عید کا پیغام ہر مسلمان مرد وعورت کیلئے

ناجائز بھی اس دن وہاں جائز ہوجاتا ہے، شراب، جوا کھیلو ، جانوروں کے کھیل تماشے دیکھو، کہیں بٹیر لڑائے جارہے ہیں ،کہیں مرغ لڑائے جارہے ہیں، کہیں بیلوں کے ساتھ زور آوری ہے، تو کہیں خود جانوروں کا لبادہ اوڑھ کر کوئی لنگور، کوئی شیر، کوئی چیتا ،کوئی لومڑی اور کوئی ہاتھی بن جاتا ہے۔یہ عید ایسی ہے کہ لڑائیاں ہورہی ہیں، عزتیں پامال ہو رہی ہیں، آدمی نالوں میں، موریوں میں گررہے ہیں، جانور ان کو زخمی کررہے ہیں، آگ کے شعلے بھڑک کر آدمیوں کی جانیں مفت میں جارہی ہیں، دھماکوں شور گڑبڑ ہنگاموں کے ذریعہ کان پھٹے جارہے ہیں۔
خوشی مناؤ مگر……..
مگر اسلام نے کہا کہ خوشی مناؤ ضرور ،مگر حدود کو نہ توڑو، عبادت کو نہ چھوڑو، ہر دن پانچ وقت کی نماز ہے تو عید کے دن چھ وقت کی نماز ہے، نہ شراب حلال ، نہ جوا حلال، نہ اپنے پیسوں کو آگ کے شعلوں میں ڈال کر اڑادینا حلال، نہ اسراف کرو نہ بخیل بن جاؤ، بلکہ عید وقار کے ساتھ، عبادت کے ساتھ، اطاعت کے ساتھ، ایثار وہمدردی کا پیکر بن کر، محبت ومروت کا نمونہ بن کر، اخلاق کا ایک مجسم بن کر، دلی خوشی اور مسرت کے ساتھ اس کا تصور کرتے ہوئے کہ حقیقی عید کون سی ہے اور اس کو کیسے منایا جائے؟ عید کے دن مسلمان سب سے اول جو عمل کرتا ہے وہ غسل ہے، یعنی پاک وصاف ہوکر خوشبو سے معطر لباس پہن کر آراستہ ہوتا ہے، اب لباس میں افراط وتفریط نہیں ،بلکہ اپنی حیثیت کے موافق نیا ہو تو نیا، ورنہ پاک وصاف لباس جو میسر ہے اس کو پہن کر راستہ میں اللہ کا ذکر کرتے اس کی بڑائی اور حمد کرتے ہوئے چلو، اس طرح کہ راستہ چلتے ہوئے نہ شور وغل ہو، نہ شور شرابہ بلکہ وقاراور اخلاق کا پیکر بن کر، راستہ میں جو مسلمان جانا انجانا ملے اس کو سلام کرتے ہوئے ذکر کے ساتھ عیدگاہ پیدل یا سوار ہوکر چلو، اب ہم عیدگاہ پہنچ گئے تو نماز کی صفوں میں ترتیب کے ساتھ بیٹھنا ہے، وہاں بھی اللہ کو یاد کرتے ہوئے ذکر کریں گے ، ہاں ایک بات یاد رکھنی ہے اور ضرور یاد رکھنی ہے کہ عیدگاہ پہنچنے سے پہلے صدقہ فطر ادا کردیا جائے، تاکہ اس دن کوئی یتیم ، بیوہ، مسکین، غریب، پریشان حال، بیمار، مجبور ولاچار عید منانے سے نہ رہ جائے، کسی یتیم کی آنکھ سے آنسو نہ گرے، کوئی بیوہ ہائے نہ کرے، کوئی غریب پریشان حال غمزدہ نہ ہو، کوئی مجبور لاچار رنجیدہ نہ ہو، اس دن یہ کام عیدگاہ جانے سے پہلے بہت ہی احتیاط سے ادا کرنے کا ہے ، اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے، ہمیں اپنے خاندان کے غریب یتیم پریشان لوگوں تک کا پتہ نہیں۔
امام اعظم کی عید کیسی ہوتی تھی
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ جب عید کی نماز ادا کرنے نکلتے تو کیسے نکلتے؟ کاش میں اور آپ جان لیتے، حضرت امام اعظم کے مناقب ومرتبہ کی بات تو کتابوں میں خوب ملتی ہے ،مگر شاید بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ وہ کتنے بڑے سخی آدمی تھے۔ کوفہ شہر میں غربت تھی، جہاں جہاں غریب بیوائیں، مساکین رہا کرتے تھے، حضرت کے پاس ان کی فہرست نام اور پتہ کے ساتھ موجود تھی، حضرت کا معمول کسی کو روزانہ ، کسی کو ہفتہ وار ، کسی کو ماہانہ اور کسی کو سالانہ مدد کرنے کا تھا۔
دوسرا معمول یہ تھا کہ عید کے دن سارے ہی غرباء ومساکین ،بیواؤں کو کپڑے پہنایا کرتے تھے، گویا خود ان کو کپڑے سلواکر دیئے جاتے، اس طرح کہ ہزاروں لوگوں کو جوڑے پہناتے ،گویا عید جہاں اپنے بچوں ،بیویوں ،رشتہ داروں کی ہوتی ، وہاں بے کس مجبور لوگ بھی حضرت کے ساتھ عید میں شریک ہوتے، گویاحضرت امام اعظم ؒ ان سب کے لئے خوشیوں کا مرکز بنتے تھے۔ نماز، روزہ اور صدقہ کی دعوت دینا یقیناًآسان تھا، مگر اس دعوت کو دیتے ہوئے اس پر عمل کرنا اور اپنے مال کو بے غرض بے لوث، اخلاص کے ساتھ خرچ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ یہ ایثار وہمدردی کی مثالیں ہمارے اسلاف میں خوب ملتی ہیں۔
حضرت زین العابدین کا مقام
حضرت زین العابدین ؒ روزانہ لوگوں کے گھروں میں جو مساکین تھے ان کواس طرح رات کو چھپ کر، وقت بدل بدل کردیتے تھے کہ لینے والوں کو پتہ بھی نہ چلتا تھا کہ یہ آخر دینے والا کون ہے؟ سو گھروں میں آپ کی موت سے فاقہ آیا، مرنے کے بعد غسال نے دیکھا کہ حضرت کی پیٹھ پر نشانات بنے ہوئے ہیں، روزانہ اناج کی بوریاں اپنی پیٹھ پر لادکر لے جاتے اور گھر رکھ آتے کہ لینے والا موت تک نہ جان سکا کہ فلاں آدمی مدد کررہا ہے۔
غرض عیدگاہ جانے سے پہلے یہ عمل کرنے کے بعد عیدگاہ پہنچ کر نماز کی ادائیگی اور پھر خطبہ کا سننا ہے جو دونوں ضروری ہیں ، بعض لوگ نماز پڑھ کر چل دیتے ہیں یہ صحیح نہیں، پھر دعا کا کرنا ،اس کے بعد لوگوں سے ملاقاتیں، جو ایسا منظر پیش کرتا ہے جس کا تصور ہی انسانی دماغ کو معطر دل کو شادماں اور روح کو تسکین بخشتا ہے، واپسی پھر اللہ کے ذکر کے ساتھ گھروں تک راستوں کا منظر ایسا دل فریب دلکش ادا پر بہار جس کو ہر مسلمان سال بھر یاد کرتا رہتا ہے۔
گھر آکر عورتوں بچوں سے ملاقاتیں ،ماؤں کی دعائیں ،بہنوں کی خوشیاں بیویوں کا راحت بخشنا، بیٹیوں کی شوخیاں ،غرض ہر چیز ایک نعمت خداوندی ہے، گویا ہر جگہ حدود بھی باقی، حقوق بھی باقی۔ایک اور منظر عید کا ہے ، ہم تمام اگر غور کریں تو ہمیں یاد دلاتا ہے، جو ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے، وہ یہ کہ یہ دن اس عید کے ذریعہ ہم تمام مسلمانوں کو ہماری حقیقی عیدیعنی اللہ کے دربار کی حاضری کو یاد دلاتا ہے، جس طرح رمضان بھر نیکیاں کرکے روزہ رکھ کر نمازیں پڑھ کر تلاوت کرکے تراویح پڑھ کر سخاوت و ایثار، قربانی، زکوٰۃ کی ادائیگی، صدقہ فطر کو ادا کرکے مہمان نوازی، تہجد پڑھ کر دن رات یہ سب کچھ کیا تو نتیجہ میں عید اور اس کی تمام خوشیاں ہیں، اسی طرح ہم تمام مسلمان ایمان بناکر اعمال کرکے اپنے آپ کو اللہ کا صحیح بندہ اور بندیاں اورحضور ﷺکا صحیح امتی بن کر اسلام وایمان شریعت وسنت کے موافق اعمال واخلاق کو بناکر دنیا سے جائیں گے وہی ہمارا حقیقی عید کادن ہوگا، ہم یہاں غسل کرکے جاتے ہیں ،وہاں یاد کیجئے موت پر غسل دیا جاتا ہے، زندگی میں کپڑے پہن کر ہم عطر ، سرمہ لگاکر خود چل کر جاتے ہیں، موت پر عطر، سرمہ ہم کو کفن پہناکر لگایا جاتا ہے، کندھے پر سواری کرکے لوگ لے جاتے ہیں، عید گاہ میں جو لوگ مہینہ بھر اعمال کرکے جاتے ہیں وہ خوشی خوشی جاتے ہیں، اس طرح مرنے والا نیک اعمال کرکے دنیا سے ملک الموت سے اللہ کا سلام سن کر خوشی خوشی جاتا ہے ۔
حضرت بلالؓ انتقال کے وقت
جب حضرت بلالؓ کا انتقال ہورہا تھا تو انہوں نے کیا کیا؟ بیوی کے جملے پر بیوی روکر کہہ رہی تھیں ہائے افسوس ہائے افسوس! شوہر جدا ہورہے ہیں، تو حضرت بلالؓ نے کہا کیا خوشی کا موقع ہے؟ ابھی موت کے بعد حضرت محمد ﷺ سے ملاقات ہوگی، صحابہ کرام سے ملاقات ہوگی، جنت اور اس کی نعمتیں ملیں گی، یہ مانا کہ آدمی موت کے وقت امید اور خوف کے درمیان ہو ،مگر جو اچھے اعمال کئے ہوں گے، ایمان والے بن کر ایمان کے موافق زندگی گذاریں گے تو ان کے لئے واقعی یہ ایک خوشی کا موقع ہے۔
حضور اقدس ﷺ کاارشاد ہے کہ موت ایک پل ہے، جو حبیب کو حبیب سے ملادیتا ہے۔ تو گویا بندہ کو اللہ سے ملاقات کے لئے موت ہی ایک ذریعہ ہے، مرنے کے بعد دنیا والے روروکر بھیجتے تو ہیں، مگر وہاں کیا ہوگا؟ جانے والے کیلئے فرشتوں کی گھر سے قبر تک دو طرف قطاریں ہیں ، قبر جنت کا باغ بنے گی ،وہاں پہلے سے گئے مرحوم رشتہ دار منتظر، جنت آراستہ، حوریں اور غلمان خدمت کیلئے تیار، پانی دودھ شہد اور پاکیزہ شراب کی نہریں بہہ رہی ہیں، سونے چاندی کے محلات، مشک وزعفران، عنبر موتی کی خوشبوئیں ،پھل پھول اور پرندوں سے بھرے باغ اور اسی ہزار خادم ایک وقت پر ستر ستر ہزار قسم کے کھانے ، حضرت آدم ؑ کا قد، حضرت یوسف ؑ کا حسن، حضرت عیسیٰ ؑ کی جوانی، حضرت داؤد ؑ کی آواز، حضرت ایوب ؑ کادل، حضور اکرم ﷺ کے اخلاق، پھر نبیوں کا پڑوس، صحابہ اور اولیاء اللہ سے ملاقاتیں اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا دیدار ، اللہ سے قرآن شریف سننا اور اللہ سے بندوں کا باتیں کرنا، غرض کن کن نعمتوں کا ذکر کیجئے۔
یہ ہے ہر مسلمان کو عید کا پیغام حقیقی ، عید اطاعت کے ساتھ ملے گی، اللہ کی خوشنودی اور حضور اکرم ﷺ کی شریعت پر جماؤ، اعمال پر استقامت، اخلاق پر مداومت سے ملے گی۔
عیدکس طرح منائیں؟
اسلام کوئی خشک مذہب نہیں ہے، اور نہ جسمانی وذہنی جائز تفریحات کے خلاف ہے، بلکہ جائز حد میں رہ کر ہرکام کرسکتے ہیں، جس میں آپ کے قلب وروح کو تسکین حاصل ہو اور جسم کو طمانیت کا احساس ہو، عید الفطر کا دن سال میں ایک بار آتا ہے، شریعت کے احکام کی پابندی کرکے اس دن کو یادگار بناسکتے ہیں، خوشی ومسرت کا پورا مظاہرہ کرسکتے ہیں، اچھا پہنیں اچھا کھائیں، عزیز واقارب اور دوست واحباب سے ملیں اور ان کی خوشی ومسرت کا بھی خیال رکھیں، اسلئے اس دن روزہ رکھنے کو حرام قرار دیا گیا ہے، نہائیں دھوئیں اور جو کپڑے اچھے ہوں وہ پہنیں، خوشبو لگائیں۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ عید کے دن ہمارے گھر میں کچھ بچیاں بیٹھی تھیں اور جنگ بعاث سے متعلق اشعار گارہی تھیں، اسی دوران حضرت ابوبکر صدیقؓ تشریف لائے اور کہنے لگے کہ اللہ کے رسول کے گھر میں یہ گایا جارہا ہے ، آپ ﷺہماری طرف کروٹ لئے لیٹے تھے ، آپ نے فرمایا ابوبکر! انہیں گانے دو ، ہر قوم کے لئے تیوہار کا ایک دن ہوتا ہے، آج ہماری عید کا دن ہے۔
عید کادن اللہ اور اس کے رسول e کی کسی بھی نافرمانی کا کام انجام دینا عید کی روح کے خلاف ہے۔ آج ہم عید کو آزادی کا دن سمجھ کر ہر طرح کی خرافات میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور رمضان میں جونمازوں کی پابندی ہورہی تھی، بالکل ختم ہوجاتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ شیطان آزاد ہوچکاہے، عید کے نام پر ہر کام کیا جاتا ہے، جس کی عام دنوں میں اجازت نہیں ہوتی، چہ جائیکہ عید کے دن اس کا خیال رکھا جائے۔
عید کا دن خوشی کا دن ہوتا ہے ، بسا اوقات خوشی میں آدمی آخرت سے غافل ہوجاتا ہے اور زیارت قبور سے آخرت یاد آجاتی ہے، اس لئے اگر کوئی شخص عید کے دن قبرستان جائے تو مناسب ہے ،کچھ مضائقہ نہیں، لیکن اگر اس کے التزام سے دوسروں کو شبہ ہو کہ یہ چیز لازم اور ضروری ہے تو نہ جانا چاہئے، یا کبھی چھوڑدینا چاہئے، بہر حال ہر کام ہر معاملے میں شریعت کی پاسداری کا خیال رکھا جائے۔
عید کی رات بھی مقدس ہے اور دن بھی مبارک ہے، عید کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت عامہ ہوتی ہے، دعاؤں کو قبولیت حاصل ہے، رمضان المبارک کے احکام اور دعا والی آیت کا قریب قریب ہونا ،یکے بعد دیگرے آنا حکمت سے خالی نہیں ہے، اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ دعا کرنے والوں کا یہ مومنانہ اور عاجزانہ حق بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو شرف قبولیت عطا فرمائے ،کیونکہ انہوں نے دست دعا دراز کرنے سے قبل رمضان کا پورا مہینہ صیام وقیام میں گذارا ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!(یو این این)

«
»

جہیز کے خلاف ذہنی بیداری مہم نہایت ضروری

معتبرصحافی عارف عزیز سے ’’اُردوہلچل ‘‘ کے لئے جاوید یزدانی کی بات چیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے