ایک غزل اور ایک نظم

ڈوبنے سے جو بچا ہو کچھ وہی بتلائے گا 
کیسی راحت اْس نے پائی حلقۂ ساحل میں ہے 
قاتلِ سفاّک! خنجر ہی سے اپنے پوچھ لے 
جو کہانی قطرۂ خونِ دلِ بسمل میں ہے 
’’فیس بک‘‘اور ’’واٹس اپ ‘‘ ہی کا نتیجہ ہے کہ اب 
دشت خالی قیس سے تو لیلیٰ کب محمل میں ہے 
لفظوں میں اظہار خوشتر اس کا ممکن ہے کہاں 
لطف جو اک آبلہ پاکے لئے منزل میں ہے

 ایک نظم 

ستیہ پال آنند
دَمُ الاخوَین
(1965ء کی جنگ کا ایک شعری تاثر)

لہو کا رنگ کتنا سُرخ ہے، آؤ ذرا دیکھو
کہیں کالا نہیں، پیلا نہیں، بس لال ہے ….
ہاں، سرخ ، گہرا لال تھا پہلے تو، لیکن اب
کہیں گدلا بھی ہوتا جا رہا ہے آؤ، دیکھو تو!
مگر کس کا لہو ہے، کچھ ذرا پیچھے مڑو، دیکھو
لہو یہ کب سے بہتا آ رہا ہے حالیہ تاریخ کی رگ میں 
جو اک بد رو ہے، بدبو دار کھائی ہے !

محقّق ہوں، مورّخ ہوں، محرر ہوں
یہ سارے شیخی خورے جنگ کے رسیا
سبھی مقعر، محدب ، جھوٹے شیشوں سے
اسے جب دیکھتے ہیں، ان کو لگتا ہے 
لہویہ دشمنوں کا ہے !

غلط اظہار ہے ،یہ جھوٹ ہے، شاعر یہ کہتا ہے 
کہ ناحق خون جو آدھی صدی سے اس جگہ بہتا چلا آیا ہے
ہمارے بھائیوں کا ہے 
جو ہم خویشی میں اک دوجے کے اخوان و اقارب ہیں
اگر آدھی صدی پہلے…قرابت دار بھائیوں کا
لہوہم نے گرایا تھا، تو یہ تسلیم کر لینے میں آخر ہرج ہی کیا ہے!!

«
»

صلیب اورمذہب مسیحیت

سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام قرآن میں اور ان کی قربانیاں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے