ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
کورونا وبائی مرض کی وجہ سے ہماری حکومت نے لاک ڈاؤن تیسری مرتبہ ۴۱ روز کے لئے ۷۱ مئی تک بڑھا دیا ہے۔ ظاہر ہے ہندوستان جیسے ملک کے پاس کورونا وائرس سے حفاظت کے لئے لاک ڈاؤن کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کیونکہ ہمارے ملک میں طبی سہولیات ترقی یافتہ ممالک جیسی نہیں ہیں۔ ۷۱ مئی کو ۳۲ واں روزہ ہوگا۔ اس کے بعد بھی لاک ڈاؤن کا بڑھایا جانا تقریباً یقینی ہے، یعنی کافی امکان ہے کہ امسال عید الفطر کی نماز ہم عید گاہ یا مساجد میں ادا نہ کرسکیں گے۔ اگرچہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد از جلد اس وبائی مرض کے خاتمہ کا فیصلہ فرمادے تاکہ جہاں ہم اجتماعی عبادات میں شرکت کرسکیں وہیں سارے انسان بھی کسی حد تک راحت کی سانس لے سکیں۔ حکومت نے تین زون بناکر کچھ سہولیات دینے کا اعلان کیا ہے، مگر یہ وبائی مرض پر قابو پانے کی وجہ سے نہیں ہے کیونکہ یہ مرض ابھی بھی بڑھ رہا ہے، اور بظاہر جلدی اس مرض سے نجات ممکن نہیں ہے، جیسا کہ عالمی ادارہئ صحت WHO نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے۔ یہ سہولیات اصل میں ایک دوسری مجبوری کی وجہ سے دی جارہی ہیں کہ کہیں ملک میں بھوک مری نہ پھیل جائے، جس کے خدشات کافی زیادہ ہیں۔
اس لئے اس موقع پر میں اپنے بھائیوں سے کچھ درخواستیں کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی درخواست یہ ہے کہ جو بھی رقم آپ کے پاس موجودہ ہے وہ مستقبل کے اخراجات کے لئے بچا کر رکھیں اور حتی الامکان فضول اخراجات سے بچیں۔ جب ہم نماز تراویح اور پنچ وقتہ نمازیں مساجد کے بجائے اپنے گھروں ہی میں ادا کررہے ہیں تو پھر ہم عید الفطر کی خریداری کے لئے بازار کیوں جائیں۔ جب ہم نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے رمضان میں بھی نمازِ جمعہ مساجد میں ادا نہیں کیا جس کے متعلق ایک مسلمان کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا تو پھر ماہ رمضان کی مبارک گھڑیوں میں ہم بازار جاکر کورونا وائرس کے خطرات کیوں مول لیں۔ لہذا امسال عید الفطر کے لئے بالکل خریداری نہ کریں یا بہت کم کریں کیونکہ عید کے لئے نئے کپڑے پہننا شرعاً ضروری نہیں ہے۔ اس وبائی مرض سے بچنے کے لئے جب مقدس مہینے میں بھی اللہ کے گھروں میں تالا لگا یا گیا تو عید الفطر کی خریداری سے رکنے کے لئے ہم اپنی گاڑیوں اور بائکوں پر تالا کیوں نہ لگائیں۔ زرا سوچیں کہ کورونا وائرس کے خطرات میں ہم بازاروں میں جاکر اپنا پیسہ بھی خرچ کریں اور بعد میں ہمیں ہی کوررونا وبائی مرض کے پھیلاؤ کا مجرم بھی قرار دیا جائے۔
دوسری درخواست یہ ہے کہ ہم اس مصیبت کے وقت غریبوں کی حتی الامکان مدد کریں، ضروریات زندگی کا سامان خرید کر ان کے گھر تک پہنچانے کا انتظام کریں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہیں اپنے کمزوروں کے طفیل سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (بخاری) اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسکین اور بیوہ عورت کی مدد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ (بخاری،مسلم) البتہ قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ زکوٰۃ کی رقم صرف مسلم غریب لوگوں کو ہی دی جاسکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جوشخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کھلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل کھلائے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی ایسی شراب پلائے گا، جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی۔ (ترمذی)
تیسری درخواست یہ ہے کہ حتی الامکان اپنے گھروں ہی میں رہیں، نمازوں کا خاص اہتمام رکھیں کیونکہ اس وبائی مرض سے بچنے کے لئے دیگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ روزوں اور نمازوں کا اہتمام ضروری ہے۔ فرصت کے اوقات میں گپ شپ کرنے کے بجائے نماز تہجد، نماز اشراق اور نماز چاشت جیسی نفل نمازیں ادا کریں۔ ہمارے نبی ان نمازوں کو بھی پڑھا کرتے تھے۔ پورے مہینے نماز تراویح کا خاص اہتمام رکھیں۔ رمضان کے آخری عشرہ میں نماز تہجد کی چند رکعت پڑھنے کی ضرور کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ پریشانیوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہے کے لئے نماز اور صبر کے ذریعہ اللہ کی مدد حاصل کی جائے۔ قرآن کریم کی تلاوت کا بھی خاص اہتمام رکھیں۔
چوتھی درخواست یہ ہے کہ اس مصیبت زدہ وقت میں دینی مدارس اور مکاتب اسلامیہ کا بھی خاص خیال رکھیں کیونکہ وہ خاص کر بر صغیر میں دین کے محفوظ قلعے ہیں۔ دین کی حفاظت کے لئے ان کی بقا کی کوشش کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ حکومت سے منظور شدہ گنتی کے چند مدارس کو چھوڑ کر عمومی طور پر دینی مدارس عام مسلمانوں کے تعاون سے ہی چلتے ہیں۔ علماء کرام نے مساجد ومدارس ومکاتب کے ذریعہ بچہ کی ولادت کے وقت کان میں اذان دینے سے لے کر نماز جنازہ پڑھانے تک امت مسلمہ کی دینی وتعلیمی وسماجی رہنمائی کے لئے ایسی خدمات پیش کی ہیں کہ ایک مسلمان بھی ایسا نہیں مل سکتا جو ان خدمات سے مستفیض نہ ہوا ہو۔ہندوستان میں دینی مدارس کے لئے آمدنی کے دو اہم ذرائع (عیدالاضحی کی قربانی کے جانوروں کی کھالیں اور رمضان میں مسلم بھائیوں کا مالی تعاون) میں سے گزشتہ چند سالوں سے چرم قربانی کی قیمت اتنی کم کردی گئی ہے کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔ بڑے جانور کی کھال جو ۰۰۲۱ روپئے کی فروخت ہوتی تھی اس کی قیمت صرف ۰۵۱ روپئے رہ گئی۔ امسال لاک ڈاؤن کی وجہ سے مدارس کے نمائندے بھی آپ تک نہیں پہنچ پارہے ہیں، مگر اب الحمد للہ آن لائن ٹرانسفر کی سہولیات موجود ہیں۔ لہذا جہاں غریبوں کی مدد کی جائے وہیں مدارس اسلامیہ کے لئے جاری اپنے تعاون کو باقی رکھیں۔
آخری درخواست یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کریں کیونکہ ہمارا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ یہ وبائی مرض اللہ کی مرضی کے بغیر دنیا سے ختم نہیں ہوسکتا ہے۔ ہم گھبرائے نہیں اور نہ ہی نا امید ہوں، اس سے زیادہ خطرناک وبائی مرض اس دنیا میں پھیلے ہیں، آخر کار ایک دن اس سے بھی نجات ملی، ان شاء اللہ یہ وبائی مرض بھی ایک دن ختم ہوجائے گا۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
07؍ مئی 2020
جواب دیں