احتجاج کی علامت بنی خواتین پر سیاست

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی 

سوڈان سے لبنان، ہانگ کانگ سے ایران اور کیرالہ سے شاہین باغ تک، دنیا بھر میں خواتین احتجاج کی علامت بن گئی ہیں۔ مہاراشٹر، بنگال، کرناٹک، بہار، اترپردیش سمیت ملک کے مختلف شہروں میں خواتین شاہین باغ کی طرز پر سی اے اے، این پی آر، این آر سی اور پولیس بربریت کے خلاف آندولن کر رہی ہیں۔ ہاتھ میں ترنگا لئے عورتیں سماج کو بانٹنے والے قانون، سماجی نابرابری، بے روزگاری، مہنگائی، بھوک، غریبی، کسانوں کی خودکشی، بدعنوانی، ناسازگار تعلیمی ماحول اور اقتصادی مندی سے آزادی کے نعرے لگا رہی ہیں۔ کہیں مزاحمت میں گیت گائے جا رہے ہیں تو کہیں قومی ترانہ، کہیں بینر پوسٹر دکھائے جا رہے ہیں، کہیں آئین کا حلف اٹھایا جا رہا ہے۔ احتجاج کی شروعات شہریت ترمیمی قانون کے خلاف آسام سے ہوئی تھی لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ کے واقع نے اسے جمہوری حقوق کے تحفظ کی لڑائی میں تبدل کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بلا تفریق مذہب وملت ملک کے لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے۔ اتنا ہی نہیں جامعہ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ پر پولیس کی زیادتی کے خلاف طلبہ کی حمایت میں ملک وبیرون ملک کی جامعات کے اسٹوڈنٹ ازخود کھڑے ہو گئے۔ ایسا لگ رہا ہے مانو آزادی کی دوسری جنگ شروع ہو گئی ہو۔ 
مظاہروں کی خاصیت یہ ہے کہ ان کا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ نہ ہی ان کا کسی سیاسی جماعت کی طرف کوئی جھکاؤ ہے۔ یہ عوامی تحریک ہے اور اسے عوام کے ذریعہ ہی چلایا جا رہا ہے۔ پہلی مرتبہ آئین اور حقوق کے تحفظ کے لئے خواتین آگے آئی ہیں۔ عورتوں کی ہمدردی کا ڈھنڈورا پیٹنے والی حکومت کو کڑاکے کی ٹھنڈ میں سڑکوں پر بیٹھی خواتین پر ذرا بھی رحم نہیں آیا۔ یوپی پولیس نے شامیانہ گرا دیا اور کمبل اٹھا کر لے گئی۔ خواتین سردی میں ٹھٹھرنے کے باوجود اپنی جگہ جمی رہیں۔ لکھنؤ میں دفعہ 144 لاگو ہونے کی وجہ سے احتجاج کر رہی 160 عورتوں کے خلاف قانون کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کیا گیا۔ لیکن اسی لکھنؤ میں امت شاہ کو ریلی کرنے اور بھیڑ جٹانے کی اجازت دی گئی۔ کیا ملک میں عوام اور برسراقتدار جماعت کے حامیوں کے لئے قانون الگ الگ ہے؟ 
یوپی میں ہی پولیس نے شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کر رہے لوگوں پر سیدھے گولی چلائی۔ مرنے والوں کے سر، سینے یا پیٹھ پر گولی لگی ہے۔ اسی پر مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے جلیاں والے باغ کی یاد تازہ ہونے کی بات کہی تھی۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ نے سی اے اے کی حمایت میں ہوئی ریلی میں کہا کہ آزادی کا نعرہ لگانے والوں کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔ مسلمان مردوں نے عورتوں کو آگے کر دیا اور خود رضائی میں سو رہے ہیں۔ سرکاری اثاثے کو نقصان پہنچانے والے مظاہرین سے نقصان کی بھر پائی کرائی جائے گی۔ یہ صحیح ہے کہ احتجاج پر امن ہونا چاہئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آزاد بھارت میں طلبہ، کسانوں، جاٹوں، گجروں اور ریزرویشن بل کے خلاف مظاہروں کے دوران ہوئے سرکاری اثاثوں کے نقصان کی بھرپائی کا کیا کبھی مطالبہ کیا گیا؟ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ویڈیوز میں پولیس عام لوگوں کی گاڑیاں، سی سی ٹی وی کیمرے توڑتے اور مظاہرین پر پتھر پھینکتی دکھائی دے رہی ہے۔ پولیس کے ذریعہ گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ اور مارپیٹ کرنے کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔ کیا ان سے ہرجانہ وصولا جائے گا؟ ایسا لگتا ہے کہ مودی شاہ کے دور میں حکومت کی پالیسی سے اختلاف کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ 
لکھنؤ میں مظاہرہ کر رہی خواتین کا کہنا ہے کہ پولیس انہیں دھمکا رہی ہے کہ گھسیٹ کر مروں گا، سارے بْرقع اٹھا کر پھینک دونگا۔ یوگی کو سیاہ پرچم دکھانے والی پوجا شکلا کو بغیر وجہ بتائے گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ 6 خواتین سمیت تین درجن افراد کو گرفتار کر کیا گیا ہے۔ رہائی منچ کے راجیو یادو کا کہنا ہے کہ گھنٹہ گھر میں پولیس لگا تار مارچ کر رہی ہے۔ سڑک پر کھڑے تحریک کے حامی مردوں کو پولیس لاٹھی دکھا کر بھگا رہی ہے۔ احتجاج کو ختم کرنے کے لئے اس نے اپنا ہر حربہ اپنایا ہے۔ آس پاس کے بیت الخلا کو منتقل کر دیا گیا اور رات کو ساری لائٹ بند کر دی جاتی ہے۔ علاقہ میں انٹرنیٹ کی رفتار بھی کافی سست ہے۔ اس سب کے باوجود عورتوں کا حوصلہ پست نہیں ہو رہا ہے۔ جمہوری روایات کا تقاضا ہے کہ اختلاف میں اٹھنے والی آوازوں پرحکومت توجہ دے۔ 
اس کے برعکس برسراقتدار جماعت کے وزراء  اور ممبران خواتین کی عوامی تحریک کو بدنام کر دہلی الیکشن میں سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے پروپیگنڈہ چلایا کہ شاہین باغ میں احتجاج کر رہی خواتین کو پانچ سو روپے روز مل رہے ہیں۔ پھر شاہین باغ کی عورتوں کو بکاؤ کہا گیا۔ جب یہ نہیں چلا تو کہا گیا کہ کشمیری پنڈتوں کی حمایت میں شاہین باغ کے احتجاجی سامنے نہیں آئے۔ جبکہ شاہین باغ آئے کشمیری پنڈتوں کی مظاہرین نے نہ صرف حمایت کا اعلان کیا بلکہ ان کے درد میں ساتھ دینے کا اعلان بھی کیا۔ بی جے پی کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں شاہین باغ کو توہین باغ کہہ کر پکارا۔ بنگال بی جے پی کے صدر نے مظاہرین کو کتے کی طرح گولی مارنے کی تو ایک وزیر نے زندہ دفن کرنے کو کہا۔ مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے شاہین باغ کے منچ کو ملک توڑنے والوں کا منچ بتایا۔ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے دہلی کی ایک انتخابی میٹنگ میں نعرہ لگویا "ملک کے غداروں کو گولی مارو۔۔۔۔۔کو"۔ وہیں بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ پرویش ورما نے کہا کہ دہلی میں ہماری حکومت بنی تو ایک گھنٹہ میں شاہین باغ خالی کرادیں گے۔ وہ یہیں نہیں رکے انہوں نے کہا کہ ایک مہینے کا وقت دینا شاہین باغ کوئی مرد نظر نہیں آئے گا۔ آپ بھی یہیں ہیں میں بھی یہیں ہوں۔ میرے حلقہ میں سرکاری زمین پر بنی کوئی بھی مسجد باقی نہیں رہے گی۔ سرکاری زمین پر بنی مسجدوں کو منہدم کرا دیا جائے گا۔ 
جب بھی ملک میں الیکشن آتا ہے تو بی جے کی انتخابی مہم پاکستان کے بغیر ادھوری رہتی ہے۔ بی جے پی کے امیدوار کپل مشرا پر انتخابی کمیشن نے دہلی انتخاب کو پاکستان سے جوڑنے پر 48 گھنٹہ کی پابندی لگائی تھی۔ وزیر داخلہ نے اپنی ریلی میں کہا کہ ای وی ایم کا بٹن اتنی زور سے دباؤ کہ کرنٹ شاہین باغ کو لگے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بی جے پی شاہین باغ کو الیکشن کے مرکز میں رکھ کر پولرائز کرنا چاہتی ہے۔ کیوں کہ دہلی نگر نگم جس پر پندرہ سالوں سے اس کا قبضہ ہے اور ڈی ڈی اے جو 2014 سے اس کے کنٹرول میں ہے۔ ان دونوں اداروں نے الیکشن میں بتانے لائق کچھ نہیں کیا ہے۔ بلکہ یہ بدعنوانی کے مرکز ہیں۔ اس لئے بی جے پی شاہین باغ کی پرامن اختلافی تحریک کو اپنے سیاسی مقصد کے لئے سبوتاڑ کرنا چاہتی ہے۔
بی جے پی کو اقتدار کے نشہ میں نظر نہیں آرہا کہ یہ پہلا ایسا احتجاج ہے جس کے مرکز میں ملک کا آئین ہے۔ ایک کلومیٹر بند سڑک ترنگے جھنڈوں، ملک کے عالی شان نقشہ اور دوسرے قومی نشانوں سے پٹی پڑی ہے۔ اس سے قبل قومی نشانوں کا کسی احتجاج میں اس طرح استعمال نہیں ہوا۔ آزادی کے بعد کئی مظاہرے ہوئے لیکن مسلم خواتین اتنی بڑی تعداد میں کھبی آگے نہیں آئیں۔ اور نہ ہی ہندو اور مسلمان بڑی تعداد میں ایک ساتھ آئے۔ شہریت قانون کے خلاف احتجاج میں خواتین گاندھی کے راستہ پر چل رہی ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں سے خواتین کا ساتھ دینے اور دھرنے کا حصہ بننے لوگ آرہے ہیں۔ بی جے پی کو مظاہروں کی وسعت، ترنگے کا لہرایا جانا، قومی ترانے کا گانا اور آئین کی تمہید کا پڑھا جانا بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ اسے اپنے ووٹوں کے پھسلنے اور نفرت آگ بجھنے کا ڈر ستا رہا ہے۔ جبکہ بہتر ہوتا کہ حکومت نئے شہریت قانون سے پیدا ہوئے شک و شبہات کو دور کرتی۔ مظاہرین سے بات کرتی نہ کہ ملک کو حمایت اور مخالفت کے خانوں میں بانٹنے کی ظالمانہ کوشش۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

29/ جنوری 2020

«
»

شاہین پرائمری اسکول بیدرکی طالبہ کی درد بھری فریاد

آخر کیوں کچوکے نہیں لگتے دیکھ کر مساجد کی ویرانیاں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے