|
|||
|
از:محمد ندیم الدین قاسمی
(مدرس ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد)
یہ زلزلے، طوفان ،آندھیاں ،آسمانی آفتیں و مصیبتیں اور وبائی امراض کی ہلاکت خیزیوں کے ظاہری اسباب کچھ بھی ہوں مگر حقیقی اور اہم سبب انسانوں کےنیک و بد اعمال ہی ہیں کیونکہ اللہ کا ضابطہ ہے کہ جب انسان روئے زمین پر شترِ بے مہار کی طرح انسانی حدود وقیود سے آزاد ہوکر ،احکام خداوندی وسنت نبوی سے بغاوت کرکے نفسانی خواہشات کی پیروی کرتا ہےاور فحاشی وعریانیت کا بازار گرم ہوجاتاہے، تو اس قوم پراللہ کا عذاب اس طرح مسلط ہوتا ہے کہ اس کی وجوہات وحل اور ان بیماریوں کے ادویات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہی نہیں ناممکن سا معلوم ہونے لگتا ہے،وقت کی سپر پاور طاقتیں اور ان کی ٹکنالوجی بھی فیل ہوجاتی ہے جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے،،فاتاھم العذاب من حدیث لایشعرون ،فاذاقھم اللہ الخزی فی الحیاۃ الدنیا ولعذاب الاخرۃ اکبر(تو ان پر اللہ کا عذاب اس طرح آیا کہ انہیں احساس بھی نہیں ہوا،پھر اللہ نےان کو دنیوی زندگی میں رسوائی کا مزا چکھایا اور آخرت کا عذاب اس سے کئی گنا بڑا ہے) ایک جگہ اللہ ارشاد ہے:وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ (الشوریٰ:۳۰)(جو مصیبت بھی تم پر آتی ہے وہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے)
اور ایک جگہ ارشاد ہے ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ“․(الروم:۴۱)
ترجمہ: ”خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب خرابی پھیل رہی ہے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھادے؛تاکہ وہ باز آجائیں“
حسن بصریؒ سے منقول ایک حدیث میں ہے کہ:
”أعمالکم عمالکم وکما تکونوا یولی علیکم“․(کشف الخفاء ج:۱، ص:۱۴۷، بحوالہ طبرانی)
اسی طرح حالیہ وباء کورونا وائرس جس سے پوری دنیا خوف زدہ اور دہشت میں مبتلا ہےہر ملک ایک قید خانہ بن گیا ہے ، ترقی یافتہ ممالک اس قہر کے آگے بے بس ہوگئے ہیں جس وبانے ۱۳ہزار سے زائد لوگوں کوموت کے گھاٹ اتاردیا، ایک رپورٹ کے مطابق اٹلی میں ایک دن میں ۸۰۰ افراد اس بیماری سے لڑتے لڑتے دنیا سے چلے اور ۳۰۳۰۵۵ابھی بھی پوری دنیا میں اس بیماری سے متاثر ہیں، دراصل یہ ابتلا ءوآزمائش بھی اللہ کی طرف سے الارم وتنبیہ ہے؛ تاکہ انسان اپنے اعمال کا محاسبہ کرے اپنے اعمال سے باز آجائے اور کوئی تنبیہ اس کے غفلت شعار دل کو جُنبش دینے میں کامیاب ہوجائے اور وہ اللہ کی طرف رجوع کرے جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے
:وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ ٱلْعَذَابِ ٱلْأَدْنَىٰ دُونَ ٱلْعَذَابِ ٱلْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ( سورہ السجدہ ۲۱)(اور ضرور ہم انہیں بڑے عذاب سے پہلے قریب کا عذاب چکھائیں گے امید ہے کہ یہ لوگ باز آجائیں گے)
شعر:جب بھی میں کہتاہوں:اے اللہ!میرا حال دیکھ حکم ہو تاہےکہ اپنانامہٴ اعمال دیکھ۔
لیکن افسوس کہ مسلمان اب بھی غفلت ،سستی اور گناہ میں مصروف ہے ،دن ورات دوستوں سے واٹسپ وفیس بک چیٹنگ میں مست ومگن ہے ٹک ٹاک پر ویڈیوز بنانا اس کا محبوب ترین مشغلہ ہے، توبہ، نماز نہیں یو ٹیوب اسے بخوبی یاد ہے
اس لئے ابھی بھی وقت ہے کہ مسلمان خدا کے واسطے اطباء اور علماء کی بتائی ہوی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس مشکل گھڑی میں گناہوں پر ندامت،توبہ واستغفار اور اللہ کی طرف رجوع کرے
ظالم ابھی ہے فرصتِ توبہ نہ دیر کر
وہ بھی گِرا نہیں جو گِرا پھر سنبھل گیا
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے ولوان اھل القری امنواالخ”اور اگر ان بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا“۔(سورۃ الاعراف:۹۶)
اورآپ ﷺنے ارشاد فرمایا:
من لزم الاستغفار جعل اللہ لہ من کل ضیق مخرجا، ومن کل ھمّ فرجا، ورزقہ من حیث لا یحتسب (سنن ابو داؤد، عن ابن عباس، حدیث نمبر: ۱۵۱۸)
(جو شخص استغفار کو لازم پکڑے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کاراستہ پیدا فرمادیں گےاور اس کی ہر فکر اور پریشانی کو دلی اطمینان سے بدل دیں گے اور ان طریقوں سے رزق دیں گے جہاں سے اس کا وہم وگمان بھی نہ ہوگا۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، طبرانی، حاکم)
اور البدایہ والنہایہ میں دور فاروقی کا یہ واقعہ منقول ہے کہ حضرت عمرؓکے دور خلافت میں ایک دفعہ مدینہ اور حجاز کے علاقہ میں زبردست قحط پڑا، حضرت عمرؓنے مصر وشام کے علاقہ سے کثیر مقدار میں غذائی اشیا منگوائیں؛ مگر قحط کچھ کم نہ ہوا، ایک صحابی بلال بن حارث مزنیؓ کو خواب میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو سمجھتا تھا کہ عمر ؓ سمجھدار آدمی ہے! اس صحابی نے حضرت عمرؓکو خواب سنایا، حضرت عمرؓ بہت پریشان ہوئے اور نمازِ فجر کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا کہ کیا تم لوگوں نے میرے اندر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی تبدیلی محسوس کی؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: نہیں! اورحضرت عمرؓکی کچھ تعریف کی۔ حضرت عمرؓنے خواب دیکھنے والے صحابیؓ کو فرمایا کہ اپنا خواب بیان کریں۔ خواب سن کرصحابہ رضی اللہ عنہم نے فرمایا: امیر المؤمنین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جانب متوجہ فرمارہے ہیں کہ قحط کے حالات سے نمٹنے کے لیے آپ دنیا کے ظاہری اسباب تو اختیار فرمارہے ہیں؛ لیکن آپ نے اللہ تعالیٰ سے رجوع نہیں کیا، یعنی نمازِ استسقاء نہیں پڑھی، حضرت عمرؓچونکہ حق قبول کرنے کا مزاج رکھتے تھے تو آپ نے نمازِ استسقاء ادا فرمائی اور ایسی بارش ہوئی کہ مدینہ کا طویل قحط دور ہوا۔ (البدایہ والنہایہ،ج:۷، ص:۲۰۳،۲۰۴)
۲۔دعاؤں اہتمام کریں
کیونکہ یہ مؤمن کا ہتھیار ہے، اور اس سے مصیبتیں دور ہوتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :صرف دعاء ہی ایسی چیز ہے، جس سے تقدیر کا فیصلہ بدلتا ہے: لا یرد القضاء إلا الدعاء (ترمذی عن سلمان الفارسی، حدیث نمبر: ۲۱۳۹) حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ بندہ جب بھی دعاء کرتا ہے تو یا تو جو مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ وہی عطا فرما دیتے ہیں، یا اسی کے مثل کوئی اور مفید چیز عنایت کرتے ہیں؛ بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعاء نہ کرے :ما أحد یدعو بدعاء إلا أعطاہ اللہ ما سأل الخ (مسند احمد عن جابر، حدیث نمبر: ۱۴۸۷۹)
ماثور ومنقول دعاوں کا اہتمام کریں جس میں جسم کی عافیت اور صحت کی دعائیں کی گئی ہیں،جیسے:
اللَّهُمَّ عَافِنِي في بَدَني، اللَّهُمَّ عافِني في سَمْعي، اللَّهُمَّ عافِنِي في بَصَري، لا إله إلاَّ أنت، اللَّهُمَّ إني أعُوذُ بِكَ من الكُفْرِ، والفَقْرِ، اللَّهُمَّ إني أعُوذُ بِكَ مِنْ عذابِ القَبْرِ، لاَ إله إلاَّ أنْتَ".(صحيح سنن أبي داود 3/959)
۔بسم الله الذي لا يضرُّ مَعَ اسمِهِ شيءٌ في الأرضِ وَلاَ في السماءِ وهُوَ على السميعُ العليمُ"(ترمذی ابوداود)
اور خدا کے واسطے اس پر مزاحیہ ویڈیوز بنانے وشیئر کرنےاور دل لگی کا ذریعہ بنانے سے مکمل اجتناب کریں ۔
۳۔خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنے کے بجائے احتیاطی تدابیر کے ساتھ صبر وتوکل سے کام لیں اس لئے کہ موت تو مقدر من اللہ ہے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے
مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّـٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٝ ۚ اِنَّ اللّهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ ۚ قَدْ جَعَلَ اللّهُ لِكُلِّ شَىْءٍ قَدْرًا (طلاق ۱)
(اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے سو وہی اس کو کافی ہے، بے شک اللہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے، اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک پیمائش مقرر کر دی ہے۔)
اللہ ہمیں اس آزمائش سے بچائیں آمین!
جواب دیں