
فلسطینی مسلمانوں کا بھی کم و بیش یہی حال ہوگا…. فرق صرف اتنا ہے کہ ہم ایک عالمی وباء سے بچاؤ کے لئے لاک ڈاؤن میں رہے… اور لاک ڈاؤن کا یہ عرصہ ہمیں ان عوام کے جذبات سے ان کے مسائل اور مصائب کا احساس دلانے کے لئے کافی تھا۔لاک ڈاؤن کے جس دور سے ہم گذرے ہیں وہ دراصل ہمارے آنے والے دور کے لئے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار رہنے کا موقع تھا۔ دو مہینوں کے دوران بہت سے تلخ تجربات ہوئے ہیں جس کی روشنی میں ہم اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔چاہے وہ وقت کا استعمال ہو‘ یا پیسے کی!(یو این این)
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
21مئی 2020(ادارہ فکروخبر)
جواب دیں