ایک کتاب جو بھارت کی کشمیر پالیسی سے پردہ اٹھاتی ہے

جب وہ لوگ کسی علاحدگی پسند لیڈر سے بات کرتے اور بہتر مراسم بنانے کی کوشش کرتے ، آئی ایس آئی اس کا قتل کرادیتی۔ اس طرح سے بھارت کے کئے دھرے پر پانی پھرجاتا۔انھوں نے مثال کے طور پر عبدالماجد ڈار اور عبدالغنی لون کے نام لئے ہیں جن کا قتل پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے کرادیا تھا۔ وہ جماعت اسلامی کشمیر کے علاحدگی پسند لیڈر سید علی گیلانی کے زندہ رہنے کو بھارت کی لبرل روایات کی کرامات مانتے ہیں۔ ان کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر گیلانی کا بھی اسی طرح قتل ہوجاتا جس طرح دوسرے لیڈروں کا ہوا تو وہ شہید گنے جاتے اور بھارت ایسا نہیں چاہتا تھا۔دُولت نے اپنی کتاب میں بہت سے انکشافات کئے ہیں اور بعض واقعات کا تجزیہ کیا ہے نیز تبصرے بھی کئے ہیں۔انھوں نے جہاں قندھار پلین ہائی جیکنگ معاملے میں کئی باتیں منکشف کی ہیں وہیں دوسری طرف انھوں نے یہ راز بھی کھولا ہے کہ حزب المجاہدین لیڈر سید صلاح الدین بھارت واپس آنا چاہتا ہے مگر سرکار کی سرد مہری کے سبب یہ ممکن نہیں ہوپایا۔انھوں نے حزب لیڈر سے رابطے کی بات بھی کہی ہے۔
فاروق عبداللہ نے دکھایاتھا حوصلہ
بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را ‘‘ کے سابق سربراہ دُولت کا کہنا ہے کہ 1999 میں انڈین ایئر لائنز کے طیارے 814 کو اغوا کرنے کے معاملے میں جموں و کشمیر کے اس وقت کے سی ایم فاروق عبداللہ دہشت گردوں کو رہا کرنے پر ناراض ہو گئے تھے۔ وہ دہشت گردوں کی رہائی نہیں چاہتے تھے اور اپنے عہدے سے استعفی دینے کو بھی تیار ہو گئے تھے۔دُولت نے اپنی کتاب میں یہ انکشاف کیا ہے۔اس میں انہوں نے لکھا کہ، دہشت گردوں کو رہا کرنے کے فیصلے پر فاروق عبداللہ بھڑک اٹھے۔وہ کبھی پرسکون ہوتے اور پھر تمتما اٹھتے، ایسا کئی بار ہوا۔ انہوں نے کہا دہلی (مرکز سرکار) کتنی کمزور ہے، یہ کتنی بڑی غلطی ہے؟ اس کے بعد انہوں نے جسونت سنگھ کو فون کیا اورکہا آپ جو بھی کررہے ہیں، غلط کر رہے ہیں۔ انہوں نے کئی اور لوگوں کو بھی دہلی میں فون کیا۔ وہ بار بار فون پر کہہ رہے تھے کہ میں اس کشمیری ساتھی کو جانے نہیں دوں گا، وہ قاتل ہے۔وہ آزاد نہیں ہو گا۔ وہ تین گھنٹے تک فون پر چلاتے رہے۔
گورنر نے فاروق عبداللہ کو منایا
انہوں نے مزید بتایا کہ، اس کے بعد فاروق عبداللہ اپنا استعفیٰ سونپنے گورنر کے پاس گئے اور گورنر سے کہا یہ لوگ دہشت گردوں کو چھوڑنا چاہتے ہیں اور میں نے ’’را‘‘ کے سربراہ سے کہہ دیا ہے کہ میں اس میں پارٹی نہیں بنوں گا۔ اس لئے میں استعفیٰ دینا چاہوں گا اور اس وجہ سے آپ کے پاس آیا ہوں۔تب گورنر گیری سکسینہ نے بات کو چالاکی سے سنبھالا اور انھیں استعفیٰ نہ دینے کے لئے راضی کیا۔گورنر نے سمجھا یاکہ اس معاملے میں دوسرا کوئی چارہ نہیں۔ اس پر دہلی میں بھی بحث ہوئی ہوگی۔ اس پر فاروق عبداللہ استعفیٰ دینے سے باز رہے۔
دولت نے لکھا کہ انہیں دو بار فاروق عبداللہ کا غصہ جھیلنا پڑا۔ اس سے پہلے 1989 میں مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ کی رہائی کے لئے پانچ دہشت گردوں کو چھوڑنے کے دوران، میں سری نگر میں ’را‘ کا ہیڈ تھا۔ اس کے بعد قندھار معاملے کے وقت ’’را‘‘ کا سربراہ تھا۔ دولت نے مانا کہ طیارہ اغوا معاملے میں حکومت سے نمٹنے میں گڑبڑی ہوئی۔ جب جہاز امرتسر میں اترا تو نہ مرکزی حکومت نے کچھ کیا اور نہ پنجاب حکومت نے ،اور جہاز اڑ گیا۔
امریکہ نے نہیں دیا بھارت کا ساتھ
دولت اس معاملے میں ایک اور انکشاف کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ، جب جہاز دبئی میں تھا تب بھارت نے ریڈ مارنے کاارادہ کیا لیکن مقامی حکام نے تعاون دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد امریکہ سے بات کی گئی اور کہا گیا کہ وہ متحدہ عرب امارات پر دباؤ ڈالے لیکن امریکہ نے انکار کر دیا۔ اس وجہ سے بھارت اس معاملے پر تنہا پڑ گیا۔ غور طلب ہے کہ دہشت گردوں نے 24 دسمبر 1999 کو کھٹمنڈو سے دہلی آ رہے پلین کو ہائی جیک کر لیا تھا۔ اس جہاز میں 176 مسافر سوار تھے جن میں سے 27 کو دبئی میں چھوڑ دیا گیا جبکہ ایک کو چاقو سے گودکر قتل کر دیاگیا تھا۔ مسافروں کی رہائی کے بدلے تین دہشت گردوں مسعود اظہر، مشتاق احمد زرگر اور احمد عمر سعید شیخ کو چھوڑنا پڑا تھا۔
حزب سربراہ کی گھرواپسی
دُولت نے ایک اور انکشاف کیا ہے کہ سید صلاح الدین بھارت لوٹنا چاہتا تھا اور اب بھی وہ واپس ہونا چاہتا ہے مگر بھارت اس کے لئے راستہ ہموار نہیں کررہا ہے۔انھوں نے ماضی کا ذکر چھیڑتے ہوئے کہا کہ بھارت کی حکومت نے حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کی واپسی کی منصوبہ بندی میں بہت وقت برباد کر دیا۔ دہشت گرد تنظیم کا سربراہ آج بھی ہندوستان لوٹنا چاہتا ہے۔دولت نے اپنی کتاب میں لکھا ہے، صلاح الدین 2001 تک واپس آنے کے لئے تیار تھا اور اس کے بارے میں ،میں نے اسے سینکڑوں بار سمجھایا تھا۔ ممکن ہے کہ میرے بعد ’’را ‘‘کے سربراہ وکرم سود کی دلچسپی دوسری باتوں میں رہی ہو۔دولت نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ صلاح الدین نے آئی بی کے سرینگر سربراہ کو فون کر اپنے بیٹے کو میڈیکل میں داخلہ دلانے کے لئے مدد مانگی تھی۔ یہ کام ہو جانے کے بعد صلاح الدین نے پھر سے فون کر شکریہ بھی کہا تھا۔
فاروق عبداللہ کو نائب صدر بنانا چاہتے تھے واجپائی؟
را کے سابق سربراہ اے ایس دُولت نے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ اور وزیر اعلی مفتی محمد سعید سے متعلق کئی اہم انکشافات کئے ہیں۔اپنی کتاب میں دُولت لکھتے ہیں کہ، واجپئی چاہتے تھے کہ فاروق عبداللہ مرکز میں نائب صدر کے عہدے پر کام کریں جبکہ جموں وکشمیر کی کمان عمر عبداللہ کو دی جائے۔لیکن بعد میں واجپئی اپنی بات سے مکر گئے۔ وہیں فاروق کو بھی اس بات کا علم تھا کہ دہلی ان پر کبھی بھروسہ نہیں کرے گی۔آگے دُولت نے ایک اور چونکانے والا انکشاف کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ، اس وقت کے وزیر اعلی فاروق عبداللہ نے حزب المجاہدین کے سربراہ کے بیٹے کو کشمیر کے ایک کالج میں داخلہ دلوانے کی سفارش کی تھی۔
الزام اور جواب الزام
سابق ’’را‘‘ چیف کی طرف سے کئے گئے انکشافات کے بعد کانگریس کو بی جے پی کے خلاف استعمال کرنے کے لئے ایک بڑا مسئلہ مل گیا ہے۔اسی درمیان واجپئی حکومت میں وزیر رہے یشونت سنہا نے دولت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے قندھار معاملے میں کوئی غلطی نہیں کی۔ ان حالات میں لیا گیا وہ فیصلہ بالکل درست تھا۔ سنہا نے کہا کہ فیصلے سے پہلے ہم نے تمام جماعتوں سے بات کی تھی۔سابق را چیف کے انکشافات کے بعد کانگریس نے بی جے پی کے خلاف الزامات کی جھڑی لگا دی ہے۔ کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی کے قول وفعل میں فرق ہے۔ وہیں اس معاملے پر بی جے پی نے کانگریس پر جوابی حملہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ بی جے پی نے کانگریس سے پوچھا ہے کہ کیا اس وقت اغوا طیارے کے مسافروں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاناچاہئے تھا؟کانگریس نے 1999 کی بی جے پی حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے دہشت گرد سیدصلاح الدین کے بیٹے کے علاج کے لئے ہسپتال میں میڈیکل سیٹ دستیاب کروائی۔اس دوران حکومت ہند اور پاکستان میں رہنے والے حزب المجاہدین کے آقا صلاح الدین سے حکومت مسلسل بات چیت بھی کرتی رہی۔اس سے ان کا دیش پریم جھلکتا ہے۔دُولت کے دعووں کے بعد بی جے پی بیک فٹ پر جاتی دکھائی دے رہی ہے۔کانگریس کے وار سے بچنے کے لئے بی جے پی کی طرف سے کہا گیا کہ اس وقت مسافروں کی محفوظ واپسی ہی این ڈی اے حکومت کی ترجیح تھی۔ادھر بی جے پی لیڈر ایم جے اکبر نے کانگریس سے پوچھا ہے کہ کیا اس وقت طیارے کے 400 مسافروں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا جانا چاہئے تھا؟انہوں نے اس بارے میں کانگریس سے جواب مانگا ہے۔اکبر نے کہا کہ اس فیصلے سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملاقاتوں کا دور چلا تھا اور فیصلے پر سب کی رضامندی کے بعد فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس کی معلومات تمام پارٹیوں کو تھی۔
دُولت کون ہیں؟
دولت سال 1999 سے سال 2000 تک ’را ‘کے چیف رہے۔’’را‘‘ ملک کی سب سے خاص خفیہ ایجنسی ہے۔’’ را‘‘ کے چیف کے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد انہیں حکومت نے وزیر اعظم کے دفتر میں مقرر کر دیا،جہاں پر سال 2001 سے لے کر مئی 2004 تک وہ رہے۔ وہ کشمیر معاملوں کے گہرے جانکار ہیں۔ وہ انڈین پولیس سروس (آئی پی ایس) کے افسر ہیں۔ وہ 1965 میں آئی پی ایس میں آئے۔ ان کا کیڈر راجستھان ہے۔راجستھان میں چند سال تک رہنے کے بعد وہ مرکزی پوسٹنگ میں آ گئے۔ انہیں خفیہ معاملات کاایکسپرٹ سمجھا جاتا ہے۔ وہ ہندوستان کے کھٹمنڈو میں واقع سفارت خانے میں 1976۔80 19کے درمیان رہے۔ وہ بنیادی طور پر پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ہسٹری میں ایم اے کیا۔ وہ آج کل بہت سی کمپنیوں کے بورڈ میں بھی ہیں۔

«
»

’سپر ہسپتال‘ بڑے ہونے کا مطلب اچھا ہونا نہیں

یعقوب میمن کو پھانسی!ہندوستان کا سوتیلاانصاف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے