ورنہ چمن میں یا تو ننھے منھے بچے کھیلنے آتے ہیں یا پھر ننھے منھے بزرگ….. بقراط نے پوچھا کیا بزرگ بھی کھیلنے آتے ہیں؟…… فرمایا کچھ آنکھ مچولی کھیلتے ہیں، کچھ وقت گزارنے آتے ہیں …. کچھ گزرے وقت کو یاد کرنے آتے ہیں اور کچھ آنے والے وقت کو… الغرض ہر قسم کے بزرگ اور بچے آتے ہیں .. لیکن وہ جو دور بیٹھا لڑکا ہے … اس میں کچھ، بلکہ بہت کچھ عجیب لگتا ہے …. اس کی چال ڈھال، رنگ روپ، وضع قطع، سب کچھ نرالا ہے….. ہمیں اسے دیکھ دیکھ کر اکثر تشویش ہوتی ہے….. آپ اسے بلا کر لے آئیے.. اس سے بات کر کے دیکھتے ہیں کہ کہاں سے تعلق رکھتا ہے….. کون ہے، کس کا چراغ ہے جو تاریکی کا احساس دلانے نکلا ہے…. کس کا نور نظر ہے جسے نظر لگ گئی ہے….. کس کا لخت جگر ہے جو سینے کے با ہر آگیا ہے… خاندانی مفرور نظر آتا ہے … بقراط نے اس عجیب و غریب لڑکے کو بلا کر شیفتہ کے سامنے کھڑا کر دیا…
شیفتہ نے پہلے تو اسے اپنے قریب بلا کر سلام پیش کیا… اس کے سپاٹ چہرے پر کو ئی تاثر پیدا نہیں ہوا ….. پھر شیفتہ نے کچھ سوچ کر اسے گڈ ا یوننگ کہا تو اسکے چہرے پر چاند نکل آیا …گرچہ مغرب سے نکلا تھا.. لیکن کچھ تاریکی چھٹی …. کچھ روشنی نظر آ ئی… گدلا ئی ہوئی، مر جھا ئی ہو ئی ….. شیفتہ نے پوچھا صاحبزادے آپ کا نام کیا ہے … اس نے بقراط کی طرف دیکھا اور بقراط نے انگریزی جھا ڑی اور پوچھا… "یور نیم پلیز؟”…. اس نے کسی قدر تکبر اور بے نیازی سے کہا … ایلین.. ہم سب لمحہ بھر حیرت سے ایکدوسرے کا منہ تکنے لگے…شیفتہ نے ایک جھرجھری لی اور کہا …. کمبخت ایلین ہوکر بھی بھی مغرب زدہ لگتا ہے … اپنے نام کا مخفف بتا رہا ہے …تخفیف کی بھی ایک حد ہوتی ہے… کسی دن سمٹ کر نون پریا نقطہ پر نہ آجائے ….یہ کہتے ہوئے اسے جیب سے مٹھا ئی نکال کر پیش کی….. اس نے نفی میں گردن ہلا کر انکار کردیا… تشویش اور بھی بڑھ گئی اور اہل مغرب کی تحقیق صحیح سمت میں جا تی نظر آئی کہ ایلین منہ سے کچھ نہیں کھاتے….. شیفتہ نے شفقت سے اسے اپنے پاس بلایا …. اسکے تلخ رویہ کو دیکھ بقراط نے ہاتھ پکڑ کر آگے کردیا……… شیفتہ نے پہلے تو اسکے سر کے پیچھے بالوں میں کچھ تلاش کیا اور بقراط کی طرف دیکھا…. بقراط نے انکا اشارہ سمجھ کر تعجب سے پوچھا …کیا ! سینگ نہیں ہیں؟ ….. پھر شیفتہ نے اسکی آنکھوں میں جھانک کر کہا …نور اور شعاع کے آثار بھی نظر نہیں آتے….سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا ہوتا ہے…..پھر بقراط سے ماچس طلب کی اور ایک تیلی سلگا کر لڑکے کے سامنے لہرایا …….. لڑکے کے تاثرات میں کو ئی تبدیلی نہیں آئی……اور نہ ہی تیلی کی آگ میں….. ہاں اسکے اطوار مہذبانہ ہی رہے… اور اس نے کسی قسم کی بد سلوکی یا بد زبانی کا مظاہرہ نہیں کیا.. بلکہ ایک خود کار اور عدم نفسی کے مارے کسی روبوٹ کی طرح اپنے برتاؤ پر قائم رہا …… پھر شیفتہ نے پوچھا…صاحبزادے کس جماعت میں پڑھتے ہو؟ اسکے چہرے پر یکبارگی غصہ کی لہر آ ئی اور اس نے کہا… ہم لوگ جماعت میں نہیں پڑھتے… ہمیں اسکے ایلین ہونے پر پختہ یقین ہوگیا….. بقراط نے پوچھا اس جگہ کا کوئی نام تو ہوگا اور آپ کے یہاں کلاسیز بھی ہوتی ہوگی…. "کلاسیز کا لفظ سن کر اسکی آنکھوں میں تارے نظر آنے لگے…. اور اس کے چہرے کے افق کی نچلی سطح پر بجلی سی کوند گئی…. شیفتہ نے لڑکے کے تیور دیکھ کر بات کا رخ بدلا … پوچھا کیا آپ کے قبیلے کے لوگ سوچتے بھی ہیں؟ اور کیا خواب بھی دیکھتے ہیں.. کیا آپ لوگوں کو خواب نظر آتے ہیں؟ اس نے اثبات میں سر ہلایا.. شیفتہ نے پوچھا … کس زبان میں خواب میں دیکھتے ہو…. کہا، انگلش میں … ہمارایقین اور پختہ ہوگیا کہ اب تک جتنی بھی کہانیاں سنی اور دیکھی تھیں ایلین کو انگریزی زبان بولتے پایا تھا…. گرچہ بتایا یہی گیا تھا کہ وہ انگریزی کے علاوہ دنیا کی بہترین زبانوں پر عبور رکھتے ہیں … ہم نے سوچا کمبختوں کو ایک اردو زبان سے ہی بیر تھا … اگر اسکی اہمیت جان لیتے تو تہذیب کو صرف وضع قطع تک محدود نہیں رکھتے…. زبان و حسن بیاں تک بھی لے جاتے.. پھر انکے باطن کا نور ظاہر میں بھی نظر آتا.. سوچا، یہ تو ایلین ٹہرے…. اس میں ان بے چاروں کا کیا قصور…..ان کو یقینا پتہ ہوتا ہے کہ کرہ ارض پر انگریز کی حکومت ہے….. یہ بھی کمبخت ٹی وی نیوز ضرور دیکھتے ہونگے …. اور "جیسا دیکھو گے ویسا ہی پاوگے ” کے مصداق ان کی بھی ذہنی نشو نما ہوتی ہوگی….اس لئے ان کے نزدیک انسان ہونے کا مطلب انگریز ہوتا ہوگا…. اور اسی لئے اب تک سارے ایلین انگریزوں کے رابطہ میں ہی آئے ہیں…. انہیں ہی مارتے بھی ہیں اور انہیں پر مرتے بھی ہیں..ساری اڑن طشتریاں مغرب میں ہی ظہور میں آتی ہیں یا نازل ہوتی ہیں…… پتہ نہیں اس کی کیا سائینسی وجوہات ہوگی… کچھ تو ہوگی جو سائیسنداں جانتے ہونگے…
اچانک شیفتہ کی آواز سے ہم اپنے افکار کی دنیا سے واپس لوٹ آئے.. وہ ایلین ابھی شیفتہ کے سامنے بطور جنبش مکن کھڑا تھا… اور شیفتہ پوچھ رہے تھے… آپکے ماں باپ کا کیا نام ہے اور وہ کہاں رہتے ہیں؟….. یہ سنتے ہی ایلین نے بقراط کی طرف دیکھا…. ہمیں محسوس ہوا ایلین بقراط سے زیادہ مانوس لگ رہا ہے…… شیفتہ سے وہ آنکھیں چرا رہا تھا، اور بار بار اسکی نظر شیفتہ کی لمبی داڑھی کا طواف کر رہی تھی …. ہمیں پتہ نہیں کیوں خوف آرہا تھا کہ ان کمبخت ایلین کے دل و دماغ میں بھی داڑھی کے متعلق زہر بھر دیا گیا ہوگا…اردو ادب نے بھی کیا کیا گل کھلائے ہیں کہ چور اور چوری کو داڑھی سے جوڑ کر محاورہ بنا دیا، اور وہ بھی ایک تنکے کا سہارا لے کر…. اور وہ ایلین جس قدر خشمگیں ہو کر شیفتہ کی داڑھی کو گھور رہا تھا، ایسا محسوس ہورہا تھا ابھی اس کی آنکھ سے برقی شعلے نکلے اور ابھی شیفتہ جامہ سے غائب اور جامہ زمیں پر بکھرا پڑا دکھا ئی دیگا… ہم آنکھوں ہی آنکھوں میں شیفتہ کو منع بھی کررہے تھے کہ اس ایلین سے جان چھڑائیے.. لیکن شیفتہ جب کچھ ٹھان لیتے ہیں تو پھر نہ وہ کسی کو چھوڑتے ہیں اور نہ خود کو چھڑاتے ہیں … پھر چاہے کوئی ایلین ہی کیوں نہ ہو …. بقراط نے ایلین کو اپنی طرف دیکھتا دیکھ شیفتہ کا سوال دہرایا… تمھارے ڈیڈ اینڈ مام کا نام کیا ہے ؟ تمھارا ہوم اور کنٹری کہاں ہے؟…. ایلین نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا….. "ڈیڈ نے مام سے ” … شیفتہ نے لا حول پڑھا اور ہماری طرف دیکھا اور ہم نے بقراط کی طرف……بقراط نے کہا یہ انگریزی ہی بول رہا ہے …. نے اور سے کا کچھ مفہوم ضرور ہے….. اور پھر ایلین کی طرف سوالیہ نگاہ ڈالی…..اس نے بقراط کی طرف پھیکی مسکراہٹ پھینکی اور اپنی آستینوں کو ذرا سا جھٹک کر گویا ہوا….. اسے آستین جھٹکتے دیکھ ہمیں خوف آیا کہ کہیں اس کی آستین سے برقی سانپ نہ نکل آئیں…..وہ کہنے لگا ….. "کنٹری یو ..ہوم می”… شیفتہ نے فرمایا ….حضور ، بس اب اس سے آخری سوال پوچھ لیجیے کہ اس دور کرب بلکہ کرب کے دورے سے گزرنے کا اصل مقصد ہی اس سوال میں پوشیدہ ہے کہ …… اس کا دین و مذہب کیا ہے، اور اسکے تصور میں ایمان کی کیا کوئی شکل نمودار ہوتی ہے؟ …
جواب دیں