عبدالکریم ندوی گنگولی
جامعہ ضیاءالعلوم کنڈلور کرناٹک
ہندوستان میں آج ہم مسلمان جس چوارہے پر کھڑے ہیں وہ بڑا ہی پر خطر و پر فتن ہے اور جس راہ کے مسافر ہیں اس نے زمانے بھر کو دکھوں اور رنج و آلام کی صلیب کے سامنے لاکھڑا کردیا ہے، بے روزگاری، بے حالی، موب لنچنگ، ہجومی تشدد کا بلا خیز طوفان، پریشانیوں کے آتش فشاں، مصائب سے بھر پور عہد حال، زوال انسانیت کا نوحہ پڑھتا ہوا مستقبل، ایسے دورِ پر آشوب میں ہر صاحب نظر چیخ اٹھتا ہے، یہ چیخ کبھی سینے میں گھٹتی اور آلام روزگار کے بوجھ تلے چھپتی ہے، بالآخر ہمالہ سے بلند ہوکر اپنا اعلان کرتی نظر آتی ہے
لب پہ پابندی تو ہے احساس پر پہرا تو ہے
پھر بھی اہل دل کو احوال بشر کہنا تو ہے
جھوٹ کیوں بولیں فروغِ مصلحت کے نام پر
زندگی پیاری سہی لیکن ہمیں مرنا تو ہے
ادوار اور زمانے محو سفر رہتے ہیں، کسی لمحہ ان کو قیام و وقوف کی گنجائش نہیں اور مسلسل حالات کے اتار چڑھاؤ، نشیب و فراز کا عینی مشاہدہ کرتے رہتے ہیں، ان میں کچھ ادوار اتنے خوش بخت ہوتے ہیں کہ چاندنی بوئیں تو ستارے اگتے ہیں، مٹی کو چھولو تو سونے کا روپ دھار لیتی ہے، لیکن ہائے رے بدقسمتی! ہمیں جو دور نصیب ہوا ہے وہ فقط زندگی بے بندگی شرمندگی سے عبارت ہے، مذہب پرستی کی مسموم فضاء نے ہر کشت انسانیت کو خاکستر بنادیا ہے، امن و آشتی، سکون و اطمینان، چارہ سازی و انسان دوستی، غمگساری و ہمدردی جیسے حسن اعمال کو شیطانی و طاغوتی ہواؤں نے مکدر کردیا ہے، دور دور تک ان چیزوں کا سایہ تک نظر نہیں آتا، ایک دوسرے کے تئیں خیر خواہی اور انسانیت نوازی جیسے نیک اعمال شرمندۂ تعبیر نے ہونے والے خواب بن چکے ہیں، مسجدیں اور عبادت گاہیں تو ہیں مگر جبینیں سجدوں کے تقدس سے محروم ہیں، سچائی اور صداقت نے مصلحت اور ریاکاری کا لبادھ اوڑھ لیا ہے، بے حیائی کا وہ سیلاب جو کبھی یورپ کی گلیوں تک محدود تھا، اب ہمارے دروازہ پر دستک دے رہا ہے اور بے ساختہ یہ اشعار سازِ دل کو چھیڑ رہے ہیں
جس میں کچھ انسان کی توقیر کے احکام تھے
وہ شریعت معبودوں کے زیر سایہ ہوگئی
آگئیں بازار میں بکنے خدا کی عظمتیں
جی اٹھی ہیں خواہشیں اور مرگیا ہے آدمی
بالعموم ہندوستان اور بالخصوص جنت نظیر کشمیر ظلم و بربریت کی بھٹی بن چکا ہے، طاغوتی طاقتوں نے مسلم قوتوں کی شان رفتہ کا بھرم پامال کردیا ہے، قیامت پر قیامت برپا ہوگئی ہے، کشمیری بچوں کی چیخ و پکار، ماؤں کی غم آشنا و دل سوز صدا، نوجوانوں کی تڑپتی لاشیں، بوڑھوں کی درد بھری آہ، آگ میں جھلستی صبحیں اور دردر و کرب میں ڈوبی شامیں ہمارے جسم کو جھنجھوڑ رہی ہیں اور یہ صدا دے رہی ہیں کہ
ایک حشر سا برپا ہے ہر سمت قیامت ہے
اب جینے سے موت اچھی، جینا بھی تو ذلت ہے
عالمی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو ہر سمت خوں آشام مناظر ہیں، دشمنانِ اسلام اہل مغرب نے شان رسالت پر ہاتھ ڈال دیا ہے، آقائے عالی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنا کر نمائشیں کی جارہی ہیں، قرآن پر منفی فلم بن چکی ہے، سرعام اسلام کو رسوا کیا جارہا ہے، ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو قدموں تلے روند دیا گیا ہے، مگر ہم پھر بھی ایک نہیں ہوتے، صور اسرافیل بچ چکا اور ہم عزرائیل کا انتہائی کرب اور بے بسی کی حالت میں انتظار کر رہے ہیں، ان ہمت شکن حالات میں اللہ تعالی ہی ہمارا معین و مددگار ہے، ہمیں چاہیے بلکہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے مالک سے اپنا تعلق استوار کریں اور اپنے گناہوں کی معافی تلافی کرتے ہوئے اسی سے راز و نیاز کریں.
راقم الحروف کو یقین ہی نہیں بلکہ کامل ایمان ہے کہ"ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس" پریشانی اور فتنہ و فساد کا ظہور انسان کے کرتوتوں کا نتیجہ ہے، لیکن بندۂ ناتواں عالم بے بسی میں خالق کونین سے ایک بندۂ ناچیز کی صورت سوال کرتا ہے، اے ہمیں پیدا کرنے والے کیا ہمارے مقدر میں یہی دور ذلت و خواری تھا، ایسا اندھیرا ہے کہ ہم روشنی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے، دیکھتے ہی دیکھتے کھانے کی چیزیں انسان سے روٹھ گئیں، امراض نے ہمیں موت کے رحم وکرم پر چھوڑدیا، اجلے دن تو نہ دیکھ سکے لیکن زندگی تاریک راتوں میں گھر چکی، علم کا بڑا شہرہ ہے مگر دل بے سرور ہیں، چاروں طرف بجلی کی روشنی ہے، مگر آنکھیں بے نور ہیں اور اب تو بجلی بھی خواب بن گئی، ظاہر اور باطن دونوں اندھیرے میں ڈوب گئے، شیطان مسکرا رہا ہے مگر انسانیت فریاد کناں ہے، شرافت کمزوری، عزت کو مجبوری اور غیرت کو خاموشی کا نام دے دیا گیا ہے، اے خالقِ ارض وسماء! ہم تیرے ہی بھکاری ہیں، ہمیں اس عہد ناپرساں کی بے بسی، بے حسی اور ذلت و خواری کے ظلمت کدے سے نکال دے، ہمیں وہی اجالے پھر بخش دے جن سے زندگی کی خوشیاں اور خوشحالیاں لوٹ آئیں، پیٹ کو بھوک اور زندگی کو شرمندگی سے نجات دے دے، ورنہ جب مجبوری اور ذلت و خواری ہی مقدر بن جائے، جب رزق ملازمت، کاروبار اور باوقار زندگی کے تمام دروازے بند کر دیئے جائیں تو حالات کی بے بسی کی کوکھ سے انقلاب جنم لیتا ہے، اب وہ شرعی و انسانی سرحد عبور کرنے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتا.
نئی صبح چاہتے ہیں نئی شام چاہتے ہیں
جو یہ روز و شب بدل دے وہ نظام چاہتے ہیں
اسی بات پر ہیں برہم یہ ستم گران عالم
کہ جو چھن گیا ہے ہم سے وہ مقام چاہتے ہیں
کسے حرف حق سناؤں کہ یہاں تو اس کو سننا
نہ خواص چاہتے ہیں نہ عوام چاہتے ہیں
یہ نہیں کہ تو نے بھیجا ہی نہیں پیام کوئی
مگر اک وہی نہ آیا جو پیام چاہتے ہیں
تری راہ دیکھتی ہیں مری تشنہ کام آنکھیں
ترے جلوے میرے گھر کے در و بام چاہتے ہیں
وہ کتاب زندگی ہی نہ ہوئی مرتب اب تک
کہ ہم انتساب جس کا ترے نام چاہتے ہیں
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں