سید محمد زبیر بھٹکل
آج اس کا موڈ خراب تھا وہ اپنے شوہر کا انتظار کرتی رہی لیکن اس کے شوہر دفتر سے ابھی تک نہیں لوٹے تھے وہ بار بار گھڑی دیکھتی، کافی دیر ہوچکی تھی اس کا سارا خواب چکنا چور ہوگیا تھا بچے بھی والد کا انتظار کرتے ہوئے سو گئے تھے دراصل والد نے وعدہ کیا تھا آج گھومنے جائیں گے انھوں نے ایک پلان بنایا تھا کہ وہ ساحل کے پاس پک نک منائیں گے
سمندر کی مست موجوں اور مدھر آوازوں سے لطف اٹھائیں گے موسم بھی خوشگوار تھا سہانا موسم سمندر کی لہریں چاہے وہ پرسکون ہوں یا شوریدہ ہوں آدمی کو بے پناہ سکون دیتی ہیں جب کہ شام کے وقت لوگ اپنی فیملی کے ساتھ دوستوں کے ساتھ پک نک منانے کے لئے اکٹھا ہوتے ہیں لوگ اپنا سارا غم بھول جاتے ہیں لہریں قنوط و یاس رنج و غم کو اپنے ساتھ بہاکر لے جاتی ہیں یہی ساحل سمندر اگر سنسان اور ویران ہو تو ایک خوف کا سا سماں ہوتا ہے خاموش لہریں سرگوشیاں کرتا ہوا منظر آدمی کو ایک عجیب سا ڈر لگتا ہے ساحل پر جب مختلف محلہ اور علاقہ کے لوگ جمع ہوتے ہیں کوئی ڈیڑھی والے ہیں کوئی آئسکریم بیچ رہا ہے کوئی غبارے اور برقی کھلونے بیچ رہا ہے یہ منظر کتنا حسین لگتا ہے جی چاہتا ہے سورج نہ ڈوبے اور شام نہ ڈھلے کتنا سکون ملتا ہے بچے خوش تھے آج وہ گھوڑے اور اونٹ پر سواری کریں گے ریت کے گھروندے بنائیں گے پھر موجیں آئیں گی اور اس کو مٹا دیں گی اس ریت پر وہ اپنا نام لکھیں گے ہوا میں غبارے اڑائیں گے کسی اچھے ریسٹورنٹ میں شام کا کھانا کھائیں گے روحی یہ سب کچھ سوچ رہی تھی اوہ کتنا لطف آئے گا بچے بھی تیاری کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے سب کی نظریں گھڑی پر ٹکی ہوئی تھیں مگر ابا جان دفتر سے لوٹ نہیں پائے نگاہیں ابا جان کو تلاش کر رہی تھیں بار بار دروازہ کے پاس بچے جاتے مگر غروب آفتاب کا وقت ہوگیا ابو نہیں آئے سب کے جذبات ماند پڑگئے
دفتر میں مالک آیا ہوا تھا ساجد بھی مجبور تھا کام ہی کچھ ایسا تھا کہ لاکھ خواہش کے باوجود اس کا دماغ بیوی بچوں کے درمیان تھا وہ ان کے درمیان جانے کے لئے پرتول رہا تھا نہ جانے روحی کیا سوچ رہی ہوگی بچے کیا خیال کریں گے آج میری امیدوں پر پانی پڑگیا کتنے عرصہ کے بعد یہ منصوبہ بنایا گیا تھا مغرب کے بعد کسی طرح جان چھوٹی وہ سیدھے گھر آیا گھنٹی بجائی کچھ دیر کے بعد دروازہ کھل گیا جب جب بھی وہ آتا روحی دروازہ کے پاس آکر کھڑی رہتی دلکش مسکراہٹ اور والہانہ پن کے ساتھ اس کا استقبال ہوتا لیکن آج صورتحال میں کچھ تبدیلی تھی چہرہ بجھا بجھا سا تھا یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ تھی اس سے آنکھیں ملانے کے لئے وہ تیار نہیں تھا وہ کچن روم میں برتنوں کو دھو رہی تھی وہ سوچ رہا تھا بیوی سے کیسے آنکھ ملائے ہر طرف گہری خاموشی تھی بچے انتظار کرکے سو گئے تھے اسے خود خوف محسوس ہوا وہ روحی کو کیا جواب دے گا اسے کیسے منائے گا پیشانی پر پسینہ کی بوندیں صاف نظر آرہی تھیں اس نے اپنا ڈریس اتارا منھ ہاتھ دھویا بیوی کچن روم میں تھی آہستہ سے پکارا اسے زور کی بھوک لگی تھی بیوی پہلے ہی تیار بیٹھی تھی آواز دینا تھا جیسے ایک طوفان آگیا
مجھے پہلے معلوم تھا تم دھوکہ باز ہو ہماری خوشیوں کی تمھیں کوئی پرواہ نہیں ہے دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر یہ بھی کوئی زندگی ہے جس میں سیر و تفریح نہ ہو باغ و بہار نہ ہو جذبات کی آسودگی نہ ہو اس نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ دفتر میں اچانک کیا مجبوری پیش آئی لیکن وہ سننے کے لئے تیار نہیں تھی بات کچھ بڑھی تو پلیٹ برتن سے وار ہو رہا تھا وہ بستر پر جاکر دراز ہوگیا بیوی کا پارہ چڑھ گیا تھا غصہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا
رات کے تین بچ رہے تھے اس کے چہرہ پر بوندیں گر رہی تھیں سسکیوں کی آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی وہ روحی تھی وہ کہہ رہی تھی اوہ تم بھوکے ہی سو گئے میں نے کھانا تیار کر لیا ہے تم تو سوگئے میں رات بھر سو نہیں سوسکی مجھے معاف کردو وہ یہ کہہ کر دھاڑیں مار کر رونے لگیں ساجد کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا اس نے اسے اپنی بانہوں میں لیا پیار کیا دلاسہ دیا
نہیں روحی ایسی کوئی بات نہیں ہے کیوں اپنی جان ہلکان کر رہی ہو زندگی میں ایسے منجدھار آتے رہتے ہیں گلے شکوے ہوں زندگی حسین لگتی ہے مجھے بہت افسوس ہے میں تمھاری خواہش پوری نہیں کرسکا میں نے آج دفتر سے چھٹی لی ہے آج سارا دن ہم گھومیں گے ساحل سمندر پر جائیں گے قدرتی مناظر دیکھیں گے لیکن ان سارے مناظر میں آج تک میں نے اتنا خوبصورت منظر نہیں دیکھا جتنا میں نے آج تم کو دیکھا خوبصورت پہاڑ سمندر کی موجیں نیلا آسمان چاند ستارے دیکھنے میں بہت خوبصورت لگتے ہیں لیکن روحی تم ان سب سے خوبصورت ہو ان میں احساس نہیں ہے اور تمھارے یہ چمکتے ہوئے آنسو اس کی قیمت پوری دنیا بھی مل کر نہیں دے سکتی
بقول اشرف برماور
الفت شکایتوں میں، مزہ بے رخی میں ہے
اک لطف بھی عجیب سا اس بے کلی میں ہے
غنچہ، گلاب، چاند، ستاروں میں کچھ نہیں
دنیا کا سارا حسن تری سادگی میں ہے
04اگست2020(فکروخبر)
جواب دیں