تحریر:جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)
جس طرح ہر قوم و ملت کے اندر ایک خاص موقع ہوتا ہے اس موقع کو مخصوص نام دیا گیا ہے اور دیا بھی جاتا ہے جسے عموماً تہوار کہا جاتا ہے اور ہر تہوار اپنا ایک مخصوص مزاج اور پس منظر رکھتا ہے، بالکل اسی طرح عیدین کا بھی ایک حسین، دل کش اور ایمان افروز پس منظر ہے۔رمضان المبارک ایک انتہائی بابرکت مہینہ ہے. یہ ماہ مقدس اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں، مغفرتوں اور رحمتوں و برکتوں کا خزینہ ہے قرب خدا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اپنے اندر ایمانی و روحانی انقلاب پیدا کرنے کا عظیم الشان موقع ہے۔جب بندہ مومن اتنی بے پایاں نعمتوں میں ڈوب کر اور اپنے رب کی رحمتوں سے سرشار ہوکر اپنی نفسانی خواہشات، سفلی جزبات، جسمانی لذات، محدود ذاتی مفادات اور گروہی تعصبات کو اپنے رب کی بندگی پر قربان کرکے سرفراز و سر بلند ہوتا ہے، تو وہ رشک ملائک بن جاتا ہے، اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے، از راہ کرم عنایت باری تعالیٰ کا یہ تقاضہ بن جاتا ہے کہ وہ پورا مہینہ اپنی بندگی میں سرشار، سراپا تسلیم واطاعت اور پیکر صبر و رضا بندے کے لئے انعام و اکرام کا ایک دن مقرر فرمادے۔چنانچہ یہ ماہ مقدس ختم ہوتے ہی یکم شوال کو وہ دن عید الفطر کی صورت میں طلوع ہوجاتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ روزہ میرے لئیے ہے اور اس کی جزا میں ہی دونگا تو گویا عید الفطر اجرت ملنے کا دن ہے عید الفطر کے دن روزہ رکھنا حرام قرار دیا گیا ہے یعنی عید الفطر سے ایک دن پہلے بلا کسی عذر شرعی کے روزہ چھوڑنا گناہ ہے اور عید الفطر کے دن روزہ رکھنا گناہ ہے۔
رمضان کی آخری رات فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق لیلۃ الجزاء."قرار پائی ہے اور شوال کا پہلا دن یوم الجزاء قرار پایا ہے جس انعام و اکرام سے فیضیاب ہونے کے بعد اللہ کا عاجز بندہ سراپا سپاس بن کر شوال کی پہلی صبح کو یوم تشکر کے طور پر مناتا ہے۔بس یہی حقیقت عید اور روح عید ہے، چنانچہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:"رمضان کی آخری رات میں آپ کی امت کے لئے مغفرت کا فیصلہ (بارگاہ الوہیت سے) کردیا جاتا ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کیا وہ رات شب قدر ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:شب قدر تو نہیں ہے لیکن عمل کرنے والا جب عمل پورا کردے تو رحمت الہی کا تقاضہ اور سنت جاریہ یہ ہے کہ اسے پورا اجر عطا کیا جاتا ہے۔فتح مکہ کے موقع کو عید الفطر قرار نہیں دیا گیا غزوہ بدر میں عظیم الشان فتح حاصل ہوئی اور اسلام کا پرچم بلند ہوگیا لیکن اس موقع کو بھی عیدالفطر قرار نہیں دیا گیا حالانکہ اللہ رب العالمین کے اختیار میں سب کچھ ہے وہ چاہے تو دن کو رات میں اور رات کو دن میں بدل دے وہ ہرچیز پر قادر ہے اسے اپنے بندوں کی وہ ادا یعنی دن بھر کا بھوکا پیاسا رہنا ذکر و اذکار کرنا اور شام کو دسترخوان پر افطاری سجا کر بھی نہ کھانا بلکہ کھانے کے لئے حکم خداوندی کا انتظار کرنا اور جب حکم ہوجائے تو حلق کے نیچے پانی اتارنا اور اسی موقع کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ اے موسی جب تم کوہ طور پر آتے ہو مجھ سے کلام کرنے کے لیے تو میرے اور تمہارے درمیان ستر پردوں کا فاصلہ ہوتا ہے، لیکن میرے آخری نبی کی امت یعنی امت محمدیہ کو ایک ایسا عظیم الشان مہینہ عطا کیا جائے گا کہ وہ پورا دن روزہ رکھے گی اور ایک مہینہ تک روزانہ شام کو کھانے کے سارے انتظامات کر لینے کے بعد بھی جب تک میرا حکم نہیں ہوگا تب تک نہیں کھائے گی اور وہ وقت ایسا ہوگا میرے اور میرے روزہ دار بندے کے درمیان ایک پردے کا بھی فاصلہ نہیں ہوگا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو رمضان المبارک کے روزے کے عوض میں عیدالفطر عطا فرمائی یعنی عیدالفطر اجر پانے کا دن ہے اور ایک ماہ روزہ رکھنے کی سعادت نصیب ہونے پر شکریہ ادا کرنے کا دن ہے اب بندوں کو یہاں سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا اسے پورا کیا اس نے رمضان المبارک کے مہینے کو رحمتوں سے لبریز کیا برکتوں کا خزینہ بنایا ہر دن وقت افطار غریب سے غریب مسلمان اتنے لوازمات کا انتظام کرلیتا ہے کہ وہ جب افطار کرنے بیٹھتا ہے تو اسے عید جیسی خوشی کا احساس ہوتا ہے اور اللہ کی ذات پر بھروسہ اور یقین میں اضافہ ہوتا ہے اور جب دل پر ہاتھ رکھ کر سوچتا ہے تو یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے عام دنوں میں امیر سے امیر شخص مسلسل ایک ماہ تک شام تک ماہ رمضان کی طرح کھانے پینے و دیگر لوازمات کا انتظام کرنا چاہے تو انتہائی مشکل ہے یہی برکت کا سب سے بڑا ثبوت ہے اور سب سے مضبوط دلیل بھی ہے اب بندہ یہ سوچے سمجھے اور فیصلہ کرے کہ رمضان کی طرح ہم عام دنوں میں بھی نمازوں کا اہتمام کریں ذکر و اذکار کریں اور مساجد کے میناروں سے مؤذن کی صدا کا انتظار کریں تو اللہ رب العالمین کی طرف سے یقیناً ہمیں ہر روز سکون میسر ہوگا جس طرح ہم رمضان کے مہینے میں غریبوں کا خیال کرتے ہیں تو ایسے ہی عام دنوں میں بھی غریبوں کا خیال رکھیں تو ہر ایک کے گھر کے چولہے میں آگ جلے گی ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ مذہب اسلام مکمل طور پر ضابطہ حیات ہے یہ صرف تقاریر و تحاریر تک محدود نہیں ہے بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کرکے پورے عالم اسلام اور عالم انسانیت کیلئے پیغام دیا ہے کہ یہی طریقہ مشعل راہ ہے اور ذریعہ نجات ہے یتیموں سے اس قدر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم محبت کیا کرتے تھے کہ مال غنیمت میں ملا ہوا حصہ بھی یتیموں کو دیدیا کرتے تھے اور آج تو عید الفطر کا دن ہے رمضان المبارک کے تینوں عشرے کی خصوصیات سے مستفید و مستفیض ہونے کے بعد عید الفطر کا چاند نظر آگیا ہر طرف خوشیوں کا ماحول ہے صبح ہوچکی ہے نماز فجر بھی ادا کی جاچکی ہے اب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین عید گاہ کی طرف جارہے ہیں وہ بھی موقع آیا کہ چودھویں کے چاند کے مانند چمکنے والا چہرہ بھی لوگوں نے دیکھا یعنی نبی سید الکونین جارہے ہیں نماز عید الفطر ادا کرنے کے لئے راستے میں ایک ایک بچہ اپنی آنکھوں سے آنسو بہا رہا ہے اس خوشی کے موقع پر بھی آپ نے اپنے قدم کو اس یتیم اور غریب بچے کے آگے نہیں بڑھا یا بلکہ وہیں ٹھہر گئے اور بچے سے رونے کی وجہ معلوم کی بچے نے کہا کہ کاش دنیا میں آج میرا بھی باپ ہوتا، میری بھی ماں ہوتی تو ضرور مجھے نہلا دھلاکر نئے کپڑے پہناتی تو میں بھی عید گاہ جاتا جس سب کے چہروں پر خوشی ہے اسی طرح میرے چہرے پر بھی عید کی خوشی ہوتی لیکن افسوس اس دنیا میں میرا کوئی نہیں اتنا سننا تھا کہ خود محسن انسانیت کی آنکھوں میں آنسو آگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کا ہاتھ پکڑا اسے گھر لے آئے اور نہلایا دھلایا نئے لباس میں ملبوس کیا اور بچے سے پوچھا کہ کیا تجھے منظور ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تیرا باپ بن جائے، فاطمہ تیری بہن جائے اب وہی بچہ کہتا ہے کہ دنیا میں مجھ سے زیادہ خوش نصیب و خوش قسمت کوئی نہیں، مجھ سے زیادہ خوشی کسی کو حاصل ہوہی نہیں سکتی کیونکہ میرے باپ رحمۃ اللعالمین ہیں، نبیوں کے سردار ہیں اور میری بہن جنت کی خواتین کی سردار ہے اب اس بچے کی انگلی پکڑ کر نبی اکرم عیدگاہ کی طرف بڑھ رہے ہیں فرشتے بھی خوشیوں سے جھوم رہے ہیں کہ یہی انگی جب مہد میں اٹھتی تھی اور جدھر جدھر گھومتی تھی اُدھر اُدھر چاند بھی گھوما کرتا تھا اسی انگلی سے چاند بھی دو ٹکڑے ہوا اور یہی انگلی آسمان کی طرف اٹھی تو ایک ہفتے تک ہونے والی بارش بھی ٹھہر گئی کیونکہ انگی سے جدھر جدھر اشارہ فرمایا سید عرب وعجم نے اُدھر اُدھر بادل چھنٹ کر چلا گیا یہ شان ہے میرے آقا کی اور یہی پیغام ہے عید الفطر کا کہ خوشی کے موقع پر ہر ایک کا خیال رکھا جائے اپنی خوشی میں غریبوں مسکینوں، پڑوسیوں کو شامل کیا جائے اور ماہ رمضان کا بھی یہی پیغام ہے کہ عید کے بعد بھی مسلمانوں پر رمضان کے اثرات پوری طرح مرتب نظر آئے،، اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی و محبت اور حسن سلوک سے پیش انیکی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
21مئی 2020(فکروخبر)
جواب دیں