اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس غیبی اشارے کا مفہوم سمجھ کر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جو اس وقت ایک بچے تھے اور بڑھاپے کی اولاد ہونے کی وجہ سے اپنے باپ کو بہت عزیز تھے اپنے خواب اور اس کے مفہوم سے آگاہ کیا تو سعادت مند بیٹے نے سرجھکاتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے رب کی رضا پوری کیجئے مجھے بھی آپ اس کے لئے آمادہ پائیں گے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور والدہ حضرت ہاجرہ کے حق میں پہلے ہی ایثار وقربانی طلب کی جاچکی تھی جب انہیں مکہ کی بے آب وگیاہ کھائی میں بے سہارا چھوڑنے کا حکم ہوا تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس پر عمل کیا تھا، اس وقت حضرت ہاجرہ نے صفا اور مروہ کے ٹیلوں پر پانی کی تلاش میں دوڑ لگائی تھی اور رحمت خداوندی سے زمزم کا چشمہ نہ جاری ہوجاتا تو حضرت اسماعیلؑ اور حضرت ہاجرہؑ دونوں ہی پیاس کی شدت سے تڑپ تڑپ کر مرجاتے۔ پہاڑوں کے بیچ میں نہ کوئی آبادی تھی نہ دوسرا انسان و مددگار موجود تھا ایک عورت کا تنہا اپنے دودھ پیتے بچے کے ساتھ صرف اس لئے چھوڑ دیا جانا کہ اللہ تعالیٰ کی یہی مرضی ہے ماننے اور سر جھکانے کا پہلا امتحان تھا مگر شاید یہ کافی نہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کا ایک بار پھر امتحان لیا جس میں دونوں باپ بیٹے پورے اترے اور پروردگار کے حضور میں سرخرو ہوئے۔
اس ایثار وقربانی اور خدا کے حکم کے آگے سرجھکانے کی برکت تھی کہ مکہ کو اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا میں عزت بخش کر اپنا گھر کعبہ اسی جگہ بنایا اور ساری دنیا کے مسلمانوں کو حکم ہوا کہ اس کی طرف منہ کرکے وہ نماز ادا کریں یہ عزت اور مرتبہ اللہ اپنے ان بندوں کو عطا کرتا ہے جن پر وہ مہربان ہوتا ہے او رجو اس کی مہربانی کے خود کو مستحق بنا لیتے ہیں۔
اس واقعہ کو تقریباً ۵ ہزار سال گزر چکے ہیں اس مدت میں دنیا نے کتنے ہی عروج وزوال کو دیکھا، کتنی ہی قومیں اٹھیں اور وقت کے ساتھ فنا ہوگئیں بادشاہوں کے کیسے کیسے محل تعمیر ہوئے جو دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈر بن گئے مگر وہ ایک خدا کا گھر جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے نتیجہ میں تعمیر ہوا آج بھی محفوظ ہے اور وہ ویرانہ جہاں سبزہ بھی نہ تھا آج انسانی آبادی کا سب سے بارونق اور خوبصورت مقام بن گیا ہے۔
عید قرباں پر جانوروں کی قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں اپنے بیٹے کی قربانی کی یاد تازہ کرنے کے لئے ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگر کی قربانی دنیا چاہی تھی، یہ تو خدا کی مرضی تھی کہ ان کی چھری کے نیچے سے حضرت اسماعیل کو ہٹالیاگیا اور جنت سے لایا ہوا دنبہ ان کی جگہ لٹا دیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قربانی کا گوشت اور خون اللہ تک نہیں پہونچتا بلکہ قربانی دینے والے کا تقویٰ اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتا ہے، تقویٰ اور ایثار،قربانی کے اسی جذبہ اور عمل کا نام ہے جس کا مظاہرہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کے حکم پر اس کے حضور پیش کیا تھا اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ بقرعید میں جو لاکھوں کروڑوں جانور تمام عالم میں مسلمان قربان کرتے ہیں تو کیا سنتِ ابراہیمی کی ظاہری شکل باقی رہ گئی ہے اس کے پیچھے تسلیم ورضا اور ایثار وقربانی کا حقیقی جذبہ کیوں مفقود ہوتاجارہا ہے؟۔
حقیقت میں قربانی تقویٰ کی ایک کیفیت کا نام ہے۔ اللہ کے نام پر جانورذبح کرنا بندگی اور رضاکی علامت ہے ۔ یہ اس بات کا اقرار ہے کہ اے اللہ میرا سب کچھ تیرا ہی دیا ہوا ہے، تیرے ہی لئے ہے، تیرے ایک حکم پر قربان ہے ، مال کا صرف تھوڑا سا حصہ قربانی کے جانور کی خریداری پر صرف کرکے اور اسے تیری راہ میں قربان کرکے علامتی طو رپر اس کا مظاہرہ ہوتا ہے حکم ہو تو سب کچھ اسی طرح تیرے نام پر لٹادوں، مال کیا چیز ہے جان بھی حاضر ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی دینے پر آمادگی ظاہر کرکے یہ سنت قائم کردی کہ اللہ کی راہ میں اپنے جگر گوشہ کو بھی قربان کیا جاسکتا ہے۔ آج مسلمانوں پر زوال کی جو گھٹائیں چھا رہی ہیں اس میں بڑا دخل اس کا ہے کہ دنیا انہیں بہت عزیز ہوگئی ہے او رجان ومال کی محبت ان پر غالب آگئی ہے۔ راہ حق میں ایثار وقربانی کا جذبہ سرد پڑ چکا ہے، نتیجہ یہ ہے کل تک مسلمان جو بام عروج پر تھے آج ظالموں کو ان پر مسلط کردیا گیا ہے اور مختلف قربانیاں ان سے جبراً وصول کی جارہی ہیں وہ اپنا خیرامت کا مقام چھوڑ کر برائیوں میں پڑگئے ہیں تو نہ صرف ان کی عزت خاک میں مل رہی ہے بلکہ دوسروں کے آگے اپنا سر بھی انہیں جھکانا پڑرہا ہے عید قربان مسلمانوں کو بھولا ہوا سبق یہی یاد دلاتی ہے کہ تو اللہ کا ہوجاؤ اللہ تیرا ہے، تو محمد ﷺ سے وفا کر تو جہاں کیا چیز ہے لوح وقلم تیرے ہیں۔
جواب دیں