عزائم کے اِن ہی بے پناہ طوفانوں کے درمیان مشاعروں کی دُنیا میں ہمارا داخلہ ہوا تھاا ور ہماری خوب پذیرائی ہونے لگی تھی۔یہ دنیا ہمارے لیے بالکل نئی تھی۔ہم نے دیکھا تھا کہ یہاں پہلے سے ہی کچھ سر پھرے مگر شریف النفس شہسوارانِ ادب، قلمکار و ادباء اپنے ہاتھوں میں قلم کی تلوار تھامے ہوئے جہادِ فکر و فن میں مصروف ہیں۔تھکے بغیر رکے بغیر ایک نا معلوم منزل کی سمت محوِ سفر ہیں۔ اُردو کی خدمت انجام دینے والے یہ مخلصینِ ادب اپنے بے مثال انہماک کے ذریعہ عوام کا دل موہ لینے کا مرحلہ طے کر چکے تھے۔ کیوں کہ اپنی زبان، اپنے ادب اوراپنی تہذیب کے لیے اِن کی والہانہ محبت نے اِن کی خدمات کے سر پر بے نفسی کا ایساتنویر آفریں تاج ررکھ دیا تھا کہ جسے جب بھی ہم جگمگاتا دیکھتے تومسرور ہو اُٹھتے۔یہ وہ زمانہ تھا جب ہم ہرمشاعرے کا دعوت نامہ قبول کر لیتے اور مشعل اُردو اُٹھائے دیوانہ وار بستی بستی شہر شہر گھومتے رہتے۔اِن شہروں میں گوکاک نامی ایک شہر بھی شامل ہے۔گوکاک، ضلع بلگام کا وہ شہر ہے جو بڑی پابندی کے ساتھ مشاعروں کے انعقاد کے سلسلے میں دور دور تک مشہوررہاہے۔ خدمتِ شعر و سخن کی یہ شمع ،ابوالکلام آزاد ہائی اسکول کے سخن پرور پرنسپل شرف الدین بیوپاری صاحب نے فروزاں کر رکھی تھی۔پچیس سال قبل بنگلور منتقلی کے بعد اب وہاں کی صورتحال کی کسی خبر کے ہم غریب الوطنوں تک پہنچنے کا معاملہ قدرے مشکل ثابت ہوتارہاہے، الا یہ کہ کسی بھولے بسرے ہم وطن سے اتفاقاً رابطہ پیدا ہو جاتا ہے توبرسبیل تذکرہ کسی مشاعرے کے انعقاد کا علم ہو ہی جاتا ہے۔دراصل ہم وطنوں سے دورہوجانے میں ہمارے نقلِ مکانی کا بھی بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔
اُس زمانے میں اپنے ایک مشاعرے میں محترم شرف الدین بیوپاری صاحب نے ہمیں بھی مدعو کر لیا تھا۔ہوٹل کے جس کمرے میں ہم قیام پذیرتھے،
اِتفاق سے وہا ں مذکورہ خصوصیات کی حامل ایسی ہی ایک دلنواز شخصیت ہماری ہم نشین بنی ہوئی ہماری توجہ کا مرکز بن کر رہ گئی تھی۔۔۔ ایک شریف النفس شہسوارِ ادب، فکر وفن کا جانباز مجاہد۔۔۔جو تھکے بغیر رکے بغیر اپنی منزل کی جستجو میں رہنے والا۔۔۔قرطاس وقلم سے وابستگی اور تخلیقی سرگرمیوں کے حوالے سے اپنے خلوص و محبت کو شانِ بے نیازی کے ساتھ شہر شہر بستی بستی بانٹنے والا۔۔۔جی ہاں! یہ شخصیت ظہیر الدین ظہیر رانی بنوری صاحب کی شخصیت تھی جو آج بھی اپنی منزلِ مقصود کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہے۔ ہم سے نہ جانے کتنے عرصے پہلے سے ظہیر بھائی مصروفِ شعر وسخن رہے تھے۔۔۔!!
یہ ایک حقیقت ہے کہ ظہیر الدین ظہیرؔ کی شخصیت ہمیں پہلی ہی نظر میں اِ س قدر بھا گئی تھی کہ محض دوستی نے ہی پینگیں نہیں بڑھائیں بلکہ دوست سے زیادہ اُن کا سرپرستانہ پیکر ہمارے لیے وجہِ کشش بن گیا۔ظاہر ہے کسی کی زندگی میں ایک سرپرست کا جو مقام ہوتا ہے وہ نہ صرف دوستی بلکہ رشتہ داری سے بھی کہیں زیادہ بلند ہوتا ہے۔دو دہوں تک شمالی کرناٹک کے تقریباً ہر مقام پر ہم ساتھ ساتھ مشاعرہ پڑھتے رہے اور ایک دوسرے سے فیض یاب ہوتے رہے،اورجب ہم بنگلور منتقل ہوئے تو ملاقاتوں کا سلسلہ اگرچہ کم ہوتا گیا لیکن ہماری رفاقتیں بعدِ مکانی سے متاثر نہ ہو سکیں ۔سچ پوچھا جائے تو مشاعروں میں ظہیر بھائی نے ہماری اِبتدائی شعری کاوشوں کو اپنی والہانہ دادو تحسین سے مہمیز عطا کی تھی اورہمیشہ ہماری پیٹھ تھپکی تھی۔ آج ہم جس مقام پر ہیں یہ ظہیر بھائی جیسے فراخ دل دوستوں کی بے لوث ہمت افزائیوں کی وجہ ہی سے ہیں۔کیا یہ حقیقت وجہِ حیرت نہیں کہ اِن کی ہمت افزائیوں کا سلسلہ۳۵ سال کی حدیں پھلانگ چکا ہے اوراُمیدِ قوی ہے کہ یہ تاحیات جاری رہے گا۔آج جب وہ اپنے شہر میں میرے اعزاز کی بات کرتے ہیں تو دراصل وہ اپنا ہی قد اور اونچا کردیتے ہیں اور ہم شرمندگی محسوس کرتے ہوئے یہ سوچنے لگتے ہیں کہ جو شخص خود اعزاز کا مستحق ہے وہ ہم جیسے ہیچمدانوں کے اعزاز کی بات کرتا ہے۔ کاش کہ اُردو کا بے حس ماحول اِس صورتِ حال پر تڑپ جائے اور ظہیر بھائی کی ادبی خدمات پر کم از کم ایک سمینار تو منقعد کر ہی لے اور اِس طرح اُن کا وہ قرض لوٹا دے جو اُردو دُنیا کی جانب سے واجب الادا ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ کوئی اِس جأت رندانہ پر کمربستہ ہو سکے گا۔ ظاہر ہے جہاں نفسی نفسی کا عالم ہو اورجہاں بازیگرانِ ادب کی اِس کے سوا کوئی مصروفیت نہ ہو کہ خودنمائی کو گلی گلی ، کوچہ کوچہ بے پردہ کرتے پھریں، کوئی کسی کی خدمات کو سراہنے کے لیے کیوں کر آگے بڑھ سکے گا۔
اِس طویل تمہید کو ہم اِس مضمون کی اصل قرار دیتے ہیں۔ظہیر بھائی کی شاعری اور فکر و فن پر تو خیر کوئی بھی لکھ لے گا، بہت کچھ لکھا بھی گیا ہے، ہم بھی کچھ نہ کچھ ضرور لکھیں گے۔لیکن کسی فنکار کی شخصیت کے نمایاں پہلوؤں کا تذکرہ اُس کے فکر و فن پر گفتگوسے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔کیونکہ کسی فنکار میں اخلاق و کردار ، دلنوازی و انسان دوستی کے روشن پہلو موجود ہی نہ ہوں تو ایسے کسی شاعر و فنکار کے مجرد کلام ہی پر اِظہار خیال کی خاطر ایک مضمون کی تخلیق کا وقت نکالنا ، میں سمجھتا ہوں وقت کا کوئی بہتر استعمال نہیں ہوگا۔ ہمارے آس پاس کئی باکمال شعراء موجو د ہیں، جن کی شاعری۔۔۔ تبصروں اور مضامین کی متقاضی رہتی ہے، اور خود شعراء کے تقاضے بھی ہوتے ہیں جو ہماری توجہ کو کسی نہ کسی طرح اپنی جانب مبذول کرا ہی لیتے ہیں،لیکن المیہ یہ ہے کہ اُن کی شاعری کی مثال فکر و فن کے لحاظ سے ایسی ہے جیسے کوئی بلند و بالا پربت ہو لیکن اِس کے مقابلے میں شاعرِ موصوف کا گھٹیا کردار اُسے ایک چھوٹے سے متعفن کیڑے کی مانندبنا دیتا ہے جو اپنی ہی شاعری کے اِس بلند و بالا پہاڑکی وادی کے کسی نا معلوم گوشے میں جیسے رینگ رہا ہوتا ہے۔گھر بڑا ہو تو ضروری نہیں کہ مکیں بھی بڑا ہی ہو۔بلند و عالیشان مکانوں میں ہم نے بہت چھوٹے لوگوں کو رہتے بستے دیکھا ہے اور جس گھرمیں داخلے کے وقت سر چوکھٹ سے ٹکرا جاتا ہے،وہاں ہم نے عظیم انسانوں کو مقیم دیکھا ہے۔ اِس منظر نامے میں بڑی مشکل سے کسی پر کچھ تحریر کرنے پر طبعیت آمادہ ہو پاتی ہے۔کیوں کہ انسانیت سے عاری کسی شاعر کی شعری کاوشوں پر کسی تبصرے یا مضمون کے لیے مغز ماری اِن کے کرادار کو مزید بگاڑنے کا ہی موجب بن سکتی ہے ۔جان بوجھ کر نہ جانے یہ جوکھم خود تبصرہ نگار کیوں اُٹھالیتے ہیں اور خود کو مجرم بنا کر کٹہرے میں کیوں کھڑے ہو جاتے ہیں۔!!۔۔۔اللہ ہمیں تبصرہ نگاری کی ایسی کسی مشق سے محفوظ رکھے۔
لیکن ہمیں ناز ہے کہ ہم نے آج ایک ایسے قلم کار، شاعرو ادیب پر قلم اُٹھایا ہے جو اولاً تو ایک بلند کردار انسان ہے،ثانیاً، مستقل مزاجی کے ساتھ پانچ دہوں سے جو مصروفِ شعر و سخن ہے اور گیسوئے اُردو کو نکھار رہا ہے سنوار رہا ہے۔اِ س Equationکو اُن کی زندگی میں ہم مستقلاًکارفرما دیکھتے ہیں اور یہی ہمارے اِس مضمون کا محرک بنا ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ ظہیرالدین ظہیر رانی بنوری پر قلم اُٹھاکرہم وہ آسودگی محسوس کرتے ہیں جوکسی تبصرہ نگارکو مطلوب ہوتی ہے ۔اِس مضمون کی تخلیق نے طبعیت میں جو خوش گواری پیدا کردی ہے اِس سے لگتا ہے جیسے ہمارے اپنے اندر کے تبصرہ نگارکو ایک عرصہ بعد سکون و قرار میسر آیا ہے۔آئیے ظہیر ؔ نامی سرتاپا انسانیت کے پیکر کے لیے اِس مخلصانہ خراجِ تحسین کے بعد اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قلم و قرطاس سے اُن کے رابطوں نے ادبی محاذ پر کیا کیا کچھ نتائج برآمد کیے، کیا کیا کچھ تخلیق کروایا اور اُنہوں نے ادبی معاشرت کی تشکیل و بقا میں کیسے کچھ عطیات پیش کیے۔
یہ ایک ھقیقت ہے اور تجربے نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ مشاعرے شاعروں کوکبھی ثبات و استحکام نہیں بخشتے۔ شاعر کے قدم تاریخ کی زمین پر اُسی وقت جم سکتے ہیں اوراستحکام حاصل کر سکتے ہیں، جب کاغذ پر وہ ٹہر جاتا ہے۔ اِس لحاظ سے ہم ظہیر بھائی کو فُل مارکس دیں گے۔کیوں کہ اُن کے نام کے ساتھ کئی کتابوں کے مصنف ہونے کا لاحقہ مستقلاً لگا رہے گا۔ کرناٹک اُردو اکیڈیمی نے اِن کی تین کتابیں شائع کیں۔’’کلیاں‘‘،’’گلاب‘‘ اور’’ گلستاں‘‘۔ یہ محاذ ادبِ اطفال کا تھا جس پر وہ اپنی دیگر شعری تخلیقات کے ساتھ سرگرمِ عمل رہے۔’’تین مٹھی چاول ‘‘اور’’ وقت کی آواز‘‘ ۔ ظہیر صاحب کی یہ دو کتابیں اُن کی غزلوں اور نظموں کے حوالے سے شاعری کا محاذ سنبھال لیتی ہیں، جن میں اب اُن کی ایک اور کتاب ’’قطعاتِ ظہیر‘‘ کے نام سے شامل ہو گئی ہے ۔ جیسا کہ نام سے ظاہرہے اِن میں ظہیر بھائی کے وہ قطعات شامل ہیں جو اُنہوں نے گزشتہ ۴۵ سالوں کے دوران مختلف حالات و واقعات سے متاثر ہو کر سپردِ قلم کیا۔جن میں مختلف ادوار کی واقعاتی سرسراہٹ صاف سنائی دیتی ہے۔اِ س کتاب میں کچھ دوہے بھی شامل ہیں۔ظہیربھائی چونکہ ساری زندگی درس و تدریس کے شعبے سے جڑے رہے، اِس لیے اُنہوں نے اپنے طلباء کی زبان کو درست کرنے کے لیے دو ایسی کتابوں کی تصنیف کا موقع نکالا جو کسی زبان دان ہی سے ممکن ہو سکتا تھا۔’’گرامر گائیڈ (انگریزی سے اُردو)‘‘ اور’’ گرامر گائید(انگریزی سے کنڑ)‘‘۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اُنہیں کنڑی زبان میں بھی یدِ طولےٰ حاصل رہا۔طلباء کے لیے اِن دو کتابوں کی تصنیف خود ہمارے لیے خوشگوار حیرت کا باعث بنی۔اِن دو کتابوں کے حوالے سے لسان و زبان دانی کی تاریخ میں اُن کا نام یاد رکھا جائے گا تو یہ کوئی تعجب کی بات متصور نہیں ہوگی۔
موصوف کی دو کتابوں’’ گلشنِ ظہیر‘‘ اور’’ قطعاتِ ظہیر‘‘کے مطالعے کے بعد ہمارا یہ احساس ہے کہ جس طرح ظہیر بھائی کی شخصیت کا خاص وصف اُن کی سادگی و منکسرالمزاجی ہے اِسی طرح نہ صرف اُن کی کتابیں سادگی کا مظہر ہیں، بلکہ اُن کی کتابوں کے نام بھی سادہ و پرکار ہیں۔ اُنہوں نے اپنی اِسی سادگی و سادہ بیانی سے سامعین کی بڑی تعداد کو متاثر کیا ہے۔اُنہوں نے زبان کے طے شدہ معیارات و مزاج سے کبھی کھلواڑ نہیں کیا۔ دور ازکار باتوں کوکبھی لسانی تراکیب سے بوجھل ہونے نہیں دیا۔ بات کہی توسچی، سیدھی اور صاف کہی۔ اِتنی صاف کے ایک معمولی آدمی تک اِس کی ترسیل ہو جائے۔ گلشنِ ظہیرکو میں محض بچوں کے لیے تخلیق کردہ کتاب نہیں سمجھتا بلکہ اِسے اُن کی شاعرانہ صلاحیتوں کی عکاسی کرنے والی کتاب قرار دیتا ہوں۔ اِسی طرح قطعاتِ ظہیر کو میں صرف عام قاری کی کتاب نہیں کہتا بلکہ اِس میں بچوں تک رسائی کے سارے امکانات کو موجود دیکھتا ہوں۔چوں کہ بچوں کے ادب کی تخلیق اُن کے مقاصدِ ادب کی ترجیحات میں اول نمبر پر رہی اِس حقیقت کے ساتھ کہ ادبِ اطفال کی تخلیق کا معاملہ کوئی کھیل نہیں ہوتا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اُن کی کتابوں میں اُسلوب و اِظہار کا فکری و لسانی پہلو ہمیشہ بچوں کی سطحِ فہم کی رعایت کے ساتھ ہی غالب رہانہ کہ اِس سے بے نیاز ہو کر۔ شاید اِسی لیے یا تو اِس سے بڑی عمر والے پہلے متاثر ہوجاتے ہیں پھر اپنے بچوں کو پڑھوانے کے لیے بے تاب ہو جاتے ہیں، یا اِس سے بچے پہلے متاثر ہوجاتے ہیں اور پھر اپنے بڑوں کو پڑھوانے کے لیے بے چین ہو اُٹھتے ہیں۔اِس تاثراتی مضمون کے اختتام پر ہم قطعات ظہیر سے چند پسندیدہ قطعات نذرِ قارئیں کرتے ہیں:
کیسے کیسے سپردِ خاک ہوئے کون باقی رہا ہے دُنیا میں
ہاں وہی مر کے بھی امر ہے جو کام اچھے کیا ہے دُنیامیں
*
دوستوں نے ہی کردیا رُسوا دوستوں کی بڑی عنایت ہے
اپنے حصہ میں کرب و غم آہیں کیا کہیں کیسی کیسی دولت ہے
*
ہر نگر ہر گلی ہے خطرے میں ہر جگہ زندگی ہے خطرے میں
فرقہ وارانہ جنگ ہے ہر سو ایکتا گھر گئی ہے خطرے میں
*
جب بھی ملتا ہوں دوستوں سے میں رنج و غم سارے بھول جاتا ہوں
میری پہچان گر کوئی پوچھے دوستوں کے پتے بتاتا ہوں
خدا کرے کہ ملت کا یہ وفا شعار فنکار اِسی طرح اپنی فنکاری کا جادو جگاتا رہے۔
جواب دیں