مروجہ عید میلاد النبی اور اسلامی نقطئہ نظر حقائق کے آئینے میں

 

از: مفتی صدیق احمد جوگواڑ  نوساری  گجرات

آپ حضرات پر یہ بات بالکل بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں کا ہمیشہ سے یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ مختلف حربوں الگ الگ پروپیگنڈوں کا استعمال کر کے مسلمانوں کے اعتقاد، مذہبی نظریات پر حملہ کرےاور انکو ذہنی طور پر اپنا غلام بنالےاسکے بعد جیسے چاہے دین اسلام میں بگاڑ پیدا کر تے رہیں، اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ انکی نظر میں مسلمانوں کی اجتماعیت تھی،  لھذا اولاًاُن کی اجتماعیت کو ختم کر کے مختلف فرقوں میں تقسیم کردیا ، جسکے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ اس زمانہ کے علماء سوء کا انتخاب کرکے نئے نئے فرقوں کو تشکیل دیا جو بظاہر اسلامی ہو ں لیکن چند چیزوں میں اپنے من مانی طریقے پر چلنے لگے، نتیجہ یہ ہوا کہ آپسی تناؤ اختلافات اور تعصب کو فروغ ملا اور باطل اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا، اور ادھر مسلمانوں کی اجتماعیت متأثر ہوگئ، اسی کی ایک کڑی مروجہ جشن عید میلاد النبی ہے جوکہ12 ربیع الاول کو بدعتی حضرات بڑے دھوم دھام سے مناتے ہیں جسکا قرآن وحدیث صحابہ وتابعین تبع تابعین کہیں سے ثبوت نہیں ہے، اسلامی تاریخ کے ابتدائ چھ صدیوں میں اس بدعت کا کہیں بھی مسلمانوں میں رواج نہیں تھا، چنانچہ سنہ 604  میں "موصل" شہر میں "مظفر الدین کوکری "ایک بادشاہ گزرا ہے وہ ہر سال تقریبا 3 لا کھ روپیے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر خرچ کرتا تھا، اور اسکے جواز پر  "عمر بن داحیہ ابو الخطاب "نامی شخص نے احادیث وقرآنی آیات کی غلط  تأویل کر کے دلائل اکٹھا کیاتھا، گویا یہ دونوں اس بدعت کے موجد ہوئے، حالاں کہ یہ سراسر خلاف شریعت اور غیروں کا طریقہ ہے، عیسائ قومیں حضرت عیسی علیہ السلام کا جشن ولادت 25 دسمبر کو کرسمس ڈے کے نام سے مناتی ہیں، اور مغربی تہذیب سے متأثر افراد اپنی ولادت کی تاریخ پر برتھ ڈے بھی مناتے ہیں جو سراسر خلاف شریعت عمل ہے، اور ایک نئ بدعت ہے،
حافظ ابن حجر عسقلانی نے فرمایا کہ عمر بن داحیہ ائمئہ دین اور سلف صالحین شان میں بڑا گستاخ تھا متکبر تھا، اور ایسے عمل کے متعلق حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جو ہماری شریعت میں ایسی چیز ایجاد کرے جسکی شریعت میں کوئ اصل نہ ہو تو وہ ناقابل قبول ہے ، (الحدیث)
اور اس عمل میں ایک گونہ غیروں سے مشابہت بھی ہے جیساکہ آپ نے اوپر پڑھ لیا، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ ان ہی میں سے ہے، (الحدیث)
اور بدعتی حضرات اس دن کو صرف بطور خوشی جشن منانے پر ہی اکتفاء نہیں کرتے ہیں بلکہ اس دن اتنے بدعات وخرافات، فضول خرچی، قوالی، ناچ گانے اور مردوں عورتوں کا اختلاط، بے پردگی فحاشی اور عریانیت کی ایک کھلی تصویر بن کے تمام منکرات کو عملی جامہ پہنا کر لوگوں کو دکھاتے ہیں،  ایسا لگتا ہے کہ ان میں اور غیروں میں بظاہر صرف نام کا ہی فرق باقی رہ گیا، اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس عمل کو اہم عبادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں حالاں کہ رقص کرنا، ناچنا، گانا گانا، تالیاں بجانا، ڈھول پیٹنا، یہ سب بالاتفاق حرام ہیں، شریعت میں اسکی کہیں بھی قطعا اجازت نہیں ہے، پھر بھی ان لوگوں کا اسکو عبادت سمجھ کر کرنا یا اسمیں شریک ہونا کیسے صحیح ہوسکتا ہے،؟ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایک انسان گناہ کو گناہ سمجھ کر کرے تو کبھی نہ کبھی ندامت ہوتی ہے اور شرمندگی کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں توبہ کے لیے دست بدعاء ہو تا ہے اور اللہ اس کو معاف کردیتا ہے،  لیکن جو حرام چیز کو حلال ہی نہیں بلکہ اہم عبادت سمجھ کر کرے اسکے دل میں توبہ کا خیال بھی نہ آئے گا تو کہاں سے توبہ کرے گا،
نیز اس طرح کے جلوس میں شریک لوگ نماز جیسی قطعی فرض عبادت کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں میوزک پر قوالیوں کی ریکارڈنگ ہوتی ہے جابجا عورتوں کا اجتماع ہوتا ہے اور روضئہ اقدس وغیرہ کی شبیہ بنا کر بے حرمتی کی جاتی ہے اسلیے ایسے جلوس میں شریک ہونا صحیح نہیں ہے (محمودیہ میرٹھ ج ۵ ص۴۴۲)
اور رہی بات حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشی کی تو ہر لمحہ انکے ہدایات انکی لائ ہوئ شریعت  ان پر نازل ہوئے دستور حیات" قرآن مجید "پر عمل کر کے اپنی زندگی میں لانا یہ عین اطاعت ہو گا نہ کہ مروجہ طریقہ پر ایک دن جشن منانا، بلکہ یہ تو ان کی تعلیمات قرآنیہ کی خلاف ورزی ہوگی، نیز ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو شخص کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کرے یا کسی بھی طرح انکا تعاون کرے تو ظاہری اعتبار سے اس کو ان میں سے ہی سمجھا جائے گا (الحدیث)
علامہ عبدالرحمن مغربی رحمة الله عليه لکھتے ہیں:
*میلاد منانا بدعت ہے؛ اِس لیے کہ اِس کو حضور صلى الله عليه وسلم نے کیا ہے نہ اِس کے کرنے کو کہا ہے۔ خلفائے کرام نے میلاد منائی ہے اورنہ ائمہ نے۔ (الشریعة الالٰہیہ بحوالہ حقیقت میلاد،ص:۴۱) 
لھذا ان تمام باتوں سے پتہ چلا کہ یہ ایک بدعت ہے جس سے پورے طور پر بچنا انتہائ ضروری ہے، ورنہ اس آیت کے مصداق ہو جائیں گے:
اور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلو جنھوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے، اور دنیوی زندگی نے ان کو دھوکے میں ڈال دیاہے، اور اس قرآن کے ذریعے انکو نصیحت کرو تاکہ کوئ شخص اپنے کیے میں اس طرح گرفتار نہ ہوجائے کہ اللہ کے سوا اسکا کوئ حمایتی   اور سفارش کرنے والا نہ ہو، اور اگر وہ دنیا بھر کا معاوضہ دے ڈالے تب بھی نہ لیا جائے، یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے کیے میں گرفتار ہوئے انکے لیے کھولتا ہوا پانی پینےکے لیے ہوگا اور کفر کے سبب دردناک سزا ہوگی  (القرآن )
اسمیں بھی ایک حرام چیز کو عبادت کا درجہ دے کر انجام دینا غلو فی الدین اور بد ترین بدعت ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ یا ہم اس آیت کے مصداق ہو جائیں جو اوپر ذکر کی گئ.
اور ربیع الاول کی آمد تو مسلمانوں کو یہ احساس دلاتی ہے کہ جب پوری دنیا میں تاریکی چھائ ہوئ تھی اور لوگ جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے تھے ایسے حالات میں اللہ تعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مکمل ضابطئہ حیات (قرآن پاک)دے کر بھیجا اور انکی پوری زندگی کو تمام انسانیت کے لیے نمونہ بنایا اس پر ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے نیز امت کو یہ بھی پیغام دیا کہ اگر تم کامیابی چاہتے ہو تو اللہ کے احکام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق زندگی گزارو ان شاء اللہ تمھیں کامیاب ہونے سے کوئ روک نہیں سکتا.
لھٰذا تمام ہی حضرات سے مؤدّبانہ درخواست ہے کہ شریعت کے تمام حدود کی مکمل رعایت رکھتے ہوئے حد اعتدال میں رہتے ہوئے اسلام کے قلعے کو منھدم نہ ہونے دیں، اور مروجہ بدعات وخرافات میں پڑ کر باطل اسلام دشمن طاقتوں کے معاون و مددگار نہ بنیں، قرآنی تعلیمات اور احادیث نبویہ کو اپنی زندگی میں لاکر زندگی گزاریں، اللہ سے توفیق وقبولیت کے لیے دست بدعاء ہوں؛؛؛ 

«
»

ساگ میں صحت

مسلم بچوں کی تعلیم اور کیریر سازی میں مدارس کا کردار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے