ایک تھا کسان

مٹھائیاں حلوہ ، کھیر اور فیرنی کی مٹھاس کسان کے اگائے گنے سے بنی چینی سے پیدا ہوتی ہے بچے نے کسا ن کے بارے میں زیادہ جاننے میں دلچسپی نہیں دکھائی اور اپنے کھیل میں لگ گیا ۔
کسان میں بچے کی عدم دلچسپی ایک معمولی واقعہ تھا لیکن نہ جانے کیوں مجھے اس میں ملک کی بے حسی نظر آرہی تھی میں سوچ رہا تھا کہ وہ ایک کسان تھا جس نے اپنے ہی انگوچھے کا پھندہ بنا کر ہزاروں لوگوں کے سامنے میڈیا کی موجودگی میں کسانوں کے مدے پر بلائی گئی ریلی میں قانون کے مندر کے سامنے وزیر اعظم کے دروازہ پر اس امید کے ساتھ پھانسی لگا لی کہ شاید اب سرکار کے کان تک کسان کی آواز پہنچ چائے ۔پورے ملک نے اس کی موت پر افسوس ظاہر کیا دہلی سرکار نے اسے شہید کا درجہ دینے اور کسانوں کے معاوضہ کی اسکیم اس کے نا م سے جاری کرنے کا اعلان کیا لیکن وہ جس ریاست کا رہنے والا تھا وہاں کی سرکار خاموش تماشائی بنی رہی اس کی موت پر وزیر اعظم کو بولنا پڑا کہ انسانی زندگی زیادہ اہم ہے لیکن وہ بھی کسان تھے جن کی موت پھر آنکڑا بن کر رہ گئی ۔
گجیندر کی موت پر عام آدمی پارٹی کو کٹگھڑے میں کھڑا کیا گیا سوا ل ان لوگوں سے بھی کیا جانا چاہئے جو اس پیڑ کے ارد گرد جمع تھے شروعات میں دو نو جوان اسے بچانے کے لئے سامنے آئے ان میں سے ایک نے بعد میں بلکتے ہوئے کہا کہ اگر لوگ ساتھ دیتے تو اسے بچایا جا سکتا تھا ۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید وہاں موجود لوگ اسے سیاسی نو ٹنکی مان بیٹھے تھے ۔اس سے پوری طرح انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ریلیوں میں طرح طرح کے سانگ رچنے کا چلن بڑھ رہا ہے کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ گجیندر کا مقصد خود کشی کرنا نہیں تھا وہ عوام اور لیڈروں کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا اسی دوران پیر پھسلنے سے اس کی جان چلی گئی ۔ سچائی تو صرف ایک ہی شخص بتا سکتا تھا وہ خود گجیندر ۔ اس کی جان تو چلی گئی لیکن اپنے پیچھے کئی ان کہے سوال چھوڑ گئی ۔
گجیندر کی موت پر عا م آدمی پارٹی کی خوب لعن طعن ہوئی کہا یہ گیا کہ کجریوال کو میٹنگ ختم کرنی چاہئے تھی عوا م کی یہ خواہش بجا بھی ہے لیکن یاد کیجےئے پٹنہ کی اس ریلی کو جس میں دیش کی سب سے بڑی کرسی کے دعویدار کی تقریر چل رہی تھی اور بم دھماکہ ہو گیا تھا پورے گاندھی میدان میں افرا تفری کا ماحول تھا اس وقت نہ بھاشن رکا نہ ریلی پھر ہم شکایت کرتے ہیں کہ لیڈر خراب ہوگئے یا ان کے سینے میں دل نہیں ہے انہیں اقتدار میں آنے کے بعد عام لوگ یاد نہیں رہتے سوال یہ ہے کہ ہم ووٹ دیکر یہ کیوں مان لیتے ہیں کہ اب ساری ذمہ داری حکمرانوں کی ہے ہمیں بھی تو اپنی ذمہ داری اور انسانی ہمدردی کا کچھ احساس ہونا چاہئے ۔لیڈران بھی تو ہم میں سے ہی ہیں ۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ کسان کو کھیتی یا زندگی چھوڑنے کو مجبور ہونا پڑ رہا ہے ۔2011کی مرد م شماری کے مطابق پچھلی ایک دہائی میں90لاکھ کسان کھیتی چھوڑ چکے ہیں یعنی ہر روز 2460کسان کھیتی چھوڑ رہے ہیں صرف پنجاب میں ہر سال 10.000کسانوں کا کھیتی میں موہ بھنگ ہو رہا ہے ان میں سے ایک تہائی اپنی زمین بیچ کر دوسرے کھیتوں میں یا پھر چھوٹی منڈیوں میں مزدوری کررہے ہیں اس کی بڑی وجہ روایتی آب پاشی کا طریقہ
چھوٹی ہوتی جوت ، مہنگا قرض ، بجلی پانی کی قلت ، لاگت زیادہ یافت کم ، جدید ٹکنالوجی سے دوری اور کھیتی پر منحصر لوگو ں کی تعداد میں اضافہ وغیرہ ہے 1950-51میں ملک کے GDPمیں 55فیصد حصہ کھیتی کا تھا جو آج گھٹ کر 15فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے اس دوران کھیتی پر منحصر لوگوں کی تعداد 24کروڑ سے بڑھ کر 60کروڑ ہو گئی ہے پوری دنیا میں پونے چار ارب لوگوں کا کھیتی پر انحصار ہے جبکہ دنیا میں موجود کھیتوں پر صرف 75کروڑ لوگ ہی کام کرسکتے ہیں بھارت میں کسانوں کو ذراعتی سبسڈی دوسرے ملکوں کے مقابلہ بہت کم ملتی ہے مثلا امریکہ میں یہ 32ڈالر فی ہیکٹےئر ہے بھارت میں صرف 14ڈالر جبکہ وہاں کے پانچ فیصد کا اور ہمارے یہاں لگ بھگ 60فیصد آبادی کھیتی پر منحصر ہے ۔ کسانوں کی کھیتی سے دوری بنانے کی ایک وجہ کھیتی کے خراب حالات بھی ہیں جس نے کسانوں کو گاؤں سے شہر کا رخ کرنے کیلئے مجبور کردیا ہے ۔اس سے شہروں پر آبادی کا بوجھ بڑھ رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار عالمی بنک کی صلاح پر چالس کروڑ لوگوں کو گاؤں سے شہر لانے کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے چالیس اسمارٹ سٹی بنانے اور ان کے لئے زمین مہیا کرانے کی غرض سے یہ قانون بنا رہی ہے ۔ 
دھیان دینے کی بات یہ بھی ہے کہ ہر بار ترقی کی سوئی کسان کی زمین پر آکر کیوں رک جاتی مودی نے کسانوں سے من کی بات میں کہا تھا کہ اپوزیشن تحویل آراضی قانون کو لیکر کسانوں کو گمراہ کررہی ہے جبکہ اس قانون کا مقصد ان کے مفادات کی حفاظت اور کمزور طبقات کے فلاح و بہبود کی اسکیم بنانا ہے وزارت مالیات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ فروری تک 804پروجیکٹ التواء میں تھے ان میں سے صرف 8فیصد زمین کے نہ ملنے کی وجہ سے رکے زیادہ تر بازار کے حالات یا ماحولیات (پولوشن ) کی منظوری نہ ملنے یا پھر درخواست گزار کی عدم دلچسپی کی وجہ سے التواء میں رہے ہیں ۔وزارت کے اعداد سے یہ بھی انکشاف ہوتا ہے کہ ا ن میں سے ایک کا بھی سیدھا تعلق کمزور طبقات کی فلاح و بہبود سے نہیں ہے ۔ان میں سے ان پروجیکٹ میں سے 18فیصد نجی زمرے کے ہیں 145ایسے ہیں جنہیں لگژری کہا جا سکتا ہے مثلا ہوٹل ، ملٹی پلکس ، ریسورٹس ، مال اور گولف کورس وغیرہ بنانے سے متعلق ہیں یہ مجوزہ پروجیکٹس جن 15ریاستوں میں زیر غور ہیں ان میں سے دس ریاستیں ایسی ہیں جہاں آدی واسی کشیر تعداد میں رہتے ہیں ۔ 

بھارت کی گنتی کرشی پردھان دیشوں میں ہوتی ہے ہمارے یہاں تمام طرح کے کمیشن بنے ہوئے ہیں مثلا ایکشن کمیشن ، فائنانس کمیشن ، ایس سی ایس ٹی کمیشن ، اور لاء کمیشن وغیرہ لیکن ذراعتی کمیشن نہیں ہے جبکہ کھیتی کو منافع بخش کاروبار میں بدلنے کے لئے ذراعتی کمیشن کی اشد ضرورت ہے ۔ذراعت سے متعلق تمام معاملات اس کمیشن کے سپرد کئے جائیں یہ کمیشن جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے کسانوں کو واقف کرائے اچھے بیج کم قیمت پر دستیاب کرائے ، کسانوں کے سنڈییٹ بنوائے کھاد اور کیڑوں کو مارنے والی دواؤں کی مقدار طے کرے اور یہ بھی دیکھے کہ کیا ان دواؤں کے استعمال کی ضرورت ہے بھی یا نہیں ، کیڑوں کے خاتمہ کے لئے چڑیوں اور پرندوں کی مدد لی جائے وغیرہ کمیشن کسانوں کو یہ مشورہ بھی دے کہ کتنی زمین میں وہ کیا فصل اگائیں اناج ، دلہن ، تلہن ، کپاس ، گنا ، کیلا ، سبزیاں وغیرہ کسان اس وجہ سے بھی مرتے ہیں کہ کسی سال آلو سے اچھا منافع ملا تو اگلے سال زیادہ کسان آلو کی فصل لگا بیٹھتے ہیں فصل زیادہ ہونے سے آلو کی وہ قیمت نہیں مل پاتی جس کی انہیں توقع ہوتی ہے کھیتی میں توازن پیدا کرنا ایک بڑا کام ہے منڈیوں میں کسانوں کو لٹنے سے بچانا بھی اس کمیشن کا کا م ہونا چاہئے۔

ترقی کے دوسرے منصوبوں کو موخر کیا جا سکتا ہے لیکن کھیتی کسانی کو ترقی دینے کیلئے بنیادی سدھار کرنے کی انتہائی ضرورت ہے کیونکہ کھیتی کسانی زمین اور ماحول کی حفاظت کی آخری کڑی ہے کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعہ اس آخری کڑی کو چھینے اور منافع میں بدلنے کی سرکار میں بے چینی دکھائی دے رہی ہے اگر مودی سرکار کاکسانوں کو زمین سے بے دخل کرنے کے منصوبے میں کامیابی ملی تو 20سال بعد بھارت دنیا کو مزدور فراہم کرنے والا پہلا ملک بن جائے گا کیونکہ دنیا کے کئی ممالک میں آبادی کی گروتھ نفی میں جا چکی ہے ۔کھیتی سے بے دخل بے روزگار لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ ہمارے پاس دستیاب ہوگی جسے کسی بھی قیمت پر مزدوری میں جٹایا جا سکے گا ۔ 
ہم ترقی کا کوئی بھی ماڈل اپنائیں خواہ وہ یورپی ، امریکی ، چینی ، ہو یا پھر جاپانی قربانی کسانوں کی ہی ہوگی کیا بھارت اپنی کھیتی کسانی کو ڈیولپ کر دنیا کو قابل برداشت (Sustainable) ترقی کا ماڈل نہیں دے سکتا بس اس طرف توجہ دینے اور کسانوں کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم اپنے بچوں کو یہ بتایا کریں گے کہ ایک تھا کسان جو ہمارے لئے اناج اگاتا تھا ۔ جانور پال کر دودھ فراہم کرتا تھا جس سے دہی ، مکھن اور گھی بنتا تھا ۔

«
»

خبر ہونے تک …..

آر.ایس.ایس. کی ذہنیت اورمسلم خواتین مجاہد آزادی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے