ایک کالم حج کمیٹیوں کے نام

ملک کا کوئی آدمی ہمیں یہ اطمینان دلادے کہ وہ تین سو آدمیوں، جن میں خواتین بھی ہوں گی ان کے نام یاد رکھ سکتا ہے؟ اور اگر کوئی اس سے کہے کہ فلاں آدمی کو یا عورت کو بلا لاؤ تو وہ بلاکر لادے گا۔ حج کمیٹی نے سرکاری نیم سرکاری اداروں میں کام کرنے والوں سے درخواستیں طلب کی ہیں جن کی عمر 25 سے 50 سال کے درمیان ہو اور وہ پولیس، ہوم گارڈ، جنگلات یا ریونیو میں کام کرتا ہو۔ ریاستی حج کمیٹی کے چیئرمین اور وزیر اقلیتی بہبود گذشتہ تین برسوں سے مدارس کے اساتذہ، مساجد کے اماموں اور مؤذنوں کو خادم الحجاج کے طور پر بھیجنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس کی وجہ سے تین سال سے بغیر خادم کے عازمین کو حج کرنا پڑرہا ہے۔
ہمیں جس سال پاک پروردگار نے اپنے دربار میں بلایا اس سال خادم الحجاج بھی گئے تھے برسوں سے ہمارا بیٹا بیٹی اور داماد سعودی عرب میں ہیں ماشاء اللہ کئی کئی حج کرچکے تھے اس لئے معلم کی فیس تو جمع کردی لیکن ہم نے ان کی یا ان کے معاونوں کی صورت بھی نہیں دیکھی۔ حج کی تاریخ سے ایک ہفتہ پہلے ہمارے بیٹے نے اپنے ایک دوست کی اس بلڈنگ میں پہونچا دیا جو بالکل بیت اللہ کے سامنے تھی ایک کمرہ میں ہم اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ وہیں مقیم ہوگئے۔ ایک دن عصر کے بعد طواف سے فارغ ہوکر مصروف دعا تھے کہ سامنے ایک جانے پہچانے ریٹائرڈ ڈپٹی ایس پی لکھنؤ آکر کھڑے ہوگئے۔ ہم نے ہاتھ پکڑکر قریب بٹھا لیا۔ وہ بھی تسبیح پڑھنے میں مصروف ہوگئے نماز سے فارغ ہوکر ہم دونوں ساتھ ساتھ باہر آئے۔ اپنے کمرہ میں جو تالا تھا اس کی تین چابیاں تھیں ہم نے ایک ایک چابی بیوی اور بیٹی کو دے دی تھی اور کہہ دیا تھا کہ کوئی کسی کو تلاش نہ کرے نماز سے فارغ ہوکر سیدھا کمرے میں آجائے۔ ہم اپنے محترم کے ساتھ آگئے وہ دونوں ماں بیٹی حرم شریف میں ہی رہیں۔ پولیس افسر صاحب سے ہم نے حالات پر بات کی تو انہوں نے بتایا کہ میں خادم الحجاج کے کوٹہ سے آیا ہوں۔ ہم نے معلوم کیا کہ آپ لوگ کہاں رہتے ہیں اور کیا کیا خدمت کرتے ہیں؟ موصوف نے بڑے دُکھ بھرے انداز میں بتایا کہ سامان زبیر اسکندر کی گھڑی کی دُکان میں رکھا ہے رات کو انڈین ڈسپنسری میں جہاں جگہ ملی سوجاتے ہیں۔ رہی خدمت کی بات تو ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ہم کس کی خدمت کریں اور کیا خدمت کریں؟ موصوف بات کرتے جاتے تھے اور اس فقیر کے کمرے کو حسن طلب کی نظر سے دیکھتے جاتے تھے۔ شاید وہ یہ چاہ رہے تھے کہ میں ان کے اور اپنے تعلقات کا خیال کرتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ قیام کرنے کی دعوت دے دوں اتنے میں ہی میری اہلیہ اور بیٹی آگئیں وہ بھی ان سے واقف تھیں۔ ڈپٹی صاحب کے لئے چائے بنائی اور وہ پی کر چلے گئے۔
اترپردیش کے سب سے بڑے ذمہ دار باوقار وزیر محمد اعظم خاں صاحب زحمت فرماکر اُن حجاج کرام میں سے دس بیس کو بلاکر معلوم کریں کہ خادم الحجاج کے نہ ہونے سے انہیں کیا تکلیف ہوئی؟ کہا جارہا ہے کہ تین برس خادم نہیں جاسکے۔ اور ایسے بھی دس بیس کو بلاکر دریافت کرلیں کہ انہیں خادموں نے کیا راحت پہونچائی جو پہلے گئے تھے۔ ہماری مؤدبانہ درخواست ہے کہ پولیس ہوم گارڈ اور جنگلات کے رشوت خوروں اور حرام خوروں کو عوام کے پیسے سے مزید حرام خوری کرنے کے لئے نہ جانے دیں۔ مزید یہ کہ وہ صرف اپنا اور اپنے صاحب حیثیت دوستوں کا حال بتادیں کہ ان کے دولت کدہ میں کتنے افراد ہیں اور کتنے ملازم ان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں؟ اس کے بعد فیصلہ کریں کہ جو اپنے ملک سے اتنی دور دوسرے ملک میں گیا ہو جہاں کی گھڑی ڈھائی گھنٹے پیچھے ہے اور جہاں کی زبان صرف اور صرف عربی ہو جہاں کا کھانا بغیر مرچ و مسالے کا ہوتا ہے جہاں نہ ٹیمپو ہیں نہ تھری وہیلر نہ رکشہ اور جو ٹیکسیاں ہیں ان کے رنگ اور عام گاڑیوں کے رنگ میں نہ کوئی فرق۔ جہاں حج کے دنوں میں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی آبادی سے زیادہ عازمین حج تشریف لے آتے ہیں وہ ایک خادم تین سو حاجیوں کی کیا خدمت کرے گا؟
محترم اعظم خاں صاحب جب حج کے لئے تشریف لے گئے تھے تو یہ اعلان کرکے گئے تھے کہ وہ سرکاری وفد کے ممبر نہیں ہیں بلکہ ایک عام مسلمان کی طرح حج کریں گے۔ اس خبر سے ہمیں اس لئے بیحد خوشی ہوئی تھی کہ ہم جس سال مولا کے دربار میں گناہوں کی گٹھری سر پر رکھ کر گئے تھے۔ اسی سال اُترپردیش سے سرکاری وفد بھی گیا تھا۔ ہم حج کا فریضہ ادا کرکے مدینہ منورہ میں اپنے بچوں کے پاس مقیم تھے۔ مدینہ منورہ میں میرے بیٹے نے دو سعودیوں کی شرکت میں ایک پریس ’’مطبعۃ السلم‘‘ نام کا لگایا ہے۔ اوبرائے ہوٹل کا سارا کام وہیں چھپتا ہے۔ اس کے منیجر ایک کشمیری ہیں جو میرے بیٹے کے دوست ہوگئے ہیں۔ میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ معلوم کرو کہ وفد میں کون کون آیا ہے؟ اور کہاں قیام ہے؟ انہوں نے کہا بعد مغرب اوبرائے چلیں گے۔ وہاں صرف سعید صاحب مقیم تھے مگر کہیں گئے تھے محسنہ صاحبہ گرین پلیس میں مقیم تھی فون پر معلوم ہوا وہ بازار گئی ہیں۔ ہماری نظر کاؤنٹر پر گئی تو ایک صاحب جانے پہچانے لگے قریب سے دیکھا تو اپنے دوست خان غفران زاہدی تھے۔ ہمیں دیکھا تو لپٹ گئے میرے بیٹے شمعون نے ان کی مدد کی اور انہیں کمروں تک پہونچایا۔ ان کے ساتھ دو بہت ضعیف خواتین تھیں ایک ماں اور ایک ساس جو وہیل چیئر پر ہی چل سکتی تھیں۔
سامان سٹ کرانے کے بعد چائے منگوائی گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ میں اپنے اسٹاف کے ساتھ آیا ہوں۔ اور بیوی ماں اور ساس ان کا اسٹاف تھا۔ پروردگار مجھے معاف فرمائے اور میرے دوست زاہدی کو بھی۔ ہم دوسرے دن ان کی خیریت لینے آئے تو انہوں نے شمعون سے کہا کہ منیجر تمہارا دوست ہے اس سے کوئی ایسا کمرہ دلوا دو جہاں سے روضۂ اطہر نظر آتا رہے اس لئے کہ ماں اور ساس وہاں جانہیں سکتیں۔ کئی سال کے بعد میرے ایک دوست خواجہ رائق صاحب سرکاری وفد میں گئے یہ وہ سال تھا جب منیٰ کے خیموں میں آگ لگ گئی تھی اور سیکڑوں خیمے جل کر راکھ ہوگئے تھے۔ ان کے بخیر واپس آنے کی خبر ملی تو میں انہیں مبارکباد دینے اور آتشزدگی کی تفصیل معلوم کرنے کے لئے گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم تو خیموں سے دور پانچ ستارہ ہوٹل میں سو رہے تھے بہت بعد میں ہمیں ایسے ہی معلوم ہوا جیسے تم کو لکھنؤ میں معلوم ہوا۔ سنا ہے کہ یہ سرکاری وفد بھی صرف اسی لئے جاتا ہے کہ اترپردیش کے حجاج کو کوئی پریشانی ہو تو وفد کے سرکاری ذمہ دار اُن کی مدد فرمائیں۔ یہ سفید ہاتھی کیا کرتے ہیں؟ اور ڈھونڈے کہاں ملتے ہیں اسے وہ جانے یا وہ پروردگار جس کے دربار میں یہ تشریف لے جاتے ہیں۔ میرے تین بچے 30 برس سے مدینہ اور جدہ میں ہیں ایک بھتیجی ان سے بھی پہلے سے مکہ معظمہ میں اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔ اور یہ سب مستری یا مزدور نہیں ہیں بلکہ اپنا پریس ہے یا سرکاری اخبارات ’’سعودی گزٹ دار العقاظ‘‘ میں ذمہ دار عہدوں پر ہیں۔ ان میں کوئی ایسا نہیں ہے جن کا سامنا اپنی ریاست کے خادموں یا وزیروں سے ہوا ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر کوئی وزیر میرے بچوں کا نمبر لے کر گیا ہے تو وہ ان کی خدمت اور سعادت مندی کا کلمہ پڑھتا ہوا آیا ہے۔ اب اعظم خاں صاحب فیصلہ کریں کہ کیا وہ یہ ہاتھی گھوڑے بیچ کر ثواب کمائیں گے یا خدا نخواستہ گناہ؟

«
»

آج کی دنیا کے قارون

آر ایس ایس اور عیسائی دنیا آمنے سامنے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے