ایجوکیشن ٹورکے نام پر آرایس ایس کا ارتدادی مشن

جس کو ایک آرایس ایس پرچارک نے ’’بالک گھر ‘‘واپسی کو نام دیا ہے دستیاب اطلاعات کے مطابق آر ایس ایس کی جانب سے ایک منظم پروگرام کے تحت سینکڑوں مسلماں بچوں کو ہندو شناخت کے ساتھ آر ایس ایس کے ٹریننگ کیمپ میں بھیجاجارہاہے وہاں ان کو بھگوان کی مورتیوں کی پوجاسمیت ہندو مذہبی تعلمات سے روشناس کرایاجارہاہے کیمپوں میں مسلمان بچوں کو یہ باور کرایاجارہاہے کہ کسی مسلمان کا ہندووانہ نام ہونایارکھنا کوئی مسئلہ نہیں اگر کہیں انہیں اپنے ہندوانہ نام سے کوئی مسئلہ درپیش ہوجائے تو انہیں چاہئے کہ وہ آرایس ایس کی جانب سے’’رضاکارو ں کے نام پر جاری کردہ‘‘شناختی کارڈ‘‘کو استعمال کریں جس میں مسلم طلبہ کو ہند ونام دیئے گئے ہیں مسلمان طلبہ کے خلاف یہ سازش اس وقت آشکارہ ہوئی جب اترپردیش کے سدھارتھ نگر سے تعلق رکھنے والے ایک کم سن آٹھویں کلاس کامسلمان طالب علم گلزار احمدکے والد محبوب احمدنے سدھارتھ نگر کوتوالی؍پرتی بازار پولس اسٹیشن میں درخواست دی کہ ان کے بیٹے گلزار احمدکو ان کے ہیڈ ماسٹرنے ایجو کیشن ٹور کے نام پرہندو نام کی شناخت دیکرآرایس ایس ٹریننگ کیمپ میں بھیج دیاوہان سات دن تک بچے کو مختلف ورزشیں کرائی گئیں اور ہندو بن جانے کیلئے برین واشنگ کی گئی کیمپ کے ا ختتام تک گلزار احمد کے معصوم ذہن میں اٹھنے والے سوالات جڑ پکڑ گئے اور اس نے اپنے والد سے ہندو مذہب اورآرایس ایس کے ٹریننگ کے حوالہ سے کچھ سوالات کئے؟جس سے محبوب احمد کا ماتھا ٹھنکااور انہوں نے مقامی زعماء کے ساتھ ملکر آرایس ایس کی اس سازش کے خلاف پولس اسٹیشن میں درخواست جمع کرادی تاہم محبو ب احمد کا کہناہے کہ مقامی پولس اس ضمن میںآرایس ایس کے خلاف کسی قسم کارروائی تو درکنار ،ایک سرکاری کالج کے اندر کیمپ کے انعقاد کے بارے میں کوئی جانچ تک کرنے کو تیار نہیں معتبر ذرائع سے معلوم ہو اکہ گلزار کو ہندو بچہ ظاہر کرکے آرایس ایس کیمپ میں بھیجاگیاتھاجس کی تحقیقات کے لئے پولس کو درخواست دی گئی ہے ہندی روزنا مہ دینک بھاسکرکی رپورٹ کے مطابق بچے جب گھر واپس آئے توآرایس ایس کیمپوں کی یونیفارم،یعنی ہاف پینٹ،ہاف شرٹ،سیاہ ٹوپی،ہاتھ میں ڈنڈا،اورمخصوص شناختی کارڈکے ساتھ جس کو دیکھ کر گلزار کے والد حیرت میں پڑگئے گلزار احمدکے والد محبوب نے بتایاکہ ان کو جونیر ہائی اسکول کے ہیڈماشٹرنے ۸؍کتوبر ۲۰۱۵ ؁؍کواپنے آفس میں بلاکر کہا کہ گلزاراحمدکوایک ایجو کیشنل ٹریننگ کیمپ پر بھیجاجارہاہے اس لئے آپ اس کی آمدورفت اورقیام وطعام کی مدمیں ۴۵۰؍روپیہ اداکریں اس پر انہوں نے تعلیمی بہتری او ر ہم نصابی سرگرمیوں کے لئے ساڑھے چارسو روپیہ دیدئے لیکن انہیںیہ نہیں معلوم تھا کہ ان کے بیٹے کو ہندوشناخت دی گئی اور اس کا نا م آرایس ایس رضاکارو ں کے لئے مختص شناختی کارڈپر ’’وجے کمار‘‘نام لکھاگیااورتصو یر گلزار کی لگائی گئی جس میں اس نے دوپلیّ ٹوپی پہن رکھی ہے اورہاتھ میں آرایس ایس والوں کا روایتی ڈنڈا پکڑ رکھا ہے گلزا ر نے بتا یا کہ اس کو ہیڈ ماشٹرنے یہی بتایاتھا کہ تم کو ایجو کیشنل ٹریننگ سینڑبھیجا جارہاہے اور تمہارا نام گلزار احمد کے بجائے ’’وجے کمار‘‘ رکھاگیاہے گلزار کو یہ بتایاگیاکہ اس طرح تما م ہندو طلبہ تمکو ہندوسمجھیں گے اور تمہارے ساتھ اچھا سلوک کریں گے یہ سنکر گلزار خامو ش ہوگیااس کے بعد گلزار دیگر ہندو طلبہ کے ساتھ بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ جگدمیبیپال کے سوریہ کالج واقع پرسابڑھنی تحصیل ؍ضلع سدھارتھ نگرآگیاوہا ں پتہ چلاکہ آریس ٓایس کا کیمپ لگا ہے اور کئی اسکولوں کے طلبہ کو لایاگیا ہے گلزارنے بتایاکہ کیمپ میں موجو د طلبہ کولیکچرزمیں ہند ومذہب سے محبت اور ا س کی بقاء کے لئے اپناتن من دھن وقف کردینے کاوعدہ لیا گیااور کسی بھی جنگ یالڑائی کی صوت میں لاٹھی ڈنڈے کا استعمال بھی سکھایاگیا۱۰؍اکتوبر سے ۱۷؍اکتوبر تک آٹھ روزہ جاری اس کیمپ میں مسلمان بچوں کو ہند ومذہب کی افادیت بتائی گئی اور نہیں کیمپ کے اختتام پر یہ تاکید کی گئی کہ وہ اپنے اسلامی ناموں کی نسبت ہندوانہ نام پر فخر کریں اور اسی نا م سے پکار ے جانے پر اصرار کریں گرچہ آر ایس ایس کی اس سازش کے خلاف پولس اسٹیشن میں دراخواست دی جاچکی ہے لیکن نظر یہ آرہاہے کہ پولس اس کیس میں سنجیدہ نہیں ہے مذکورہ ارتدادی واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے یہ ایک واقعہ ہمارے سامنے آگیاہے خدا جانے کتنے واقعات اس طرح کے اور بھی ہوتے ہونگے جو پردے میں رہجاتے ہیںیہ صورتحال یوپی سمیت ان صوبوں میں کچھ زیاد ہ ہی پائی جارہی ہے جو اسلام مخالف گروہ (آرایس ایس)اور اس کی شاخاؤ ں۔اے بی وہ پی۔مزدورسنگھ۔وی ایچ پی۔اور بجرنگ دل جیسی سوسے زیادہ زائد ذیلی تنظیموں کے توجہات کے مرکز رہے ہیں جہاں ہندو احیائیت اور اس کے منصوبوں کو پھلنے پھولنے کی راہیں آسان ہیں جو سنگھ سے متاثر اور تعصب پرست اسٹیٹ کہلاتے ہیں مذکورہ واقعہ کی یہ افسوسناک صورت حال جن خطرناک وتباہ کن نتائج پر منتج ہوئی وہ آج ہمارے سامنے ہے آج معاملہ انگریزی تعلیم کا نہیں ہے اورنہ ہی شرک جلی،اصنام پرستی اور دیو مالائی عقائد (میتھالوجی)کا ہے آج معاملہ برہمی تہذیب اور ہندو تہذیب کے قبول کرنے کا ہے اصل خطرہ نسل کشی کا نہیں معنو ی ارتداد کا ہے ذہنی وتہذیبی ارتداد ،اس خطرے کو دیکھنے اور اس کو محسوس کرنے کے لئے کسی بڑی فراست اور دور بینی کی ضرورت نہیںیہ تو نوشتہ دیوار ہے جس کو ہرشخص پڑھ سکتا ہے آج کا چیلنج اور آج کا خطرہ گزشتہ تمام چیلنجوں اور خطرات سے زیادہ سنگین ہے اس کو قبول کرنے کے لئے کہیں زیادہ ایما ن و استقامت اورکہیں زیادہ ایثار وقربانی کی ضرورت ہے کیونکہ باطل کے یہ تجربہ کار نمائندے اور شرک وکفر کے یہ نام ور علم بردار وتاجدار تھک ہار کر بیٹھنے والے نہیں ہے آرایس ایس کے ذریعہ ان کے زیر نگیں اسکولوں میں جو کاشت کیجارہی ہے اگراسے روکناہے تو ہمیں حالات کاگہرائی کا جائزہ لیکرکچھ سنجیدہ اقدامات کرنے ہونگے سب سے پہلے ہمیں اپنے نظام ونصا ب تعلیم کو اس طرح مرتب کرنا ہوگا کہ ہمار بچہ اور بچی دین کی بنیادی باتو ں سے واقف ہوایمان اس کے دل میں رچ بس گیاہو اور ضروریات دین کا اسے پوراعلم ہو اگر بچپن ہی میں بچوں کو دلو ں میں ایما ن کی محبت اور قدروقیمت نہیں بٹھائی گئی تو زندگی کے ہر مرحلہ میں ان کا دین وایمان خطر ے میں رہیگااور مخالف ہوائیں ان کے ایما ن کے شجر کو بیخ وبن سے اکھاڑپھینکے گے بچوں کو محض کلمہ طیب رٹادیناکافی نہیں بلکہ ان کے دل میں ایما ن بسادینا ضروری ہے ان کی تعلیم وتربیت ا س طر ح کی جائے کہ ایمان کو وہ سب سے قیمتی سرمایہ سمجھیں اورکسی حال میں اس سے دست بردارہونے کا تصو ربھی ان کے حاشیہ خیال میں نہ آنے پائے اور کفر وشرک سے انہیں گھن آنے کی حد تک نفر ت ہونیز والدین کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لئے ایسے اسکولو ں کا انتخاب کریں جہاں تعلیمی ترقی کے سا تھ ساتھ ان کا ایمان سلامت رہے میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ معاملہ بہت خراب ہوچکا ہے لیکن اللہ کی ذات سے پوری امید ہے کہ ابھی قابوسے باہر نہیں ہے بلکہ اب بھی اگر ہم نے تھوڑی سی محنت کرلی تو اللہ کی نصرت ومدد ساتھ ہوگی اور ہم اپنے نونہالوں کو ارتداد سے بچاسکتے ہیں ۔

«
»

دوقدم تم بھی چلو۔۔۔

بے چارہ گائے کاہتھیارہ کیوں ماراگیا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے