ایک نئی وارگیم

پاکستان اور افغانستان خطے کے وہ ممالک ہیں جو بھارت میں آنے والی نئی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ بھارت کے اپنے ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ مستقبل میں تعلقات نہ صرف اندرونی عوامل پر منحصر ہیں بلکہ آئندہ سال کے علاقائی واقعات کے ساتھ بھی منسلک ہوں گے کیونکہ یہاں سے غیر ملکی افواج نکل چکی ہوں گی۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان ہمیشہ بھارت اور پاکستان کے لیے سٹریٹجک اہمیت حامل رہا ہے اور افغانستان میں گذشتہ تین دہائیوں سے جاری تشدد کے کچھ عوامل کا تعلق بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات سے ہے۔ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے ساتھ افغانستان میں بھارت اور پاکستان اپنا سٹریٹجک اثر و رسوخ بڑھانے کی زیادہ کوششیں کریں گے۔افغانستان سے۲۰۰۱ء میں طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد دہلی اور کابل کے درمیان تعلقات میں تیزی کے ساتھ توسیع دیکھنے میں آئی ہے اور اس دوران بھارت نے افغانستان کو اچھی خاصی ترقیاتی امدادکے علاوہ افغان پولیس، سفارت کاروں کی تربیت، سڑکوں ، صحت، تجارت اور معیشت کے شعبے کی ترقی میں سرمایہ کاری کرکے اپنے قدم مضبوطی سے جمالئے ہیں کیونکہ وہ افغانستان کو علاقائی استحکام کیلئے اپنا اہم سٹریٹجک اتحادی سمجھتاہے اوردونوں ممالک نے ایک سٹریٹجک معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔اس کے علاوہ بھارت افغان فوج کی ضرورت کے لیے روس سے بھاری ہتھیار خریدنے اور بعد میں افغانستان کو یہ اسلحہ مہیا کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس پر پاکستان نے اپنے شدید ردعمل کااظہاربھی کیاہے۔
ادھرپانچ اپریل کوہونے والے افغان صدارتی انتخابات میں کوئی بھی امیدوارمطلوبہ پچاس فیصدووٹ حاصل نہ کرسکاتھا،اب شمالی اتحادکے عبداللہ عبداللہ اورامریکی حمائت یافتہ امیدواراورسابق وزیرخزانہ اشرف غنی احمدزئی کے درمیان ۱۵جون کودوبارہ مقابلہ ہوگااورجولائی میں نیاصدرحلف اٹھائے گاجبکہ جولائی ہی میں امریکی انخلاء شروع ہوگا تاہم بھارت میں بی جے پی کی جیت کے بعدپانچ اپریل میں غیرمتعلق رہنے والے بھارتی سفارتکاروں نے عبداللہ عبداللہ کے قریبی لوگوں کے ساتھ ملاقاتیں شروع کردیں ہیں جبکہ اشرف غنی کے ساتھ بھی کئی ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ اہم بھارتی سفارتکارشمالی اتحاداورسابق نائب صدراحمدضیاء مسعودکوراضی کرنے اورعبداللہ عبداللہ کوکامیاب کروانے کیلئے دن رات کوششوں میں اس لئے مصروف ہیں کیونکہ وہ عبداللہ عبداللہ کی پاکستان دشمنی کابھرپورفائدہ اٹھاناچاہتے ہیں۔ماضی میں عبداللہ عبداللہ کابھارت کے ساتھ بڑاقریبی گہراتعلق رہاہے اوراس وقت ان کے بچے میں بھارت میں زیرتعلیم ہیں۔عبداللہ عبداللہ کاایران کے ساتھ بھی قریبی تعلق رہاہے اوربھارت عبداللہ عبداللہ کی کامیابی کی صورت میں ایران کوبھی اپنے اسٹرٹیجک اتحادیوں میں شامل کرنے کاارداہ رکھتاہے۔ 
نریندرمودی کی جیت کے بعدبھارتی سفارتکاروں کی ان پراسرارملاقاتوں کے بعدکابل میں بھی چہ میگوئیاں شروع ہوچکی ہیں کہ آیابھارت افغانستان کے اندراپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے بارے میں سوچ رہاہے ۔بھارت کے سابق آرمی چیف وی کے سنگھ جنہوں نے بی جے پی کے ٹکٹ پرانتخاب جیتاہے اورجوپاکستان کودہمکیاں دینے میں بھی خاصی شہرت رکھتے ہیں،ان کی افغانستان پرخصوصی نظرہے کیونکہ افغانستان کی فوج کوہتھیاردینے اوران کی تربیت کے منصوبے انہوں نے ہی اپنے دور میں بنائے تھے اوران کوبی جے پی کے اندرسیکورٹی پالیسی کے حوالے سے مشورے بھی دیئے جارہے ہیں۔بھارت کے سفارتکاروں کی اچانک ان ملاقاتوں سے افغانستان کے انتخابات کافی دلچسپ صورتحال اختیارکرگئے ہیں کیونکہ ایک طرف مودی اقتدارمیں آگئے ہیں تودوسری جانب عبداللہ عبداللہ کولانے کیلئے بھارت اوراس کے حواری میدان میں کودپڑے ہیں تاہم عبداللہ عبداللہ نے بھارتی سفارتکاروں کے ساتھ ملاقاتوں سے انکارکردیاہے تاہم ان کے قریبی ساتھی بھارتی سفارتکاروں سے ملاقاتیں کررہے ہیں کیونکہ عبداللہ عبداللہ پاکستان کوانتخابات کے اس مرحلے پرنظراندازنہیں کرناچاہتے ہیں اورنہ ہی پاکستان کواپنامخالف بناناچاہتے ہیں۔
دوسری جانب اشرف غنی بھارتی سفارتکاروں سے ملاقاتیں توکررہے ہیں تاہم انہیں ان ملاقاتوں میں کوئی دلچسپی نہیں اوران کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح عبداللہ عبداللہ کوبھارتی حمائتی ثابت کرکے پاکستان کی حمائت حاصل کی جائے ،یہی وجہ ہے کہ اشرف غنی کے ساتھی ان سابق جہادیوں کے ساتھ بھرپوررابطے میں ہیں جوپاکستان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اورایک دوسرے کورام کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ امریکابھی چاہتاہے کہ پاکستان اشرف غنی کی حمائت کرے تاہم پاکستان نے فی الحال اپنے آپ کوغیرجانبدارثابت کیاہے تاہم اہم ذرائع کاکہناہے کہ جس طرح بھارتی سفارتکاروں نے اپنی پراسرارسرگرمیاں شروع کی ہیںآئندہ چندہفتوں میں پاکستان اس بارے میں کوئی اہم فیصلہ کرسکتاہے کہ وہ کس کاساتھ دے اوریہ بات طے ہے کہ پاکستان جس امیدوارکاساتھ دے گاوہی افغانستان کانیاصدرہوگا۔
تاہم ذرائع کے مطابق عبداللہ عبداللہ پاکستان کے تمام مطالبات ماننے کیلئے تیارنظرآرہے ہیں اورانہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہاہے کہ پاکستان ٹی ٹی پی اوربلوچستان کے شرپسندوں کے بارے میں جوبھی مطالبات رکھناچاہتاہے ،ان کوماناجائے گاکیونکہ وہ یہ موقع ضائع نہیں کرناچاہتے کہ پہلی مرتبہ ایک غیرپشتون افغانستان میں جمہوری طریقے سے آئندہ پانچ سال کیلئے حکمران بنے ۔عبداللہ عبداللہ کے قریبی ذرائع کاکہناہے کہ عبداللہ عبداللہ اس وقت امریکا،بھارت اورایران کاناراض نہیں کرناچاہتے تاہم وہ اپنی نجی محفلوں میں اپنے ساتھیوں کوکہتے ہیں کہ پاکستان کوماضی میں ناراض کرکے جوغلطیاں کی گئی ہیں ان غلطیوں کودوبارہ دہرانے کی اب ضرورت نہیں ہے کیونکہ پاکستان کے بغیرافغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتااورپاکستان اورافغانستان ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیں اس لئے پاکستان اورافغانستان ہی اپنے مسائل خودحل کرسکتے ہیں تاہم دونوں ممالک میں ایسے حکمران ہوں جوایک دوسرے پراعتبارکریں اورجوکام کرزئی اوران کے ساتھیوں نے کیاہے اس کی بجائے پاکستان کے ساتھ اعتماد کرکے آگے بڑھناہوگااوراگرپاکستان کے ساتھ اعتمادکرکے ہم آگے بڑھ گئے تواس خطے کے مسائل حل ہوسکتے ہیں اوریہاں پربیرونی افواج کے قیام کی بھی ضرورت نہیں رہے گی ۔
عبداللہ عبداللہ نے اپنے ساتھیوں سے یہ بھی کہاہے کہ طالبان اوردیگرقوتوں سے مذاکرات میں صرف پاکستان ہی کرداراداکرسکتاہے ،ایران،بھارت یاامریکایہ کردارادانہیں کرسکتے بلکہ بھارت اورامریکاکی بجائے پاکستان کااعتمادبحال کرناہوگا۔اس سلسلے میں گزشتہ دنوں افغانستان کی حکومت نے باضابطہ طورپرافغانستان کے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کیلئے پاکستان سے پہلی بارسرکاری طورپردرخواست کی ہے ،یہ درخواست افغان آرمی چیف اورامریکی کمانڈرجوزف نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے ساتھ کابل میں مذاکرات کے دوران کی تاہم پاکستان کونیٹوافواج کے انخلاء ،سیکورٹی معاملات،دفاعی تعلقات اورصدارتی انتخابات میں تعاون کی اپیل ،یونس قانونی، افغان وزیردفاع اورسابق آرمی چیف بسم اللہ خان نے کی۔یونس قانونی نے جنرل راحیل شریف کے ساتھ اکیلے میں ملاقات کی اوران سے انتخابات کے بعدمددکیلئے درخواست کی جس کے بعدپاکستانی فوج کے سربراہ نے افغانستان میں قیام امن میں کرداراداکرنے ،صدارتی انتخابات کی سیکورٹی کیلئے بھی یقین دہانی کروائی ہے۔پاکستانی فوج کے سربراہ کی کابل میں اہم ملاقاتوں،سرگرمیوں اورشمالی اتحادکے رہنماؤں کی گہری دلچسپی کے بعدافغانستان میں امریکی،بھارتی اورایرانی سفارتکاروں کے کان کھڑے ہوگئے ہیں اور بھارتی سفارتکار یونس قانونی سے ملاقات کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاہم انہیں اس میں کامیابی نہیں ملی۔
امریکہ نے ۲۰۰۱ء میں افغانستان پر حملے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں استحکام لانے اور بھارت کی طرف سے پاکستان کی تشویش کو کم سے کم کرنے کی جتنی بھی کوششیں کی ہیں، اس سال کے آخر تک افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا ء کے ساتھ یقینایہ صورت حال بدل جائے گی کیونکہ امریکی انخلاء کے باوجوداس علاقے میں ایک نئی وارگیم کاآغازہوگاجس میں امریکایقینااہم کھلاڑی کاکرداراداکرنے کاخواہاں ہے فی الحا ل جہاں اس نے مودی کی حلف برداری میں اپنے کسی بھی نمائندے کوبھیجنے سے گریزکیاہے وہاں اگلے ڈیڑھ سال تک پاکستان سے چھیڑچھاڑسے گریزکااشارہ کیاگیاہے تاکہ امریکاکے مستقبل کے پلان کی کسی کوبھی بھنک نہ پڑسکے۔

«
»

ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

بھارت کا فارسی گو شاعر…مرزا عبدالقادر بیدلؔ ؔ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے