از:ڈاکٹر آصف لئیق ندوی،ارریاوی قربانی ایک اہم اور مہتم بالشان اسلامی فریضہ ہے، جسے ہرسال فرزندانِ توحید دنیا کے ہر گوشے میں بڑی آب و تاب کیساتھ ادا کرتے ہیں اور حج وقربانی کے اس فریضے کی ادا ئیگی کے لیے بعض زہے نصیب مسلمان پوری دنیا سے بیت اللہ کا رخ کرتے […]
قربانی ایک اہم اور مہتم بالشان اسلامی فریضہ ہے، جسے ہرسال فرزندانِ توحید دنیا کے ہر گوشے میں بڑی آب و تاب کیساتھ ادا کرتے ہیں اور حج وقربانی کے اس فریضے کی ادا ئیگی کے لیے بعض زہے نصیب مسلمان پوری دنیا سے بیت اللہ کا رخ کرتے ہیں اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی سنتوں کو ہرسال تازہ کرتے ہیں اور ملت اسلامیہ کی عالمی اخوت ورواداری کے اہم پیغام اور اسکے شعار سے سبق حاصل کرتے ہیں، یوں توامت محمدیہ کی تاریخ للہیت و فدا ئیت،قربانی و جانثاری، محبت وعقیدت اورتسلیم و خود سپردگی کے واقعات سے بھری پڑی ہے،لیکن خانوادۂ ابراہیم کی یہ قربانی اللہ کو اتنی پسندید آئی کہ اللہ تعالی نے قیامت تک کے انسانوں کے لیے انہیں ایک یاد گار بنا دیا، آج مسلمانان عالم انہیں اداؤں اور شکلوں کی نقل کرتے ہوئے اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جاری رکھا اورالحمد للہ یہ سلسلہ اب تک مسلمانوں میں قائم ودائم ہے۔مگر امسال یہ عظیم الشان سلسلہ کورونا کے قہر اور آزمائشوں کا شکار ہو گیا ہے اور اسلامی حج صرف سعودیہ میں مقیم لوگوں کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیا ہے۔حتی کہ ہر ملک اور ریاست کے حکمرانوں نے اپنے اپنے طور پر قربانی اور عید الاضحی کی نماز کی گائیڈ لائن جاری کی ہے۔جسے اپنے اپنے انداز کے فیصلے کہنازیادہ مناسب ہوگا،ایثارو قربانی والی عید بھی اب آزمائشوں کی لپیٹ میں ہے، جن سے متاثر ہو کر بعض مسلمان بھی اپنے اپنے طور پر اپنی اپنی رائیں پیش کر رہے ہیں۔ مگر ہم سب کو اچھی طرح معلوم رہنا چاہیے کہ اسلام دنیائے انسانیت کیلئے سراپا خیر و برکت، رحمت و سعادت اور امن و سلامتی فراہم کرنے والا آسمانی مذہب بن کر آیا ہے، جو کسی انسان کا خود ساختہ دین نہیں! کہ جو چاہے اور جب چاہے اسمیں اپنی مرضی اور خواہشات کی آمیزش کر ڈالے، قربانی اور دیگر عبادات کے مسنون طریقوں میں اپنی اور معارضین اسلام کی مرضی کو شامل کرنے کی وکالت کرنے لگے، جیسا کہ ہم اور آپ جانتے ہیں کہ اسلام ہی وہ آفاقی اور عالمی مذہب ہے جو ابتدا سے اب تک ہر طرح کی انسانی تحریفات سے پاک اور صاف ہے اور کسی بھی کتربیونت سے بالکل محفوظ اور صحیح وسالم ہے، اسلام کے کسی پیروکاروں اور انکے ماہرین و حکمرانوں کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اسمیں اپنی مرضی اور خواہشات کا دخول کردے اور غیر منطقی و غیر اسلامی پہلو نکال لے۔ جسکا اسلام سے کوئی سروکار نہ ہو!! قرآن اور حدیث سے جس کا کوئی تعلق نہ ہو۔ اسی طرح کسی مسلمان کے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ اپنے خالق کو اپنے کسی قول وفعل اور اخلاق و کردار سے ناراض اور ناخوش کرے اور اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نکالے یا ایسے فعل کا صدور کرے جس کا دور سے بھی اسلام سے کوئی واسطہ نہ ہو، کسی صاحب نصاب مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ قربانی کے مروجہ عمل کے بدلے میں صدقہ کردینے پر اکتفا کرلے اور اسی کو قربانی کے عوض میں کافی سمجھ لے؟! ہمیں اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ دین اسلام کے ہر حکم کو من و عن بجا لانا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے، خواہ اس پر کورونا کا قہر یا آفت و مصیبت کا کوئی سمان ہی کیوں نہ قائم ہوگیا ہو؟ امسال کورونا کی وبا اور لاک ڈاؤن کی طوالت کیوجہ سے اچھے اچھے لوگ مشکل حالات سے گزر رہے ہیں، کتنے افراد ایسے ہیں جو کل صاحب استطاعت تھے مگر امسال معیشت کی بدحالی، کاروبار اور نوکریوں کے متاثر ہونے کیوجہ سے وہ صاحب نصاب نہیں رہے اور وہ امسال جانوروں کی قربانی پیش کرنے سے عاجز و قاصر ہیں!! پھر بھی اگر وہ قربانی کریں تو انکا ایثار و محبت والی قربانی ہے، اللہ مسلمانوں کیساتھ خیر و بھلائی کا معاملہ فرمائے، مگر بعض ایسے لوگ ہیں جو دین سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، یہی لوگ اس میں تغیر اور کتربیونت کی باتیں کرتے ہیں، جسکا اختیار کسی بڑے سے بڑے مفتی، علامہ اور فقیہ اعظم کو بھی حاصل نہیں!! وہ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قربانی سے بہتر ہے کہ کسی فقیر و محتاج کی مدد کردی جائے، قربانی کی رقم کو صدقہ اور حج کے اخراجات سے انسانیت کی ضرورتیں پوری کردی جائیں۔ بالکل غلط تشریح اور وضاحت ہے۔ ہمیں اس سے ہر حال میں بچنا چاہئے۔ یہ دشمنان اسلام اور اسلام بیزار لوگوں کی سوچ وفکر ہے جو مسلم معاشروں میں گشت کررہی ہے تاکہ مسلمانوں کو دھیرے دھیرے انکے دین سے بیزار کیا جائے۔ اسی وجہ سے ہر مسلمان کے لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ وہ اسلام میں پورے طور پر داخل ہوجائیں اور قرآن و حدیث کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردیں اور سیرت رسول کے آئینے میں اپنی پوری زندگی کو ڈھال لیں، دنیائے انسانیت کے لیے درد، محبت اور اخوت کا جامع و پیکر بن کر ابھریں، یہی عین مقصود فطرت اور رمز مسلمانی بھی ہے اور اسی کو کلی انقیاد ربانی بھی کہتے ہیں۔شاعر مشرق علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے بقول۔یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی۔۔اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی اسی طرح ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ کسی بھی اسلامی کاز کو بادل نخواستہ انجام نہ دیں، بلکہ صدق دل، خلوصِ نیت، خشوع و خضوع اور تقرب الٰہی کے حصول کے جذبے کو مقدم رکھتے ہوئے خوشدلی سے انجام دیں، کیونکہ اللہ کے پاس ہمارا صرف ایمان و خلوص، خشیت و تقوی اور نفس کی پاکیزگی و طہارت پہنچتی ہے اور وہ ہمارے دلوں کے حال سے اچھی طرح واقف بھی ہے، سورہ حج آیت 37 میں اللہ کا ارشاد ہے، ''لن ینالَ اللّہَ لحومُھا ولادماءُھا۔۔۔۔ الخ، ترجمہ۔۔''اللہ تعالیٰ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا، بلکہ اس کے پاس تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اِس طرح مسخر کردیا ہے، تاکہ تم اس احسان پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح راہ بتائی، اور اے پیغمبر! مخلصین کو خوشخبری سنا دیجیے“۔ بعض وقت نیت کے فطور اور ریاکاری و دکھاوے کے سبب ہمارا بڑا سے بڑا اسلامی کارنامہ اسلام کے طریقے کے مطابق انجام دینے کے باوجود بھی راندہ درگاہ ہوجاتا ہے اور ہمارے عمل کو بارگاہ ایزدی سے دھتکار دیا جاتا ہے، سوائے خسارہ کے ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا!! اس لئے نیت کی درستگی ہمارے کام کی مقبولیت کے لئے بہت اہم چیز ہے، بلکہ تمام اعمال کی قبولیت کا دار ومدار حسن نیت پر منحصر ہے۔حج اورقربانی اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں تقرب و بلندی اور مقام و مرتبہ حاصل کرنے اور جان و مال کا نذرانہ پیش کرنے کا بہترین اور موثر ذریعہ ہے، قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنی انسانی وجود کی تاریخ قدیم اور پرانی ہے،ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قربانی اور نذرانہ کا رواج حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اترنے کے وقت ہی سے ہوتا چلاآرہا ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ان کے دونوں بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی اور نذرانے کا ذکر تورات و انجیل کے علاوہ خود قرآن مجید میں موجود ہے۔ قربانی کا وجود کسی نہ کسی شکل میں اور کسی نہ کسی صورت میں ہر رسول اورنبی کے زمانہ میں ملتا ہے اور شاید ہی کوئی قوم اور کوئی ملک ہو جہاں اس کا رواج کسی نہ کسی شکل میں نہ رہا ہو، گو ہر عہد میں صورتیں بدلتی نظر آتی ہیں۔ مگر اس کا رواج اب تک چلا آرہا ہے۔ سورہ مائدہ کی آیت 183 کا ترجمہ ہے:”اور آپ اہلِ کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجیے، جب ان میں سے ہر ایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی، تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔ علامہ اِبن کثیر رحمہ اللہ نے اِس آیت کے تحت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی، اُس زمانے کے دستور کے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا، قابیل کی قربانی کو چھوڑ دِیا۔ (تفسیر ابن کثیر ۲/۵۱۸، مکتبہ فاروقیہ، پشاور) یاد رہے کہ اسلام کا کوئی بھی حکم اور عمل حکمت و مصلحت سے خالی نہیں!! نماز کی برکت سے انسان گناہوں سے بچنے لگتا ہے، چوری وچماری سے رک جاتا ہے، غرض کہ خشیتِ الہی کی وجہ سے ہر برے اعمال سے نمازی محفوظ ہوجاتا ہے، کچھ اعمال انفرادی ہوتے ہیں اور کچھ اجتماعی، روزہ بندے کا انفرادی اور جسمانی عمل ہے، جس کا علم صرف اللہ اور روزے دار کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا، مگر حج اسلام کا وہ اہم رکن ہے، جو مالی بھی ہے اور بدنی بھی، جسمیں نام و نمود کا شبہ بھی شامل ہوسکتا ہے، اس لئے حاجیوں کو چوکنا رہنے کی شدید ضرورت ہے۔ حج صاحب استطاعت شخص پر زندگی میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے، حج وہ عظیم الشان رکن ہے، جو عالمی اخوت و رواداری، اجتماعیت و یکجہتی اور اتحاد و یگانگت کا علمبردار بھی ہے، سورہ آل عمران کی آیت نمبر 97 میں اللہ کا فرمان ہے ''اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس کے گھر کا حج فرض ہے، جو بھی وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو''۔ حج کے بے شماردینی و اجتماعی فوائد و منافع ہیں، وہ حج جس میں کوئی گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے، ایسے بندوں کے لئے جنت کی خوشخبری اور بشارت دنیا ہی میں سنا دی جاتی ہے، حجاج کرام اللہ کے محبوب بندے اور ان کے چوکھٹ پر انکے معزز مہمان ہوتے ہیں، جن کی دعائیں وہ قبول فرماتا ہے اور انکی مغفرت بھی کرتا ہے، وہ خوش نصیب لوگ ہیں جنہیں حج بیت اللہ کی زیارت وسعادت نصیب ہوتی ہے، جو ایمانی جذبات و احساسات سے مغلوب و مسحور ہوکر ہر قسم کی برائیوں اور گناہوں سے توبہ کر لیتے ہیں، ظلم و ستم کے خاتمے کا عہد کرلیتے ہیں، سنت براہیمی اور مصطفوی اسباق سے متصف ہوکر ایمانی و روحانی، اجتماعی و انفرادی، دینی و اخلاقی، ہمدردی و غمخواری اور ایثار و قربانی والی نئی زندگی کے سفر کا آغاز کرتے ہیں اور اسلامی حج اور براہیمی قربانی کے اغراض و مقاصد کو اپنی زندگی میں اتارتے ہوئے اپنے ملک و معاشرے کی تشکیل نو کا عزم مصمم کرتے ہیں، یہی حج مبرور اور قربانی کی حکمت و مصلحت اور تعلیم وتربیت بھی ہے، جن سے متأثر ہو کر ایک انسان کی زندگی میں ایمانی و روحانی انقلاب برپا ہوتا ہے، دل کی دنیا ہی بدل جاتی ہے اور بندہ اپنی مرضی اور خواہشات کو رب کی مرضی و خوشنودی کی خاطر قربان کردینے میں کوئی دریغ و ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی حقیقی قربانی پیش کرنے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کوئی پس و پیش نہیں کیا اور ہر امتحان میں وہ کامیاب و کامران ثابت ہوئے اور غیب سے ندا آئی۔ قدصدقت الرؤیا، انا کذلک نجزی المحسنین۔ آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا!! غرض کہ حج کا سفر اور ان کے مناسک بالخصوص قربانیوں کا بیش بہا عمل خدا کا منشا، نبیوں کا ورثہ اور اولیاء اللہ کا بے مثال طریقہ رہا ہے، جن کے ذریعے بندہ خدا کی بارگاہ میں اپنی محبت و عقیدت، اخلاص وللہیت، تسلیم و رضا، عبادت وبندگی اور ایفائے عہد ووفا کا ایمانی و اخلاقی نذرانہ پیش کرتا ہے، حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام جیسا قوی ایمان اور نبوی جذبہ پیدا کرنے کا اپنے رب سے معاہدہ کرتا ہے، اور اللہ کے گھر کو آباد و شاداب اور ایک خدا کی پرستش کیلئے تمام معبودان باطل سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے اور ایک اللہ کے حکم و پرستش کے لیے کو اپنی جان، مال اور ہر طرح کی قربانیاں پیش کرنے کا پختہ ارادہ کرلیتا ہے اور ضرورت پڑے تو بے آب و گیاہ وادی کا بھی سفر کرنے کے لیے تیار رہتا ہے جیسا کہ ابراہیم خلیل اللہ نے ظاہری اسباب اور مخالف ملک و معاشرہ سے اپنا رشتہ منقطع کر کے ایک پروردگار پر کامل بھروسہ اور مکمل اعتماد کرتے ہوئے سفر کیا تھا۔ جن سے بندہ کی مشابہت نبیوں کے عمل سے ہوجاتی ہے اور ان سے اپنی الفت ومحبت کے مظاہرے کے طور پر ایک جیسے ملبوسات میں تن ہوکر خانہ کعبہ کا طواف، صفا و مروہ کا چکر، شیطان مردود پر کنکری مار کر گویا دنیا کے تمام دجالوں پر رمی جمار کرتے ہوئے براہیمی عزم و حوصلے کا تقلیدی مظاہرہ پیش کرتا ہے اور رات و دن ایک اللہ کی عبادت و ریاضت، عشرہ ذی الحجہ کی قدردانی، صیام وقیام، قربانی و رضاجوئی، تکبیر و تہلیل سے اپنے دلوں کو منور کرتا ہے اور نبوی محبت وفاداری کا ثبوت فراہم کرتا ہے اور نبی آخر الزماں کی سیرت میں ڈھل جانے کا سراغ حاصل کر لیتا ہے۔ اللہ ہمیں اسکا حامل اور ان صفات و اوصاف کا جامع و پیکر بنائے۔ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ا بھی
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 25 جولائی 2020 (فکروخبر بھٹکل)
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں