عید کے دن نماز جمعہ کا حکم احادیث کی روشنی میں
مفتی فیاض احمد محمود برمارے حسینی
استاد جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور۔ کرناٹک
جمعہ کی فرضیت
جمعہ کا دن دنوں کا سردار اور ہفتہ کی عید ہے، جمعہ تمام دنوں میں افضل دن ہے، یومِ جمعہ کی طرح نمازِ جمعہ بھی افضل ہے، کیونکہ نمازِجمعہ سے مسلمانوں کا شعار اور ان کی اجتماعیت ظاہر ہوتی ہے، نماز جمعہ یومِ جمعہ کی طرح بہت سی خصوصیات کی بناء پر منفرد اور ممتاز ہے، اس لئے کہ دیگر فرض نمازوں کے برعکس نمازِجمعہ احکام ومسائل کے اعتبار سے الگ حیثیت رکھتی ہے،نماز جمعہ تمام نمازوں کی طرح ہر مسلمان پرفرض ہے، البتہ بیمار، بچہ، غلام اور ایسے مسافر پر جمعہ واجب نہیں ہے
جس کے سفر کی ابتداء صبح صادق سے پہلے ہوئی ہو،یا جو مسافرپہلے ہی سے مستقل سفرمیں ہو،اس لئے کہ حضرت جابرؓ سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فعلیہ الجمعۃ الا مریض أو مسافر أو امرأۃأو صبی أو مملوک‘‘ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس پر جمعہ واجب ہے، سوائے مریض، مسافر، عورت، بچہ، اور غلام کہ ان پر جمعہ واجب نہیں ہے(سنن دار قطنی: ۱۶۳/۱۶۴)اسی طرح حضرت نافعؓ نے حضرت ابن عمرؓ کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ ’’لا جمعۃ علی المسافر‘‘ کہ مسافر پر جمعہ واجب نہیں ہے (سنن بیہقی: ۳/۱۸۴) ان حضرات کے علاوہ کسی اور کے ذمہ سے جمعہ ساقط ہوتی ہے اس کا تذکرہ جمہور علماء نے نہیں کیا ہے،علماء فرماتے ہیں ’’الجمعۃ فرض عین بنص القرآن ولم یخص اللہ ولا رسولہ یوم العید بحکم الخاص‘‘ کہ جمعہ نص قرآن سے فرض عین ہے اور اللہ تعالی اور اس کے رسول نے عید کے دن جمعہ کے متعلق کوئی خاص حکم نہیں دیا ہے، لیکن بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ عید کے دن جمعہ آئے یا بالفاظ دیگر جمعہ کے دن عید آیے تو نماز جمعہ کی ادائیگی کی ضرورت نہیں صرف عید جی نماز پڑھنا کافی ہے،لیکن یہ بات قابل تعجب ہے کہ سنت نماز کی ادائیگی سے فرض نماز وہ بھی سب سے افضل نماز کیسے ساقط ہوجاتی ہے،اوراگریہ بات چل پڑی تویہ اندیشہ ہے کہ مستقبل میں جب بھی جمعہ کے دن عید آئے گی تو ہماری مساجد اس دن خالی نطر آئے گی، اسی احساس نے ہمیں مجبور کیا کہ اس مسئلہ کی حقیقت کو احادیث کی روشنی میں واضح کیا جائے تاکہ ہماری عوام کی صحیح رہنمائی ہوسکے، درج ذیل سطور اسی مسئلہ کہ وضاحت پر مشتمل ہیں۔
عید کے دن نبی کریم ﷺ کا نماز جمعہ ادا کرنے کا معمول
(۱) حضرت نعمان بن بشیرؓفرماتے ہیں کہ ’’أن رسول اللہ ﷺ کان یقرأ فی العیدین ویوم الجمعۃ سبح اسم وھل أتاک، قال وربما اجتمعا فی یوم واحد فقرأ بھما‘‘ رسول اللہ ﷺ دونوں عیدوں میں اور جمعہ میں سورہ اعلی اور سورہ غاشیہ پڑھا کرتے تھے،اور فرمایا کہ بسااوقت ایک ہی دن میں عید اور جمعہ جمع ہوتی تو آپ ان دونوں نمازوں میں ان سورتوں کی تلاوت کرتے تھے(سنن ابو داؤد: ۱۱۲۴)سنن ترمذی: ۵۳۳)اس حدیث کے آخری جملہ ’’وربما اجتمعا فی یوم واحد فقرأبھما‘‘ سے ظاہر ہے کہ آپ عید کے دن بھی جمعہ ادا فرماتے تھے، حدیث کے اس ٹکڑے کی وضاحت شیخ عبد المحسن العباد نے اس طرح کی ہے، ’’یعنی العید ویوم الجمعہ فیقرأفی العید فی أول النھار بسورتی سبح اسم وھل أتاک، ثم یصلی الجمعۃ ویقرأ فیھاسبح اسم وھل أتاک‘‘ یعنی اگر کسی دن جمعہ اور عید جمع ہوجاتے تو آپ ﷺ صبح کے وقت نماز عید ادا کرتے اور اس میں سورہ أعلی اور سورہ غاشیہ پڑھتے، پھر جمعہ کی نماز ادا فرماتے تو اس میں ان د و سورتوں کی تلاوت فرماتے(شرح سنن ابی داؤد لعبد المحسن: ۶/۴۰۲)
(۲) حضرت ابو ہریرہؓ نے منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’قداجتمع فی یومکم ھذا عیدان فمن شاء أجزأہ من الجمعہ وانا مجمعون‘‘ کہ آج تم پر دو عیدیں جمع ہوچکی ہیں اور جو شخص چاہے وہ عید کو جمعہ کی طرف سے کافی سمجھے، ہاں ہم تو جمعہ پڑھنے والے ہیں(سنن ابو داؤد: ۱۰۷۳) اس حدیث میں آپ ﷺ نے ترک جمعہ کی رخصت دی لیکن خود کے بارے میں ارشاد فرمایا ہم تو جمعہ ادا کرنے والے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ عید کے دن آپ ﷺ اہل مدینہ کے ساتھ جمعہ ادا فرماتے تھے۔
مذکورہ حدیث کے علاوہ اور ایک حدیث میں ترک جمعہ کی آپ ﷺ نے رخصت دی ہے، چنانچہ حضرت ایاس بن ابی رملہؓ سے روایت ہے کہ وہ حضرت معاویہ کے ساتھ تھے، تو حضرت معاویہؓ نے حضرت زید بن ارقمؓ سے سوال کیا کہ کیا تم آپ کے ساتھ اس موقع پر شریک تھے جب ایک ہی دن دو عیدیں (جمعہ اور عید) واقع ہوئی تھی تو انھوں نے فرمایا: جی ہاں’’صلی العید فی أول النھار ثم رخص فی الجمعۃ فقال من شاء أن یجمع فلیجمع‘‘ کہ آپ ﷺ نے اس دن صبح کے وقت نماز عید ادا فرمائی پھر جمعہ کے سلسلہ میں فرمایا جو جمعہ ادا کرنا چاہے وہ جمعہ ادا کرے (صحیح ابن خزیمہ: ۱۴۶۴)اس رخصت کے سلسلہ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا یہ رخصت عام تھی یعنی جب بھی جمعہ کے دن عید آجائے تو سب سے جمعہ ساقط ہوگااور جمعہ کے بجائے ظہر اداکرنا لازم ہوگا، یا یہ رخصت کچھ لوگوں کے ساتھ مخصوص تھی؟ اس کا علم آپ کی باتوں کو سب سے بہتر طریقہ سے سمجھنے والے حضرات صحابہ کرامؓ کے اقوال سے ہی حاصل ہوسکتا ہے،اس لئے ہم صحابہؓ کے اقوال کا سہارہ لیتے ہیں۔
عید کے دن سقوطِ جمعہ کی رخصت عمومی نہ ہونے پر دلائل
(۱) حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے غلام ابو عبیدؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عثمانؓ کے ساتھ اس موقع پر حاضر تھا جب عیدالفطر اور جمعہ ایک ساتھ جمع ہوگئے تو حضرت عثمانؓ نے نماز عید کے خطبہ کے بعد فرمایا ’’ان ھذین العیدین قداجتمعا فی یوم واحد فمن ان من أھل العوالی فأحب أن یمکث حتی یشھد الجمعہ فلیفعل ومن أحب أن ینصرف فقد أذنالہ‘‘ کہ آج تمہارے لئے دو عیدیں جمع ہوئیں ہیں تو دیہات سے آنے والے لوگوں میں سے جو جمعہ میں حاضر ہونے کے لئے رکنا چاہتا ہو وہ رک جائے اور جو واپس جانا چاہتا ہو تو ہم اسے واپسی کی اجازت دیتے ہیں(مصنف عبد الرزاق: ۵۷۳۲)
(۲) حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نبی کریم ﷺ سے ایک مرسل روایت نقل کرتے ہیں کہ یہ رخصت صرف مدینہ کے باہر سے آنے والے دیہاتیوں کے لئے تھی، اور حضرت عثمانؓ بھی اس رخصت کو انھیں کے ساتھ خاص کرتے تھے(سنن دارمی: ۱/۴۵۹)سنن بیہقی: ۵۲۹) ان اقوال صحابہؓ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ترک جمعہ کی رخصت عمومی نہیں بلکہ مدینہ کے باہر سے آنے والے لوگوں کے ساتھ خاص تھی،اسی بات کو جمہور علماء نے مذکورہ احادیث اور اقوال صحابہ کی بناء پر اختیار کیا ہے،ہم درج ذیل سطور میں فقہاء امت اور محدیثین کے اقوال کو نقل کررہے ہیں۔
احادیث کی روشنی میں محدثین وفقہاء کی آراء
امام شافعی ؒ کی رائے
’’واذاکان یوم الفطر یوم الجمعہ صلی الامام العید حین دخل الصلاۃ، ثم أذن لمن حضرہ من غیر أھل المصر فی أن ینصرفوا ان شاؤؤا الی أھلیھم ولا یعودون الی الجمعۃ والاختیار لھم أن یقیمواحتی یجمعوا أو یعودوا بعد انصرافھم ان قدر حتی یجمعوا وان لم یفعلوا فلا حرج ان شاء اللہ تعالی ولا یجوز ھذا لأحد من أھل المصر أن یدعوا أن یجمعوا الا من عذر یجوز لھم بہ ترک الجمعۃ‘‘ جب عید الفطر جمعہ کے دن آجائے تو امام عید کی نماز پڑھائے اس کے بعد شہر کے باہر سے آنے والے لوگوں کے اس بات کی اجازت دے کہ اگر وہ اپنے گھروں کوواپس جانا چاہتے ہیں تو چلے جائیں،اور جمعہ کے لئے لوٹ کر نہ آئیں،اور ان کے لئے اس بات کا بھی اختیار ہے کہ وہ رک جائیں اور جمعہ ادا کریں اور اگر وہ رکتے نہیں ہیں تب بھی انشاء اللہ ان پر کوئی حرج نہیں ہے، اور شہر والوں میں سے کسی کے لئے جمعہ کو ترک کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ کوئی عذر ہو تو پھر جائز ہے(کتاب الام:۲/۵۱۲)
امام طحاوی ؒ کی رائے
’’سأل سائل عن المرادۃ بما فی ھذین الحدیثین بعد استعظامہ مافیھما من الرخصۃ فی ترک الجمعۃ….وقال کیف یکون لأحدأن یتخلف عن الجمعۃ مع قول اللہ عزوجل ’’یٰأیھا الذین اٰ منوا اذا نودی للصلوٰۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الیٰ ذکراللہ‘‘فکان جوابنا لہ فی ذلک بتوفیق اللہ عزوجل أن المرادین فی الرخصۃ فی ترک الجمعۃ فی ھذین الحدیثین ھم أھل العوالی الذین منازلھم خارجۃ عن المدینۃ لمن لیست الجمعۃ علیھم واجبۃ لأنھم فی غیر مصر من الامصار والجمعۃ فانما تجب علی اھل الامصار‘‘حدیثوں میں ترک جمعہ کی جو رخصت ہے اسے قابل تعجب سمجھ کر ایک سائل نے سوال کیا کہ اس سے کیا مراد ہے اور اس نے کہا کہ کسی کے لئے ترک جمعہ کیسے جائز ہوسکتا ہے جب کہ اللہ تعالی نے یہ فرمایا ہے کہ جب جمعہ کے لئے اذان دی جائے تو سب کچھ چھوڑ کر نماز جمعہ کی طرف دوڑ پڑھو، تو اس شخص کے لئے ہمارا جواب یہ ہے کہ احادیث میں ترک جمعہ کی جورخصت ہے وہ صرف ان دیہاتیوں کے لئے ہے جن کے گھر مدینہ سے باہر ہیں اور جن پر جمعہ واجب نہیں ہے، اس لئے کہ جمعہ اہل مصر کے علاوہ پر واجب نہیں ہے اور جمعہ اہل مصر پر واجب ہے(بیان مشکل الأثارللطحاوی: ۳/۱۲۶)
شیخ ابن بازؓ کی رائے
’’من صلی العید یوم الجمعہ رخص لہ فی ترک الحضور لصٰلوۃ الجمعۃ ذلک الیوم الاالامام فتجب علیہ اقامتھا بمن یحضر لصلوتھا ممن قد صلی العید وبمن لم یکن صلی العید‘‘ جو شخص جمعہ کے دن عید کی نماز ادا کرے اس کے لئے اس دن ترک جمعہ کی رخصت ہے مگر امام پر جمعہ میں حاضر ہونے والوں کو ساتھ لیکر جمعہ قائم کرنا واجب ہے،چاہے ان لوگوں نے نماز عید ادا کی ہو یا نہ کی ہو(فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء: ۳/۱۸۲)شیخ ابن باز کے فتوی سے بھی یہ معلوم ہورہا ہے کہ جمعہ مطلقا ہر ایک سے ساقط نہیں ہوتی بلکہ امام پر واجب ہے کہ وہ شہرکے لوگوں کو لیکر جمعہ قائم کرے۔
علامہ عینی ؒ کی رائے
’’الاکتفاء بالعیدفی ھذا الیوم وسقوط فرضیۃ الجمعۃ…..لم یقل بہ احد من الجمہور لأن الفرض لا یسقط بالسنۃ….وقال محمد فی الجامع الصغیر: عیدان اجتمعا فی یوم واحد فالأول سنۃ والثانی فریضۃ ولا یترک واحد منھما‘‘جس دن عید اور جمعہ جمع ہوجائے اس دن صرف عید پر اکتفاء کرتے ہوئے جمعہ کو ساقط کرنا اس طرح کی بات جمہور علماء میں سے کسی سے منقول نہیں ہے،امام محمد ؒ جامع الصغیر میں فرماتے ہیں کہ جب ایک دن جمعہ اور عید جمع ہوجائے تو عید سنت ہے اور جمعہ فرض ہے، اور ان دونوں کو ادا کیا جائے گا(شرح ابوداؤد للعینی: ۴/۴۰۱)
امام نوویؓ کی رائے
’’اذا وافق یوم العید یوم جمعۃ وحضر أھل القریٰ الذین یبلغھم النداء لصلاۃ العید، وعلموا أنھم لو انصرفوا لفاتتھم الجمعۃ، فلھم أن ینصرفوا، ویترکوا الجمعۃ فی ھذا الیوم علی الصحیح المنصوص فی القدیم والجدید‘‘جب عید اور جمعہ ایک ساتھ جمع ہوجاے اور عید کی نماز کے لئے آس پاس کی بستیوں کے لوگ حاضر ہوجائیں، پھر وہ جان لیں کہ اگر وہ واپس چلے جائیں گے تو جمعہ ان سے فوت ہوجائے گا تو ایسی صورت میں ان کے لئے واپس جانا اور جمعہ ترک کرکے (ظہر اداکرنا) جائز ہے (روضۃ الطالبین: ۱/۵۸۶)
علامہ ابن تیمیہ ؒ کی رائے
’’والصحیح أن من شھد العید سقطت عنہ الجمعۃ لکن علی الامام أن یقیم الجمعۃ لیشھد من شاء شھودھا ومن لم یشھد العید وھذا المأثور عن النبی و واصحابہ کعمر وعثمان وابن مسعود وابن الذببیر وغیرھم ولا یعرف عن الصحابۃ فی ذلک خلاف‘‘ صحیح بات یہ ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن(دیہات سے) عید کی نماز میں حاضر ہوجائے اس سے جمعہ ساقط ہوجائے گی لیکن امام پر واجب ہے کہ وہ جمعہ کو قائم کرے تاکہ لوگ جمعہ ادا کرنا چاہے توادا کرسکیں اور وہ لوگ بھی جو عید میں شریک نہیں ہوئے تھے،اور یہ بات تمام صحابہ سے منقول ہے اور صحابہ میں سے کوئی بھی اس بات کا مخالف نہیں ہے(فتاوی الکبری لابن تیمیہ: ۱/۲۵۰) اگر نماز عید ادا کرنے کی وجہ سے جمعہ ساقط ہوتی تو امام پر لوگوں کے ساتھ جمعہ قائم کرنا کیوں واجب ہوتا۔
عید کے دن سقوط جمعہ پرحضرت عطاء بن ابی رباح کا اثر
فقہاء اور محدثین کے کلام سے اندازہ ہوا کہ مذکورہ مسئلہ میں مطلقا سقوطِ جمعہ کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، البتہ حضرت عطاء بن ابی رباح کا ایک اثر امامِ ابوداؤد ؒ نے نقل کیا ہے کہ حضرت عطاء فرماتے ہیں ’’اجتمع یوم جمعۃ ویوم فطر علی عھد ابن زبیرؓ فقال عیدان اجتمعا فی یوم واحد نجمعھما جمیعا فصلاھما رکعتین بکرۃ لم یزد علیھا حتی صلی العصر‘‘ کہ حضرت ابن زبیر کے زمانہ میں عید اور جمعہ ایک ہی دن میں واقع ہوئے تو ہم نے دونوں کو ایک ہی ساتھ جمع کیا،حضرت ابن زبیرؓ نے بھی صبح کے وقت دورکعت ادا فرمائی اور اس پر اضافہ نہیں فرمایا یہاں تک کہ عصر کی نماز ادا فرمائی(سنن ابوداؤد: ۱۰۷۴) اس کے علاوہ بھی الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ اسی معنی کے اثر حضرت عطاءؓ سے منقول ہیں، جن سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن عید آجائے تو جمعہ ساقط ہوتی ہے،لیکن چونکہ یہ اثر مرفوع روایتوں کے معارض ہے اور خود آپ ﷺ کے عمل سے متصادم ہے اس لئے اس اثر کے سلسلہ میں محدثین نے کلام کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس اثر کو اپنے ظاہر پر محمول کرنا دشوار ہے۔
حضرت عطاء بن ابی رباح کے اثر کے متعلق محدثین کے اقوال
علامہ ابن عبد البر ؒ کی رائے
’’وان کان لم یصل مع صلاۃ العید غیرھا حتی العصر فان الاصول کلھا تشھد بفساد ھذا القول لأن الفرضین اذا اجتمعا فی فرض واحد لم یسقط أحدھما…. فکیف أن یسقط فرض لسنۃ عملا فی یوم،ھذامالا یشک فی فسادہ ذو فھم وان کان صلی مع صلاہ الفطر رکعتین للجمعۃ فقد صلی الجمعۃ وقتھا ثم أکثرالناس‘‘اگر حضرت ابن زبیر نے نماز عید کے علاوہ کوئی دوسری نماز (جمعہ، ظہر)نہیں پرھی یہاں تک عصر پڑھی تب تو سارے اصول اس بات کے فاسد ہونے پر دلالت کرتے ہیں اس لئے کہ جب دو فرض ایک فرض میں جمع ہوجائے تو ان میں سے ایک بھی ساقط نہیں ہوتا تو پھرعید کے دن سنت نماز کی وجہ سے فرض نماز کیسے ساقط ہوگی، کیونکہ سنت سے فرض ساقط ہوتا ہے یہ ایسی بات ہے جس کے فاسد ہونے میں عقلمند کو شک نہیں ہوسکتا، اور اگر حضرت ابن زبیرؓ نے عید کے ساتھ جمعہ کی دورکعت پرھی ہے تو جمعہ کا وقت ہونے کے بعدوہاں اکثر لوگوں نے جمعہ ادا فرمایا ہے(التمھید لما فی مؤطا من المعانی والاسانید:۱۰/۲۷۰) ایسے موقع پرجب اکثر لوگوں نے نماز جمعہ ادا کی ہے توصرف حضرت ابن زبیرؓ کا نماز جمعہ ادا نہ کرناسقوط جمعہ کے لئے کافی نہیں ہے۔
علامہ ابن تیمیہ ؒ کی رائے
’’انما وجہ ھذا انہ رأی تقدمۃ الجمعۃ قبل الزوال واجتزأبھا عن العید‘‘ کہ ابن زبیرؓ زوال سے پہلے جمعہ ادا کرنے کے قائل تھے اس لئے ممکن ہے کہ قبل الزوال ابن زبیرؓ نے جمعہ ہی ادا فرمایا ہو اور اس کو عید کی طرف سے کافی سمجھا ہو(عون المعبود:۳/۲۸۹)
شیخ ابن عبدالبرؒ کی رائے
’’أما فعل ابن الزبیروما نقلہ عطاء من ذلک….والأوجہ فیہ عند جماعۃ من الفقہاء وھو عندھم خطاء ان کان علی ظاھرہ لأن الفرض من صلاۃ الجمعۃ لا تسقط باقامۃ السنۃ فی العید عند أحد من أھل العلم‘‘ حضرت ابن زبیر کے عمل اور جو کچھ حضرت عطاء نے ان سے نقل کیا ہے، اس سلسلہ میں فقہاء کی جماعت کے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ اگر ابن زبیر کا اثر اپنے ظاہری معنی پر ہے تو یہ غلط ہے اس لئے کہ اہل علم میں سے کسی کے نزدیک بھی نمازجمعہ کی فرضیت نماز عید کی سنت ادا کرنے سے ساقط نہیں ہوتی ہے(الاستذکار الجامع لمذاھب فقہاء بالأمصار۲/۳۸)
شیخ عبدالمحسن العباد ؒ کی رائے
’’ومعنی ھذا أنہ لم یصلی الجمعہ ولا الظھر فالاشکال فی کونہ جمعھما فصلی صلاۃ واحدۃ عن العید والجمعۃ فھذا غیر مستقیم لأن الجمعۃ شیء والعید شیء‘‘کہ ابن زبیرؓ کی حدیث میں ہے کہ ’’وأنہ لم یزد علیھا حتی صلی العصر‘‘ اس کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ حضرت ابن زبیرؓ نے نہ جمعہ ادا فرمائی اور نہ ظہرتو اب جمعہ اور عید کو ایک ساتھ جمع کرنے میں اشکال ہے کہ انھوں نے عید اور جمعہ کی طرف سے ایک ہی نماز کیسے ادا کی جب کہ اس طرح کی تشریک درست نہیں ہے، اس لئے کہ جمعہ الگ چیز ہے اور عید ایک الگ شیء ہے(شرح ابوداود: ۶/۲۹۶)
مذکورہ تفصیل سے یہ بات تو عیاں ہوگئی کہ جمہور علماء میں سے جمعہ کے دن عید آنے سے عمومی طور پر سقوط جمعہ کا کوئی قائل نہیں،البتہ جن بعض حضرات نے حدیث کی رخصت کو عمومی سمجھ کر اور حضرت ابن زبیرؓ کے عمل کو دلیل بنا کر مطلقا سقوط جمعہ کے قائل ہیں ان کی یہ سمجھ کی غلطی ہے، اس لئے کہ اگر حدیث کی رخصت کو عام مانا جائے تب بھی آپ ﷺ کا عمل ہمارے لئے قابل عمل ہے کیونکہ آپ ﷺ نے اس موقع پر جمعہ ادا فرمایا ہے، اور یقیناًحضرت ابن زبیرؓ کے مقابلہ میں ہمارے آقا ﷺ کا عمل زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے، مجھے امید ہے کہ ہماری اس تحریر کو انصاف کی نظر سے پڑھنے کے بعدجو بھی شخص اس مسئلہ میں غلط فہمی کا شکار ہوا ہے وہ صحیح سمجھ اختیار کرلے گا۔۔
جواب دیں