ایک دھوپ ساتھ گئی آفتا ب کے ۔ استادمحمد قطب (2)

 میرا شعور سید کی فکر کے ساتھ پروان چڑھتا رہا ، جب سیکنڈری کے مرحلہ میں پہنچا تو وہ اپنی فکری  جولان گاہوں میں مجھے شریک کرنے لگے ، اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کا موقعہ دیتے رہے ،  اس لئے ہماری فکر اور روح ایک دوسرے سے بڑی حد تک گھل مل گئے ، اس پر مزید برادرانہ رشتہ اور ایک ہی خاندان میں پلنے بڑھنے  کی وجہ سے قربت کے  موقعے ملنا  اور  ایک دوسرے کی بات سننا شامل ہے "

آپ نے اپنے آغاز شعور ہی سے اخوان المسلمین کی تحریک سے وابستگی اختیار کی  ، جس کی پاداش میں آپ مختلف اوقات میں سات سال تک قید بامشقت میں رہے ، ابتلاء اور امتحان  کے  ان دنوں نے  آپ کی زندگی اور فکر پر زبردست اثر چھوڑا ۔آل قطب کے مصر میں قید و ابتلا کے دن شاہی دور میں اس وقت شروع ہوئے تھے، جب آپ کے بڑے بھائی سید  قطب امریکہ میں ۱۹۴۹-۱۹۵۰ دوسال رہ کر واپس  لوٹے اور پھر صحافتی سیاسی معرکوں میں ڈوب گئے ، جن کے نتیجہ  میں ہمیشہ قید و بند سے گذرتے رہے ،، جب ضباط احرار کا  انقلاب جسے بعد میں جولائی ۱۹۵۲ کا انقلاب  کہا جانے لگا  اس کے لئے  اخوان المسلمین  نے شاہی حکومت کے خاتمہ کی تحریک چلائی تھی ، انقلاب کی کامیابی کے بعد نئے حکمرانوں نے اخوان سے منہ پھیر لیا  اور اس کے کارکنوں کو جیل کی کال کوٹھریوں میں بھیج دیا ، جہاں ان کے ساتھ ظلم اور درندگی کا ایسا کھیل رچا گیا  ، جس کی تفصیلات رونگٹے کھڑے کردیتی ہیں ، اس دوران جماعت کے کئی ایک قائدین کے حصے میں سزائے موت  لکھی گئی جن میں سید قطب بھی شامل تھے۔

محمد قطب نے جیل کی زندگی کا کڑوا پیالہ ۱۹۵۴ میں پہلی مرتبہ اپنے بھائی کے ساتھ چکھا ، جب انہیں جنگی جیل میں  اس طرح الگ رکھا گیا  کہ ایک دوسرے کے بارے میں جان نہ سکیں ، اس تجربہ کے بارے میں محمد قطب کہتے ہیں ” یہ اپنی زندگی کا اولین تجربہ تھا، جس میں سختی اور درشتی تھی ، میں کہ سکتا ہوں کہ اس نے میری زندگی کو مکمل تبدیل کردیا ۔ کچھ روز بعد آپ کو چھوڑ دیا گیا ، جب کہ سید پر ۱۵ سال کی جیل کا حکم سنا دیا گیا ، جیل کے یہی دن تھے جب سید کو اپنی تفسیر فی ظلا ل القرآن کو مکمل کرنے کی فرصت نصیب ہوئی ۔ اس وقت اپنے جیل سے آزاد ہونے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ” جس روز میں آزاد ہوا تو مجھے خاندان کا وہ بوجھ اٹھانا پڑا جسے ابتک میرے بھائی نے اپنے کاندھوں پر اٹھانے کا ہمیں عادی بنا دیا تھا ، تو آئندہ دس سال تک تنگیوں کے ڈھیر میں میں زندگی کے عملی تجربہ کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کے لئے نکل پڑا ،  پھر سید کو صحت کی ناسازی کو بہانہ بنا کر مئی ۱۹۶۴ میں جیل سے چھوڑ دیا گیا ۔.محمد قطب کہتے ہیں کہ سید کی اس آزادی سے ہمیں بہت تشویش ہوئی ،میرا دل بے چین تھا کہ سید قطب کا راستہ یوں ہی چھوڑا نہیں گیا ہے ، یہ جیل سے بڑے کسی شر کا سوچ رہے ہیں ۔ اور ایسا ہی ہوا جو ہم نے سوچ رکھا تھا ، جنگی جیل سے چھوٹے ایک سال کے اندر حالات دگر گوں ہونے لگے ، عبد الناصر نے ۱۹۶۵ میں قید وبند کا از سر نو آغاز کردیا ، دونوں بھائیوں کو دوبارہ جیل لوٹا دیا گیا ۔ اور پہلے  مرحلے کے بر عکس اس مرتبہ محمد قطبپر ۳۰ /جولائی ۱۹۶۵ سے ۱۷ /اکتوبر ۱۹۷۱ء تک چھ سال قید با مشقت کا حکم  سنادیا گیا ، جب کہ سید قطب کو اپنے چھ رفیق اخوانی قائدین کے ساتھ سزائے موت دی گئی، اور بڑی پھرتی سے پیر ۲۹ اگسٹ ۱۹۶۶ کو اس پر عمل در آمد کیا گیا ۔”

 اس دوران آل قطب کو شدید ترین مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا، محمد قطب کے بقول اس قتل گاہ میں آپ  کی بڑی بہن نفیسہ کا بیٹا  رفعت ٹارچر کے دوران قتل ہوا، آپ کی تینوں بہنیںنفيسة،أمينة اورحميدة  پابند سلاسل  ہوئیں، پھر چھوٹی کو ٹارچر کر کے دس سال بامشقت کا حکم  سنایا گیا ۔(امینہ  کے شوہر کمال السنانیری کو ۱۹۸۱ء میں جیل میں ٹارچر کرکے شہید کیا گیا )۔

محمد قطب نے سنہ ستر کے اوائل میں سعودیہ ہجرت کی، یہاں پر آپ کلیۃ الشریعہ مکہ مکرمہ  میں پڑھانے لگے جو کہ اس زمانے میں جامعۃ الملک عبد العزیز جدہ کے تابع تھی ، پھر جامعہ ام القری کے قیام کے بعد اس میں ضم ہوگئی،  ہجرت کے بعد پھر آپ نے دوبارہ اپنے مادر وطن میں  قدم نہیں رکھا ، حالانکہ  جب سعودیہ کی یونیورسٹیوں میں رٹائرڈ منٹ کے لئے ساٹھ سال کی عمر کی تحدید ہوئی اور آپ یونیورسٹی کی ملازمت سے سبکدوش ہوئے تب حکومت مصر نے آپ کے مصر لوٹنے کی خواہش کا اظہار کیا ، تب بھی آپ نے اپنی ہجرت کو ختم کرنا مناسب نہیں سمجھا ، یہاں تک کہ جنت المعلی میں آسودہ خاک ہوگئے ۔

سید قطب اپنے چھوٹے بھائی محمد سے بارہ سال بڑے تھے ، ان کی تحریروں میں ادبی چاشنی اور شدت جذبات   اور طاغوت کے ہاتھوں  شہادت نے آپ کو مقبولیت کی جن اونچائیوں تک پہنچایا  اس سطح تک آپ کے برادر خورد نہ پہنچ سکے ، لیکن اس کا  ہرگز یہ مطلب  نہیں کہ  اہل علم  کے یہاں اس سے آپ کی قدر و منزلت میں کوئی کمی آئی ہو، ان کو پڑھنے او ر ان کی فکر سمجھنے والوں نے ہمیشہ آپ کی فکر ، تجربے اور تجزئے کی بڑی قدر دانی کی ، ان میں ایک قابل قدر حلقہ ایسا  بھی ہے جو آپ  کی فکر کو زیادہ سلجھا ہوا ۔ جامع اور حقیقت حال سے قریب سمجھتا ہے ۔ ان بھائیوں کا فکری پس منظر جانے بغیر اس کی حقیقت سمجھنا شاید ممکن نہیں ہے ۔

اخوان المسلمین کا قیام شیخ حسن البناء کے ہاتھوں اسماعیلیہ میں سنہ ۱۹۲۸ ء میں عمل میں آیا تھا، بانی تحریک کی حیثیت ایک مفکر اور عالم دین سے زیادہ ایک مبلغ  ،مصلح اور داعی کی تھی ، لہذا یہ تحریک ابتدا میں اپنے بانی کےایک مختصر سے  "رسالۃ التعلیم "کے اطراف گھومتی رہی ،  اس وقت عالم عرب آتش فشاں کےدہانے پر تھا،  حالات دگر گوں تھے ۔ ۱۹۴۸ ء کی جنگ فلسطین کے بعد تو  حالات بد سے بد تر ہوگئے تھے ،جو شیخ حسن البناء کی ۱۹۴۹ میں شہادت پر منتج ہوئے ۔ لہذا جماعت کو اپنے علمی و فکری لٹریچر کی تیاری  پر توجہ دینے کا  بہتر  موقعہ نہیں مل سکا ۔

اسی دوران ۱۹۴۱ء   میں برصغیر میں جماعت اسلامی کی تحریک نے جنم لیا ، اس تحریک کی خوش قسمتی تھی کہ  بانی جماعت مولانا سید ابو الاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ  کا تیار کردہ فکری و علمی لٹریچر اس کی پشت پناہی کر رہا تھا،  ۱۹۴۷ ء میں جب مولانا مسعود عالم ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا سید ابو الاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ کےگیارہ اہم رسالوں کا ترجمہ کیا  اور پھر بذات خود  ۱۹۴۹ء میں عالم عرب کا سفر کرکے انہیں عرب دانشوروں تک  پہنچایا جس کی تفصیل” دیار عرب میں چند ماہ ” میں  دیکھی جاسکتی ہے ، یہ کتابیں بصرہ میں آپ کے میزبان  استاد عبد اللہ العقیل کے توسط سے مصر کے اخوانی حلقے تک پہنچیں  اور اسی وقت   شائع ہوکر اخوانی حلقے میں  پھیل کر بے حد مقبول ہوئیں ۔ ایک سال بعد ۱۹۵۰ میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین  مصر سے شائع ہوئی ، لیکن اس پر  استاد احمد امین کے روح سے خالی خشک دیباچے کی وجہ سے  اسے بر وقت وہ مقام نہیں مل سکا جس کی یہ کتاب مستحق تھی، ۱۹۵۱ء میں  حضرت مولانا  کا مشرق وسطی کا سفر ہوا ، جس میں آپ کی اخوانی شخصیات سے تعارف ہوا اور اس حلقہ میں خطابات ہوئے ، اس سفر میں سید قطب سے  بھی آپ کی ملاقات ہوئی ، جنہوں نے اس کتاب کا ایک جاندار مقدمہ لکھا ، جس کے بعد یہ کتاب عالم عرب میں مصنف کی پہچان بن گئی اور اخوان نے آپ کی تصنیفات نعمت غیر مترقبہ کی طرح اپنا لیا ۔

اخوان کی تاسیس کے پچیس سال بعد  ۱۹۵۳ ء میں سید قطب جب  اخوان میں  داخل ہوئے تو  اس کی فکر کی  علامت بن گئے  ، ابتلاء اور امتحان  اور پھر شہادت نے آپ کی مقبولیت کو بام عروج تک پہنچادیا ،لہذا   اس حلقے میں جتنی پذیرائی آپ کی کتابوں کو ملی وہ پہلے اور بعد میں کسی اور کو نہ مل سکی  ۔آپ کے سیرت نگار مصطفی خالدی کے مطابق ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ آپ کا جماعت میں داخلے سے قبل  بانی تحریک شیخ حسن البنا ء سے کوئی تعارف ہوا ہو یا  آپ کی کوئی تقریر سنی ہو، آپ جماعت سے اس وقت وابستہ ہوئے  جب ضباط احرار کے برپا کئے ہوئے انقلاب  ۱۹۵۲ء پر ایک سال گذر رہا تھا ، اس دوران انقلابیوں اور اخوان میں اختلافا ت پیدا ہوئے ، جو شدت اختیار کرتے چلے گئے ، انقلابیوں اور اخوان میں صلح صفائی کرنے کی سید قطب نے بہترے کوشش کی ،  اس میں مکمل  ناکامی کے بعد آپ خود اخوان میں شامل ہوگئے ۔

سید قطب پر مولانا مودودی کے فکری اثرات کو سب سے زیادہ مانا جاتا ہے ، خاص طور آپ کی کتاب”  قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں” کو ۔ (کتاب کے عربی مترجم سید محمد کاظم  صاحب ابھی چند روز قبل بہاولپور میں خاموشی سے اللہ کو پیارے ہوئے ) سید قطب پر مصری عدالت میں جو مقدمہ چلا اس میں اس کتاب کو خصوصیت سے کوڈ کیا گیا ہے۔

جماعت میں داخل ہونے سے قبل ۱۹۴۵ تک آپ کا شمار  مصری ادیب عباس محمود العقاد کے  غالی معتقدین اور ادبی معرکوں میں سپہ سالار کی حیثیت سے ہوتا تھا، التصویر الفنی فی القرآن اور "مشاہد القیامہ” کے بعد آپ کا قرآن اور اسلامی فکر سے تعلق بڑھنے لگا، یہاں تک کہ ۱۹۴۹ میں آپ کی کتاب العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام پہلی مرتبہ شائع ہوئی ،  سید قطب کی اس کتاب کو شہرت اور مقبولیت کے باوجود  اسلامی فکر کا مکمل آئنیہ دار نہیں کہا جاسکتا ، اس میں حضرت عثمان اور حضرت معاویۃ رضی اللہ عنہم کے بارے میں مصنف کا جو لب و  لہجہ  اپنایا  ہے اسے عقاد، طہ حسین، عبد الرحمن شرقاوی اور خالد احمد خالد سے قریب کہا جاسکتا ہے جو مصر پر فاطمی اسماعیلی سلطنت کے دیر پا  تہذیبی اثرات کا پرتو ہے ، کتاب کے اردو مترجم کے بقول مصنف نے باربار توجہ دلانے پر   صحابہ کرام کے بارے میں اپنی عبارتوں میں تھوڑی  سی تبدیلی کی ہے  ، لیکن ترمیم و تبدیلی کے بعد بھی  اس میں جو عبارتیں رہ گئی ہیں وہ صحابہ سے محبت کرنے والے  ایک ادنی  مسلمان کے دل پر اب بھی بہت بارمحسوس ہوتی ہیں(  واضح رہے کہ مولانا مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت  سید قطب کی کتاب کے بیس سال  اور شہادت کے دو سال بعد شائع ہوئی تھی  اور دونوں کتابوں کا موضوع مختلف ہے )  ۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ کے دور جوانی کے مجموعہ مضامین” مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش سوم ” اور اس کے پچیس سال بعد ۱۹۶۴ء میں سید قطب کی زندگی میں چھپنے والی آپ کی آخری اور مقبول ترین کتاب ” معالم فی الطریق ” کی  بہت ساری عبارتوں کا موازنہ کیا جائے تو  اپنے اسلوب اور زور بیانی میں کبھی کبھا ر  ان پر ترجمہ کا شک ہونے لگتا ہے ۔

جب سید قطب ۱۹۴۵ سے آہستہ آہستہ قرآن اور ٹھوس اسلامی فکر کی جانب  مڑنے لگے تو آپ سے  شاہی محل  نے خطرہ محسوس کیا  اور انہیں  طرح طرح سے  دق کیا جانے لگا ، اسی زمانے میں جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے عالم عرب پر اپنا ثقافتی اثرو رسوخ بڑھانا شروع کیا تھا، لہذ ثقافتی رشتوں کے فروغ کے لئے مصر سے  باصلاحیت  اور ابھرتے ہوئے افراد کو  ٹریننگ کے نام پر  امریکہ بھیجا  جانے لگا  ، اس وقت مصر کے وزیر اعظم  محمود فہمی نقراشی  کی کوششوں سے    جو کہ سید قطب کے دوست بھی تھے وفد  اور سعدی پارٹی میں ساتھ کام کیا تھا ، سید قطب ۱۹۴۸ میں ٹریننگ کے لئے  امریکہ  روانہ ہوئے ، جہاں آپ دو سال رہے ، اسی دوران  محمود نقراشی  کا قتل ہوا ، جس کا الزام اخوان پر لگایا گیا  اور انتقاما  

 ۲۲ فروری ۱۹۴۹ کو شیخ حسن البناء کی شہادت کا واقعہ پیش آیا ۔

سید قطب کو دو اسباب سے امریکہ میں دوران قیام اخوانی تحریک سے دلچسپی پیدا ہوئی، ایک تو   شیخ حسن البناء کی شہادت پر امریکہ میں ہونے والی خوشی اور جشن کا ماحول  ، دوسرے  سید قطب کو امریکہ جانے پر آمادہ کرنے والے  برطانوی جاسوس  جون ہیورٹ ڈن کی طرف سے ہونے والی برین  واشنگ اور اخوان کے خطرے سے انہیں آگاہ کرنے اور ڈرانے کے سبب ۔

ہمیں  سنہ اسی کی دہائی میں   شیخ حسن البناء اور سید قطب رحمۃ اللہ علیہم کے قریبی رفقاء  اور  ان سے  گھریلو تعلقات رکھنےوالی شخصیات سےملنے جلنے اور ساتھ کام کرنے کے مواقع فراہم  ہوئے ، ان حضرات میں سے کئی ایک کی رائے تھی کہ سید قطب نے اسلامی فکر کی طرف متوجہ ہونے کے بعد جب  مصطفی باب الحلبی کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت  فی ظلا ل القرآن کی تصنیف شروع کی تھی تو جیل جانے سے قبل تفسیر کے جو اجزاء آپ نے لکھے تھے ،وہ زیادہ معیاری ہیں ، ان میں سنجیدگی ہے ، لیکن جو اجزاء جیل میں لکھے گئے ہیں ان میں بے رحمانہ ٹارچر اورناقابل برداشت ابتلاء کی وجہ سے بہت جذباتیت آگئی ہے ، جیل کی تحریروں میں معاشروں کی تکفیر کا پہلو زیادہ حاوی ہوگیا ہے ، آپ کے شاگر د رشید و سیرت نگار ڈاکٹر یوسف العظم نے دار الحرب او ر دارالاسلام کے سلسلے میں اپنے استاد کے رویہ کو شدت سے محسوس کیا ہے  اور  اس سے اختلاف رائے  کرکے اس  کے منفی اثرات کم کرنے کی  کوشش کی ہے ۔   روایتی مذہنی تعلیم کی پشت پناہی کے بغیر  اس قسم کا الجھاؤ ایک  عام سی بات ہے ۔

اپنے بڑے بھائی کی شہادت کے بعد تقریبا نصف صدی تک اللہ نے استاد محمد قطب کو اس دنیا میں زندگی گذارنے کا موقعہ عنایت کیا ،وہ ۴۳ سال اپنے دارالھجرۃ مکہ مکرمہ میں مقیم رہے ، سعودی عرب کے طویل قیام کے دوران   یہاں پر امام محمد بن عبد الوہاب نجدی کی قیادت میں چلائی گئی عظیم اصلاح عقیدہ کی  عظیم تحریک کو قریب سے جاننے کا موقعہ ملا ،  یہاں پر روایتی مذہبی علمائے دین سے ان کی قربت بڑھی، انہیں سمجھنے کا موقعہ ملا ،لہذا جہاں آپ نے  اس تحریک کی دعوت توحید ، بدعت سے اجتناب اور کتاب و سنت کی مکمل اتباع کوزیادہ واضح طور پر قبول کیا ، وہیں آپ نے اس دعوت کے ایک اہم پہلو "ولاء و براء "اللہ کے لئے دوستی اور دشمنی اور دل و جان سے اس کے لئے اپنی صلاحتیں صرف کرکے دعوت کو گہرائی سے سمجھا،  یہی وجہ ہے کہ  محمد قطب کے فکر میں توحید ربانی  کو بنیادی مرکزیت حاصل رہی ، ان کی فکر میں افراط و تفریط کے وہ مظاہر نظر نہیں آئے جو ان سے پیشتر مفکرین میں پائے جاگئے  اور جو روایتی مذہبی حلقہ کو اسلامی تحریکات سے دور رکھنے میں خاصے اثر انداز ہوئے ،   آپ نے گزشتہ نصف صدی تک تحریک اسلامی کی علمی و فکری بنیاد مضبوط کرنے کے لئے  خاموشی سے بنیادی اور ٹھوس  کام انجام دیا ،  جس کی وجہ سے خلیجی ممالک میں آپ کی فکر  کو پڑھے لکھے افراد میں بڑی پذیرائی ملی ۔ آپ نے  ہجرت کی زندگی میں شخصیت سازی پر توجہ مرکوز کی ، ام القری یونیورسٹی مکہ مکرمہ میں رہ کر آپ  نے ڈاکٹریٹ کےمقالات کی سرپرستی اور رہنمائی کرکے شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کے مدرسہ فکر کو نئے فکری مسائل سے ہم آہنگ کیا ،  اور وسیع الفکر محققین اور اسکالروں اور مفکرین کی ایک ایسی کھیپ تیارکی جس کے بارے میں اس سے پہلے سوچا نہیں جاسکتا تھا ۔اس دوران آپ نے کئی ایک ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالات میں رہنمائی کی ۔ فکری تازگی اور علمی معیار میں انہیں اونچا مقام حاصل ہوگیا ، اگر حالات سازگار رہے تو انشاء اللہ آپ کی رہنمائی میں اپنا فکری و علمی ارتقاء کرنے والے یہی شاگرد آپ کی فکر کو زندہ وتابندہ رکھیں گے اور چراغ سے چراغ جلنے کے عمل کو جاری رکھیں گے ۔

(سلسلہ جاری ہے )

«
»

ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

بھارت کا فارسی گو شاعر…مرزا عبدالقادر بیدلؔ ؔ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے