ایک دھوپ ساتھ گئی آفتا ب کے ۔ استادمحمد قطب (۱)

جس کے بارے میں حضور اکرم ﷺ نے آگاہ کیا تھا کہ اسلام تنہا شروع ہوا تھا اور دوبارہ تنہائی کی طرف لوٹ جائے گا ،اپنے آغاز کی طرح  اس کی دوسری تنہائی بھی دور  کی جائے گی ، اس کی پہلی تنہائی کیسے زائل ہوئی ، وہ ان لوگوں کے وجود کی  وجہ سے زائل ہوئی جنہوں نے اسلام کا عملی نمونہ پیش کیا تھا "۔

دو سال قبل اپنے آخری انٹریو میں اپنی ستر  سال سے زیادہ فکری دعوتی زندگی کا نچوڑ پیش کرنے والے  عظیم داعی رہنما اور مفکر جسے دنیا شیخ محمد قطب کے نام سے جانتی تھی  ، عمر عزیز کی ۹۵ بہاریں اس دنیائے  فانی میں گذار کر۴/اپریل ۲۰۱۴ء کو جدہ کے انٹرنیشنل میڈیکل سنٹر میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے ،انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

محمد قطب جیسی شخصیتیں کبھی صدیوں میں جنم لیتی ہیں  اور جب اس دنیا سے اٹھ جاتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ  رات کے گھپ اندھیرے  میں  جلنے والے چراغ  اچانک گل ہوجائیں ، اس دنیا میں  ایک صدی  قریب اپنی زندگی کے  ماہ وسال گذارکر آخرت کی طرف رخت سفر باندھنا ایک طبعی عمر سمجھا جاتا ہے ، لیکن نہ جانے کیوں دل بار بار یہی کہتا ہے ، ان کی رہنمائی کی دنیا کو  پہلے سے زیادہ ضرورت تھی ، محمد قطب نے ابتلاء اور ہجرت کے مراحل سے گذر کر جس طرح بلال و خباب ، عمار  و یاسر کی زندگی کو تازہ کیا، بلکہ اس دوران جسمانی  اذیتوں کے ان مرحلوں سے بھی گذرے جو شاید دور جدید کے انسان نے خونخوار بھیڑیوں اور چیتوں کو  اپنی درندگی سے شرمانے کے لئے ایجاد کئے تھے ، اذیت کے ان نت نئے  طور طریقوں  تک  پہنچنا ابو جہل اور ابو لہب کو صحرائے عرب کی  بدویانہ زندگی میں محال تھا۔باوجود اس کے آپ نے  اپنے  فکر و عمل میں رد عمل یا ریکشن کا پرتو آنے نہیں دیا ، ہمیشہ اپنی دماغ کو ٹھنڈا ہی رکھا ، تدبر اور سنجیدگی کی ڈور کو اپنی سوچ سے باندھے رکھا ۔

محمد قطب نے  اپنی زندگی کے چوالیس سال ارض حرم میں ایک مہاجر کی حیثیت سے گذارے ، ۱۹۷۱ءمیں  جن لوگوں نے فرعون کی سرزمین سے  سولہ سال تک رونگٹے کھڑے کردینے والی اذیتوں سے  آزاد ہو  کرسعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں ہجرت کی تھی ، ان میں ڈاکٹر  ، اعلی  محققیں ، قانوان دان اور باصلاحیت مدرسین  تھے ، جنہوں نے اپنی صلاحیتوں سے ان ممالک کو مختلف میدانوں مین ترقی کی  راہ پر لانے  اور ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کرنے  لئے  مخلصانہ جدوجہد کی ، جہاں ان ممالک نے ان مظلوموں پر عزت کی زندگی گزانے کے مواقع فراہم کئے ، انہوں نے بھی پر خلوص انداز سے  ان ملکوں کی اٹھان کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ محمد قطب بھی انہی شہسواروں میں تھے ۔

محمد قطب نے آئندہ نسلوں کی رہنمائی کیلئے ابتلاء کی بھٹی میں تپتی ہوئی  زندگی کے تجربات اور فکر و تدبر کی روشنی میں  ملت  کی ترجیحات  اور ان کے حصول کے طریقہ کار قوانین و ضوابط پر سوچنے کے لیئے اپنی پوری زندگی صرف کی ،آپ نے اپنی تصنیفات کی شک میں  جو فکر چھوڑی  ہے اس میں علم وتدبر کی روشنی  اور تجربے  کی تپش کی آمیزش ہے ، جو رہتی دنیا تک  اسلام کی نشات ثانیہ کے لئے جد و جہد کرنے والوں کو  مشعل راہ بن کر راہ مستقیم دکھاتی رہے گی ۔

محمد قطب نے اسیوط کے قصبہ موشا  میں جو یہاں کے ایک بزرگ عبد الفتاح کی طرف بھی منسوب ہے   ۲۶ اپریل ۱۹۱۹ کو ایک کسان  قطب ابراہیم حسین شاذلی کے گھر آنکھیں کھولیں ،آپ کی والدہ فاطمہ حسین عثمان ایک دین دار خاتون تھیں ۔ یہ سال  اس ا انقلاب کے لئے بھی پہنچانا جاتا ہے ۔  جس نے عالم اسلام کے سینے پرقائم ظالم سامراج کو نکلنے پر مجبور کیا تھا ، اتفاق دیکھئے کہ آپنے  جب اس دنیا میں اپنی آنکھیںبند کیں تو ظالم ڈکٹیٹروں کی کرسیوں کی چولیں نئے انقلاب کے تھپیڑوں سے ہل رہی تھیں ۔

والد کے انتقال کے بعد آپ کی والدہ نے تعلیم کے لئے آپ کو  بڑے بھائی سید اور بہن امینہ اور حمیدہ کے ساتھ قاہرہ بھیجا ، جہاں آپ نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم پوری کرکے اپنے برادر بزرگ سید قطب کی خواہش پر قاہرۃ یونیورسٹی میں عربی کے بجائے  انگریزی ادب  میں داخلہ لیا اور  ۱۹۴۰ میں گریجویشن  مکمل کیا ، اسی سال آپ کی والدہ کا انتقال ہوا۔ پھر ٹیچر ٹریننگ کالج میں ایک سال پڑھ  کر ۱۹۴۱میں ٹیچر ٹریننگ اور نفسیات میں ڈبلومہپاس کیا  ۔

تعلیم کی تکمیل کے بعد  آپ نے  پانچ سال تدریس میں پھر چار سال وزارۃ معارف میں  ترجمہ کے شعبہ میں خدمات انجام دیں ، پھر دو سال  تدریس کے میدان میں کام کیا ، جس کے دار الکتب المصریہ کے ماتحت سستی قیمت میں ایک  ہزار کتابوں کی اشاعت کے ایک  پروجکٹ سے بھی وابستہ ہوئے۔

آپ کی تربیت پر اپنے دیندار والد جو کہ مجاہد آزادی مصطفی کامل کی الحزب الوطنی کے ممبر اور آپ کے اخبار اللواء کے پابند قاری بھی تھے  اور والدہ فاطمہ حسین عثمان کا جو اثر ہوسکتا ہے اس کا اندازہ  آپ کے بھائی سید قطب نے التصویر الفنی اور مشاہد القیامہ کا جو  پیش لفظ  لکحا ہے  اس سے  ہوسکتا ہے ، ان کے علاوہ  آپ کی شخصیت سازی میں  جن تین افراد کا گہرا ثر رہا  ان میں  آپ کے ماموں احمد حسین الموشی، بھائی سید  قطب اور مایہ ناز ادیب عباس محمود العقادشامل ہیں ۔جنہوں نے آپ میں ادبی ذوق ، مطالعہ کی لگن ، فکر  وتدبر  اور لکھنے کی لگن پیدا کی، اپنے شوق مطالعہ کے تعلق سے کبر سنی کے ایک لکچر میں کہتے ہیں کہ :

"آپ کے سامنے یہ اقرار کرنا چاہتا ہوں کہ میں اب ان پڑھ بن گیا ہوں ۔ نہ پڑھتا ہوں نہ لکھتا ہوں ۔ مجھے جوانی کے وہ دن  یاد  آتےہیں جب  میں گرمیوں میں چھٹیوں کے دن پڑھنے کے لئے مخصوص کرتا تھا اور جس  دن   کوئی  کتاب یا  بڑی کتاب کے ایک سو صفحے سے کم پڑھتا تو اس دن کو اپنی عمر کا ضائع شدہ  دن سمجھتا  تھا ، لیکن اب بہت سے اسباب اور مشغولیات کی بنا پر جن میں جامعہ ام القری کی مصروفیات بھی شامل ہیں نہ میں کچھ پڑھ سکتا ہوں نہ لکھ سکتا ہوں” ۔

(سلسلہ جاری ہے )

 

«
»

ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

بھارت کا فارسی گو شاعر…مرزا عبدالقادر بیدلؔ ؔ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے