عیدالفطر: لیلۃالجائزۃ اور غریبوں کی امداد کادن:

  عید الفطر اظہار تشکر وخوشی کادن ہے

ازقلم۔محمدمجیب احمدفیضی،

 دنیا!جانتی ہے کہ مسلمان مسلسل ایک مہینہ رمضان المبارک کا روزہ رکھ کر بھوک وپیاس کی شدت برداشت کرتا ہے۔اس حوالے سے طرح  طرح  کے مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ وقت سے پہلے دانہ وپانی کا ایک قطرہ بھی نہیں کھاتا پیتا ۔اس کے جذبۂ ایمانی پر ہر انصاف پسند  نثار۔ مطعومات ومشروبات کی تقریبا ساری چیزیں موجود ہونے کے باوجود بھی ان کے قریب باالکل نہیں جاتا۔ اپنے خالق ومالک کا خوف  اس کے دل میں اس قدرراسخ اور  قوی ہوتا ہے کہ دنیا کی نظروں سے چھپ کر کھانا پینا کوئی مشکل ترین امرتو  نہیں بلکہ آسان  سے آسان تر ہے۔ لیکن رب تعالی جل شانہ جو علیم و خبیر ہے ان اللہ علی کل شئ قدیر ہے۔  جس کا علم ہرشئ کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ اس کی نظروں سے کائنات کی کوئی بھی شئ چھپ نہیں سکتی ۔اس سے بچنا صرف مشکل ہی نہیں"محال ہے کیوں کہ خالق عالم کی نظروں سے کوئی شی پوشیدہ نہیں۔تیس دن روزہ رکھنے کیبعد  مالک حقیقی انہیں اس کے عوض میں عید سعید  کی برکتیں رحمتیں اور اس کی خوشیاں اپنے بندے کو عطا فرماتاہے پھر رفتہ رفتہ  اس مہینے کا رحمت وانوار میں ڈوبا ہوا ایک ایک لمحہ اک اک ساعت ہم سے دن بہ دن رخصت ہوتے ہوئے ھمیں آپ  کو الوداع  کہتے ہوئے نکل جاتا ہے۔ اور  پھر کبھی انتیس اور کبھی تیس رمضان کو  ہلال عید کی رویت ہوتی ہے۔  عید سعید کا چاند نظر آتے ہی مسلمانوں میں خوشیوں مسرتوں کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔ ہر کوئی چھوٹا ہو یا بڑا عید سعیدکی خوشیوں میں برابر کا شریک نظر آتا ہے۔سب کے لبوں پے  اک طرح سے مسکراہٹ کھیل جاتی ہے۔ خاص کر نابالغ چھوٹے چھوٹے اسلامی بردران بڑے ہی مسرور شادماں نظر آتے ہیں۔ان کی خوشیوں کی انتہاء نہیں رہتی۔  مسلمانوں کا ہر خاص وعام طبقہ  صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے اس پاک روش پر چلتے ہوئے  ایک دوسرے کو عید سعید کی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔اس  وقت کا منظربڑا ہی خوبصورت ہوتا ہے۔ خوشیوں کے سامنے  مایوسی وغمگینی کا دور دور تک کوئی تصور نہیں ہوتا۔ بڑا خوش نما اور اچھا ماحول ہوتا ہے۔  اور  کیوں نہ ہو ایسی خوشی جلدی جلدی نہیں آتی بلکہ سال بھر میں ایک بار آتی ہے۔ اللہ عزوجل  روزہ داروں کے لئے عیدالفطر کی شکل میں ایک عظیم تحفہ عنایت فرماتا ہے۔ یہ نہایت خوشی کادن  ہوتا ہے عیدجہاں رب کی طرف سیامت مسلماں کیلئے ایک انمول تحفہ ہوتا  ہے۔ وہیں پر لوگوں کے مابین بھائی چارگی اور امن  وامان کا بھی صحیح پیغام اور درس  کا سامان ہوتا ہے۔۔  بلکہ سچ تو یہ ہے کہ!عیدالفطر امت مسلماں کے لئے بڑا ہی مبارک ومسعود اور پرعظمت دن ہے۔ جس دن خالق کونین نے بہشت بریں کو نیست سے ہست کا وجود بخشا۔ اسی دن  اس میں طوبی کا درخت نصب فرمایا۔ سید الملائکۃ  حضرت جبریل امین رب کے احکام بندوں تک پہونچانے کیلئے منتخب کئے گئے۔اسی دن فرعون کے جادوگروں کو کفر وضلالت کے تاریکی سے ہدایت مغفرت کی روشنی ملی۔  اس  دن کو  عام دنوں کی طرح ایسے ہی نہیں گزارنی چاہئیے۔ بلکہ مسلمانوں کو  اپنے تئیں آپسی کدورتوں نفرتوں کو ختم کر کے اتفاق واتحاد پر مکمل زور دینا چاہئیے۔ عید جہاں خوشیوں کا  ایک تہوار ہے۔ وہیں پر اخوت ومحبت کا بہی تہوار ہے۔ چنانچہ عید یکم شوال المکرم /2 ھجری سے منایا جارہا ہے۔ اور اس کو سب سے پہلے انسانیت کے سب سے بڑے محسن اسلام کے سب سے بڑے داعی پیغمبر اسلام حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ سلم نے مدینۃ منورہ کے باہر اپنے جاں نثار صحابۂ کرام کے ساتھ منایا۔آج بھی فزندان توحید آپ کی روش کو اپناتے ہوئے شہر رمضان  گزار کر  یکم شوال کو عید سعید مناتے ہیں۔  عیدکا دن ان روزہ دارں کیلئے جو مسلسل ایک ماہ مجاہدہ اور نفس کشی کرتے ہیں  عید ان کیلئے اعزاز  وانعام   واکرام کے طور پر اپنی دامن محبت میں مسرتوں وشادمانیوں کا سوغات  پیش کرتا ہے ۔ لیلۃالجائزۃ۔! انعام کی رات!  حدیث مصطفی کی ضو بار کرن  میں اس کو لیلۃ الجائزۃ (یعنی انعام کی رات)سے تعبیر کیا گیا۔ گویا اس رات باری تعالی اپنے بندوں کو انعام واکرام سے نوازتا ہے۔  چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ۔ جب عید الفطر کی رات آتی ہے تو آسمانوں پر اس رات کو انعام کی رات سے یاد کیا جاتاہے۔ اور جب  عیدالفطر کی صبح طلوع ہو جاتی ہے تو اللہ جل مجدہ الکریم اپنے فرشتوں کو انسانی بستیوں میں جانے کا حکم فرماتا ہے۔اوروہ نوری مخلوق  انسانی آبادیوں کی گلیوں کوچوں شاراہوں چوراہوں پر ایستادہ ہوتے ہیں۔اور ایسی آواز میں پکارتے ہیں جو جنات وانسان کو  چہوڑ کر ہر مخلوق  ان کی پکار کو سنتی ہے۔ کہ ایامت محمدیہ!  اس معطئ حقیقی کی بارگاہ صمدیت میں چلو جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے۔ اپنے اس خالق و مالک کی بارگاہ میں آؤ جو کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگتا۔ کبھی کسی سے کچھ نہ لیکر بہی پوری کائنات کو بے حساب عطا کرتا ہے۔ اورجب تمامی ایمانی جذبہ رکہنے والے مسلمان اپنے اپنے مصلی (عید گاہ) کی طرف  اپنی جبین نیاز کو اس حقیقی مالک ومولی کی بارگاہ میں خم کرنے کے لئے نکلتے ہیں۔ تو اللہ عزوجل فرشتوں سے فرماتا ہیکہ۔ اے فرشتوں! اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جو اپنے کام کو پورا کر چکاہے۔وہ نوری فرشتے عرض کرتے ہیں! مرے مالک اس کی مزدری یہی ہے کہ اس کی اجرت عطا کردی جائے۔ مولی تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ۔ اے فرشتوں! گواہ رہنا میں نے اپنے بندوں کو رمضان المبارک  کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں بخش دیا۔ اورپھر بندوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتا ہے اے میرے بندو مجھ سے سوال کرو مجھ سے مانگو میری عزت وجلال اور بلندی کی قسم۔ آج!(یعنی عیدالفطر کے دن) جو بہی دنیا وآخرت کے باریمیں مانگو گے سب کچھ عطا کروں گا۔ اور میری عزت وجلال کی قسم!میں تمہیں کبہی منکرین وملحدین کے سامنے ذلیل وخوار نہیں ہونے دوں گا۔

حقیقی خوشی کا مستحق کون?
عید الفطر کی حقیقی خوشی کن کو نصیب ہوتی ہے۔کیا ان کو نصیب ہوتی ہے جو اس ماہ مبارک کو اور مہینوں کے جیساا یسے ہی گنوا دیتے ہیں?    یا پھر ان کو ہوتی ہے جو اس مبارک مہینے میں فواحشات سے اجتناب کے بجاۓ محرمات تک کے ارتکاب کربیٹھتے ہیں? یا پھر ان کو جو ہر طرح سے اس کی حرمت اور اس کے وقار کے پامالی میں کوشاں رہتے ہیں?     یاپھر سڑکوں روڈوں اور چوراہوں پرکھلم  کھلا کھا پی کر  اپنی فسقیت کا اظہار کرکے پوری قوم مسلم کو اس طرح سے بدنام کرنے والوں کو?(معاذاللہ)۔
جی! نہیں ہر گز نہیں! نہیں۔بلکہ ان اطاعت شعارں  وفادارں اور صوم صلاۃ کے پابندوں کو  اس کی  حقیقی اور روحانی خوشی میسر ہوتی ہے جو اس ماہ مقدس کا کما حقہ حق اداکرتے ہیں۔ اور اس کا احترام بجا لاتیہیں۔اوامر پر خوب عمل  کرنے کے ساتھ  نواہی سے باالکلیہ اجتناب کرتے ہیں۔ روزہ اور تراویح کی پابندی کرتے ہیں۔احکام شرعیہ پر سختی سے کار بند ہوتے ہیں۔۔تلاوت قرآن کرنے کے ساتھ   غریبوں یتیموں بیواؤوں ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو بھی پورا کرتے ہیں۔ چنانچہ شیرخداحضرت علی مرتضی رضی المولی عنہ کے زمانۂ خلافت میں کچھ لوگ عید کے  موقع پر آپ کے کاشانے پر عید کی مبارک باد پیش کرنے آئے۔تو دیکھا کہ زینت محراب ومنبر حیدر کرار خشک روٹی تناول فرمارہے ہیں۔ کسی نے کہا حضور!آج تو عید سعید ہے اور آپ سوکھی روٹی تناول فر ما رہے ہیں۔اتنا سننا ہی تہا کہ داماد رسول مومنوں کے امیر نے ایک سرد آہ بہری! اور فرمایا اے پوچہنے والے سائل کیا تجھے پتہ نہیں کہ دنیا میں بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے پاس خشک روٹی بھی نہیں ہے۔ تو ہمیں عید منانے کا کیوں کر حق حاصل ہوگا?پھر فرمایا عید تو ان کی ہے جو اخروی عذاب اور مرنے کے بعد کی سزاؤں سے نجات پا چکے۔ 
ایسیمواقع پرقوم کیناداروں کونہ بھولیں: 
ویسے تو ضرورت مندوں کی ہمیں ہمیشہ مدد کرنی چاہئیے۔ انہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے۔ کیوں کہ  قلاشوں مجبوروں ضرورت مندوں محتاجوں کی دلجوئی کرنا ان کی معاونت کرنا  یہ اسلام کا بنیادی و اولیں درس ہے۔ عید سعید کے دن خاص کر اور زیادہ توجہ دینیکی ضررت ہے۔تاکہ وہ کسی طرح سیاحساس کمتری کا شکار نہ ہو کر عید کی خوشیوں میں ہمارے آپ کی طرح برابر کے شریک ہوں۔  اس لئے کہ ایسے مواقع پر قوم کے مفلوک الحال اور نادار طبقہ کو صاحبان مال وزر سے ایک امید سی بندھی ہوتی ہے۔ ایک آس سی لگی ہوتی ہے۔اور چوں کہ سماجی فلاح وبہبو د کا بنیادی مقصد  بھی معاشرے کے غریبوں یتیموں  معذوروں  بیواؤں بے سہاروں پریشاں حال افراد کی دیکھ بھال اور انہیں فلاح و بہبود کی منزل سے ہم کنار  کرنا ہے۔ اور جو  دیندار مخیر معاشرے  کی محتاجی غریبی پریشانی دور کرنے کے لے غربت زدہ افراد پر اپنا مال خرچ کرتے  ہیں ایسے لوگوں کے خرچ کو رب ذوالجلال قرضے حسنہ کے طور پر اپنے ذمۂ کرم پر لے لیتا ہے۔کسی  مسلمان  کی اعانت  حدیث  کی روشنی میں۔: چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بہائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے جو شخص اپنے بہائی کی ضرورت کو پوری کرتا ہے تو اللہ عزوجل اس کی بھی ضرورت کو پوری کرتا ہے  اور جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی کوئی دنیاوی مشکل کو دور  کرتا ہے تو اللہ رب العزت اس کے قیامت کے مشکلات میں سے کوئی مشکل دور فر مائے گا ور جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کے عیبوں کو چھپائے گا تو مالک ومولی کل قیامت کے دن اس(بندہ) کے عیبوں کو چھپائے گا (بخاری) حدیث متذکرہ میں غریبوں یتیموں ضرورت مندوں محتاجوں کی معاونت ان کے مشکلات کے حل پر خالق کائنات کی  جانب سے وسعت  و ستر پوشی کا وعدہ ہے لہذا!  آپ حدیث نبوی پر عمل کرتے ہوئے  اپنی حیثیت کے مطابق مسکینوں ناداروں کی ضرور مدد کریں۔ان کی اعانت کرکے رب کے حضور سرخروئی حاصل کریں۔  ان آنکھوں کے کئی بار کا مشاہدہ ہے کہ غریبوں مفلسوں مجبوروں قلاشوں کے بچوں کو عید کے موقع پر اکثر نئے کپڑے زیب تن کرنے کو میسرنہیں ہوتے۔ انہیں عیدی تک نصیب نہیں ہوتی۔ میرے بہائی! کیا ان بچوں کے پاس  دل نہیں ہے? کیا ان کے پاس اور بچوں کی طرح شوق نہیں ہے?یا پھر ان کا حوصلہ عنفوان شباب سے پہلے ہی دم توڑ چکا? 
نہیں!ہر گز نہیں ان غریب بچوں کے پاس دل بہی ہے شوق بھی ہے اور حوصلہ بھی  سب کچھ رکھنے کے بعد بھی اس شعر کے صحیح مصداق ہوتے ہیں(شعر)
غربت نیمیرے بچوں کوتہذیب سکھادی سہمیہوئے رہتے ہیں شکایت نہیں کرتے۔لیکن کریں کیا مصیبت کے ان ماروں بے چاروں کے سامنے غربت و افلاس کی ایک موٹی دیوار جو کہڑی ہوتی ہے،کئی ہزار کالباس فاخرہ  پہن کر اپنے تن من پر اترانے والو تضیع مال ومتاع کرنے والو! اگر آپ کی ضمیر ابہی زندہ ہے تو! اگر آپ کے اندر غیرت ایمانی ابھی بھی کچھ باقی ہے تو اس ٹاپک پر آپ کو سوچنا ہوگا۔اس موضوع پر قدم بڑھانا ہوگا۔ اس پر غور فکر کرنا ہوگا۔ اس طبقے کو بھی تنزلی سے ترقی کی راہ لانا ہوگا۔  ان کی مدد کرنی ہوگی۔ ان کا سہارا بننا ہوگا۔ انکا ہمدرد بن کر انہیں آگے بڑھانا ہوگا۔فقر وفاقہ میں بھی انہیں سنبھالنا ہوگا۔ اپنے معاشرے سے غربت کو ختم کرنی ہوگی  اس رحم وکرم کے مستحق افراد کو ساتھ ساتھ لیکے آگے بڑھنا ہوگا 
بس اس عزم حوصلے کے ساتھ کہ۔
میں تنے تنہا چلا تھا جانب منزل مگر 
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتاگیا۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

20مئی 2020(ادارہ فکروخبر)

«
»

مجتبی حسین ، ایک تاثر ایک احساس

نکمی حکومت اورمرتے ہوئے مزدور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے