اک بھیڑ ہے ساحل پر جب ڈوب گیا کوئی

اس لئے سنگھ کے بڑے اُسے گھر واپسی کا نام دے رہے ہیں۔ یہ جو بھی ہیں حقیقت یہ ہے کہ اگر مسلمان ہیں تو اس لئے کہ ان کے نام جمیل، ظہیر، کریم، جمعراتی اور خیراتی جیسے ہیں انہیں اگر آٹھ سو سال غلامی میں زندگی گذارنے والے ہندو بنا لیتے ہیں تو یہ ہندو بھی ایسے ہی ہوں گے کہ ان کے نام رام پرشاد، چھوٹے لال اور ہنومان داس ہوجائیں گے لیکن نہ ان کی گردن سے ٹاٹ کی بوری اترے گی جس میں کوڑا بھرتے ہیں نہ ہاتھ سے وہ لوہے کا تار چھوٹے گا جس سے وہ کوڑے کے ڈھیر سے ایسا کوڑا نکالتے ہیں جو کوڑا ہونے کے باوجود انہیں روٹی بھر کے پیسے دے دیتا ہے۔
مسلمانوں نے کبھی ہندوؤں کو مسلمان بنانے کے لئے نہیں سوچا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں مسلمانوں کو سچا اور پکا مسلمان بنانے سے ہی فرصت نہیں ملی 65 سال سے ہندوؤں کے ہاتھ میں حکومت ہے انہیں معلوم ہے کہ دہلی میں ایک بزرگ حضرت مولانا محمد الیاسؒ نے 1920 ء سے یعنی 95 سال سے مسلمانوں کو مسلمان بنانے کی مہم چھیڑ رکھی ہے۔ یہ وہ مسلمان ہیں جو ہندو سماج میں رہ کر اور ہندو لڑکیوں سے شادی کرکے ساری ہندوانہ رسمیں لے آئے اور اپنے گھروں کو آدھا ہندو بنا دیا سوسال ہونے کو آئے آج پورے ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں اور یوروپ کے تمام ملکوں میں نیز چین، جاپان اور روس میں ہی نہیں عالم اسلام میں انتہا یہ کہ سعودی عرب میں بھی جہاں سے اسلام آیا تھا وہاں کے لوگوں کو اسلام کی حقیقت سے واقف کرا رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ دنیا بھر میں عیسائی اور بودھ لاکھوں کی تعداد میں مسلمان ہوتے جارہے ہیں ایسے میں جیسے ہندوستان میں بھی بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ہوگئے اس لئے کہ انہوں نے اسلام کا مطالعہ کرکے اسلام کو قبول کیا۔
آر ایس ایس اور وشوندو پریشد جو کررہے ہیں وہ صرف الیکشن کے لئے ہے اس سے زیادہ ان کی سوچ نہیں ہے۔ اُن کے کرنے کا کام وہ تھا کہ ہندو کو ہندو بناتے یہ کیسا عجیب دھرم ہے کہ ہمارے ایسے ہندو دوست بھی تھے جو جب آجاتے تھے تو پریشان کردیتے تھے کہ ایسے ہوٹل میں کھانا کھلاؤ جہاں پیاز اور لہسن سے کھانا نہ بنتا ہو۔ اور گھنٹوں پریشان ہوکر ان کا پیٹ بھرپاتے تھے اور ایسے دوست بھی تھے جو ہوٹل میں بیٹھے اور بیرے نے پوچھا کہ چھوٹے کے کباب کھائیں گے یا بڑے کے تو انہوں نے کہا کہ بڑے کے لاؤ اس لئے کہ جب پہلی بار گوشت کھایا تو اس لئے بڑے کا کھایا کہ جب بڑے کا ہے تو بڑھیا بھی ہوگا اس وقت کوئی مسلمان دوست ساتھ نہیں تھا۔
ہم نے ایک دوست رام نرائن ترپاٹھی کو یہ کہہ کر انڈا کھلایا کہ یہ ’جیوہتیا‘ نہیں ہے اس کی حیثیت آلو کی ہے۔ اس وقت کھانے کو کچھ اور نہیں تھا اور بہت دیر تک ملنے کی اُمید بھی نہیں تھی پھر وہ زندگی پھر انڈا کھاتے رہے۔ وہ بہت پڑھے لکھے اور علمی آدمی تھے تصنیف کا بھی شوق تھا، انہوں نے ایک دن معلوم کیا کہ تم مسلمانوں نے قادیانیوں کو کیوں اسلام سے نکال دیا؟ وہ کلمہ بھی پڑھتے ہیں، قرآن بھی پڑھتے ہیں، مسجد میں جاکر نماز بھی پڑھتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ پنڈت جی ہم سے پہلے ایک بات کا جواب دیجئے کہ سناتن دھرم یا آریہ سماج میں کیا کیا کرنا ضروری ہے؟ اور وہ کیا ہے جس کے نہ کرنے سے ہندو نہیں رہتا اور وہ کیا ہے جس کے کرنے سے ہندو نہیں رہتا؟ ان کا جواب یہ تھا کہ ہم جب تک اپنے کو ہندو کہیں گے ہندو رہیں گے۔ ہم نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم اپنے کو ہندو کہیں تو آپ ہمیں ہندو مان لیں گے۔ انہوں نے کہا مان لیں گے۔ تب ہم نے بتایا کہ ہمارے عالموں نے قادیانیوں کو صرف اس لئے اسلام سے نکال دیا کہ وہ حضرت محمدؐ کو نبی تو مانتے تھے آخری نبی نہیں مانتے تھے جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ آخری نبی ہیں ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اب وہ ہم سے زیادہ نماز پڑھیں ہم سے زیادہ روزے رکھیں ہم سے زیادہ قرآن پڑھیں ہم انہیں مسلمان نہیں مانیں گے قادیانی اس لئے کہتے ہیں کہ قادیان میں پیدا ہونے والے ایک آدمی نے دعویٰ کیا کہ میں نبی ہوں اور کچھ لوگوں نے اس کی بات کو سچ مان لیا۔ جس نے سچ مانا وہ مسلمان نہیں رہا قادیانی ہوگیا۔
موہن بھاگوت اور اشوک سنگھل پہلے ہندوؤں کو تو ہندو بنائیں یہ کیسے ہندو ہیں کہ رام کو بھگوان مانو تب بھی ہندو راون کو مانو تب بھی ہندو رام کو فرضی داستان کہو تب بھی ہندو سائیں بابا کو بھگوان مانو تب بھی ہندو انہیں بھگوان یا اَوتار مانو تب بھی ہندو، سچن تندولکر کو بھگوان مانو تب بھی ہندو کرکٹ کو اپنا دھرم مانو تب بھی ہندو۔ مندر میں جاکر پوجا کرو تب بھی ہندو، مندر میں جانے والوں کو لاٹھی سے مارو تب بھی ہندو۔ اب آگرہ میں جن بنگلہ دیسیوں کو ہندو بنایا ہے یہ کون سے ہندو ہیں؟ یہ برہمن ہیں، ٹھاکر ہیں، کائستھ ہیں، بنئے ہیں یا ان کی ایک الگ ذات کوڑا فروش کی بتائی جائے گی؟ پھر ان کی شادی کا مسئلہ ہوگا تو جو اُنہیں ہندو بنا رہے ہیں کیا وہ اپنی بیٹی سے، ان کے بیٹے کی اور ان کی بیٹی سے اپنے بیٹے کی شادی کریں گے؟ ان کے ہاتھ کا پکا کھانا کھائیں گے پانی پئیں گے یا چھوت چھات برتیں گے؟ ہندو بنانے کی رسم ادا کرنے کی کہانی تو بس اتنی ہے کہ ایک کٹورے میں گھی ایک میں گائے کا موت (پیشاب) پنڈت جی اشلوک پڑھتے جائیں اور ہندو دھرم قبول کرنے والا ڈوئی سے تیل اور موت آگ میں ڈالتا جائے بعد میں اپنے سر کی ٹوپی بھی آگ میں ڈال دے۔ یہ ٹوپی اس نے خریدی ہو یا ناگ پور سے آئی ہو اس سے بحث نہیں۔
اب رہی اسلام قبول کرنے کی بات تو ہندو ہوتے ہوئے کوئی بھی کام کرتا ہو اس کا کوئی بھی پیشہ ہو اور اس کی ذات کچھ بھی ہو اس کا لڑکا اگر ہمارے معیار کا ہوگا تو ہم اپنی بیٹی سے اس کی شادی کردیں گے اور اس کی بیٹی ہمارے ماحول میں فٹ ہونے کے قابل ہوئی تو ہم اسے بہو بنالیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں یہ نہیں ہے کہ سید لڑکے کی بیوی بھی سید ہوگی اور قصائی کی بیوی قصائی ہوگی۔ میرے چار بیٹے ہیں چاروں بہوؤں کی ذات الگ ہے۔ اسلام میں اس کا لحاظ کرنے کے لئے کہا گیا ہے کہ گھروں کا معیار اور گھروں کا ماحول ایک جیسا ہو۔ اب سنگھ اسے گھر واپسی کہہ رہا ہے گھر واپسی کا مطلب تو یہ ہے کہ اپنی برادری میں شامل کیا جائے گا اور ہندو یہ کرنے سے رہا پھر اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ جو مسلمانوں کی غلامی کی پھانس کلیجوں میں لگی ہے اسے نکالا جائے۔ لیکن نکالنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہندو اپنے کو ذات برادری کے چکر سے نکال لیں ورنہ چار دن کا شوق ہے جو پورا ہوکر گلے کی ہڈی بن جائے گا۔

«
»

ابھی انصاف بہت دور ہے

’’کن فیکون‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے