دُشمنوں نے نہیں دوستوں نے مارا ہے

وہی دھیان چند ہیں جن کے ہٹلر کی پیشکش کو ٹھکرانے اور اپنے وطن کی محبت ثابت کرنے کے انعام میں انہیں بھارت رتن دینے کی بار بار آوازیں اُٹھتی ہیں۔ ایک اور کھلاڑی بارہ بنکی کے بابو تھے جو آج بھی زبانوں پر ہیں۔ ملک کی تقسیم کے بعد جب پاکستان اولمپک میں ہندوستان سے ہاکی کا میچ جیت کر آیا تھا تو پاکستانی اخبارات کے پہلے پورے صفحہ پر ہاکی بنی ہوئی تھی اور اس میں پوری ٹیم کے نام لکھے ہوئے تھے یہ اس زمانہ کی باتیں ہیں جب یا انگریزوں کی حکومت تھی یا اُن کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد دونوں ملک غربت کا شکار تھے۔
آج دونوں ملک کے باشندوں میں اچھی خاصی تعداد اُن لوگوں کی ہے جو فارغ البال بھی ہیں، خوشحال بھی ہیں اور مالا مال بھی ہم اپنے بچپن میں ٹوٹی سائیکل کا پہیہ دوڑا دوڑاکر دل کی حسرت پوری کرلیتے تھے ہمارے بچے ایسے کھیل کھیلتے تھے اور ایسی سواری پر چلتے تھے جو اچھے گھروں میں رائج تھیں ہمارے پوتے اور نواسوں میں سے شاید کوئی پوری طرح جانتا بھی نہ ہو کہ کبڈی کیسے کھیلی جاتی ہے؟ گِلّی ڈنڈا کھیلنے میں کتنا مزہ آتا تھا اور کبڈی کیا ہوتی تھی؟ وہ ہم نے گیند بلاّ کھیلا یا ہاکی بیٹوں اور نواسوں نے کرکٹ کی حکومت میں آنکھیں کھولیں۔ آج حالت یہ ہے کہ کوئی بچہ کہیں بھی ہو اُسے اسکور کی خبر رہتی ہے۔ ہندوستان دنیا کے ہر ملک سے اس معاملہ میں سب سے آگے جاچکا ہے اس کے جوانوں کی زبان پر برسوں سے یہ ہے کہ کرکٹ ہمارا دھرم ہے اور سچن ہمارے بھگوان ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ نہ کسی دھرم گرو نے اُن بچوں کو یہ کہنے سے روکا اور نہ قومی لیڈروں نے جبکہ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ جب کبھی کہیں ورلڈ کپ یا ایشیا کپ یا آئی پی ایل شروع ہوتا ہے تو ملک کی گاڑی کا رہ رہ کر چکا جام ہوجاتا ہے۔ یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ کیا یہ ایسا ہی کارنامہ ہے کہ صرف کوارٹر فائنل جیتنے پر صدر اور وزیر اعظم ٹیم کو مبارکباد دیں؟ جس کا ہر سرکاری ملازم یہ مطلب لیتا ہے کہ یہ قومی کھیل ہے اور دن بھر اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے بجائے اگر وہ میچ دیکھتے رہتے ہیں تو کوئی غلط کام نہیں کررہے ہوتے؟
کون نہیں جانتا کہ کرکٹ انگریز لے کر آئے تھے انہوں نے ہی جہاں جہاں ان کی حکومت تھی وہاں اسے رائج کیا اور اسی نے ورلڈ کپ کی (شاید) بنیاد ڈالی اور یہ انتہا ہے کہ 1973 ء میں انگلینڈ میں ہی ورلڈ کپ ہورہا تھا جس کا فائنل ویسٹ انڈیز اور ہندوستان کے درمیان تھا جس میں ہندوستان جیتا تھا۔ اس استاذ کی یہ حالت ہے کہ وہ اس بنگلہ دیش کی ٹیم سے ہارکر اس سال گھر چلا گیا جس کا جنم 1972 ء میں ہوا تھا اور اس نے 1980 ء کے بعد بیٹ ہاتھ میں لیا تھا اسی ورلڈ کپ میں پاکستان ہندوستان سے ہارا تو بالکل ایسی ہی صورت حال تھی جیسی ہندوستان کے سامنے آسٹریلیا نے پیدا کردی تھی کہ ہندوستان نے ٹاس جیتا اور رنوں کا پہاڑ کھڑا کردیا پاکستان ہانپتے کانپتے چڑھا مگر چوٹی سے بہت نیچے ہی ڈھیر ہوگیا۔ اس خبر کے بعد ہمارے ملک کے ٹی وی چینلوں نے بار بار دکھایا کہ پاکستان میں لوگ سڑکوں پر آگئے ہیں اور ٹی وی سٹ توڑ رہے ہیں، نعرے لگارہے ہیں اور رو رہے ہیں۔
ہندوستان جب کوارٹر فائنل جیت کر آیا تو پورا ملک خوشی سے پاگل ہوگیا تھا کہ ان کی ٹیم نے پورا سفر بغیر ہارے کیا ہے اور اب کپ بس دو قدم دور ہے۔ ہماری ٹیم بیشک بہت اچھی ہے شاید اتنی متوازن ٹیم کبھی نہیں بنی تھی لیکن اسے بھی بدہضمی ہوگئی۔ دھونی کا یہ کہنا کہ وراٹ کوہلی گیدڑوں اور لومڑیوں کا شکار نہیں کرتے وہ شیر کے شکاری ہیں وہ سیمی اور فائنل میں جلوہ دکھائیں گے روہت شرما اور سریش رینا کو آسمان پر چڑھانا اور اپنے گیند اندازوں کے بارے میں کہ وہ بھارت کی تکڑی ہیں۔ اور سب سے زیادہ مجرمانہ کردار ملک کے ٹی وی چینلوں نے ادا کیا ہے کہ خبروں کے اوقات میں تین دن تک بمشکل دوچار خبریں باقی سارا وقت کہ ہماری ٹیم ایسے جیتے گی اور مخالف کو ایسے پٹخنی دے گی اور فلاں کھلاڑی سنچری بنائے گا فلاں 75 رن سے زیادہ بنائے گا سمیع چار وکٹ لے گا دوسرے دو دو وکٹ لیں گے۔ جنون کا یہ حال کہ ہر چینل اسٹوڈیو کے ایک کمرہ سے اُٹھ کر ملک کے لاخیروں کا مجمع لگائے میدان میں بیٹھا تھا اور ملک خانوں کی طرح ہوا میں تیر چلا رہا تھا۔ ان بے رحموں اور حرام خوروں اور ٹیم کے دُشمنوں نے ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ جیسے سب کچھ اُن کے اختیار میں ہے وہ جتنے رن بنانا چاہیں گے اتنے رن بنالیں گے اور جسے جب آؤٹ کرنا چاہیں گے آؤٹ کردیں گے رہی کپ کی بات تو ہمارا ہے بس ہم سے دو قدم دور رکھا ہے۔ اس سے بھی زیادہ مذہب کی توہین اس طرح کی گئی کہ ہر شہر میں جگہ جگہ ہون ہورہا تھا جیسے خدانخواستہ ہار گئے تو ملک منھ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا اور جب آسٹریلیا نے ٹاس جیتا تو ایک بہت بڑا طبقہ وہ تھا جس نے کہہ دیا کہ آدھا میچ تو آسٹریلیا نے جیت لیا۔ یہ ان لوگوں نے اس وقت کیوں نہیں کہا کہ جب ہندوستان نے ٹاس جیتا کہ آدھا میچ ٹاس سے جیت لیا۔ ٹاس تقدیر کا کھیل ہے اس میں مہارت نہیں چلتی اور اگر ٹاس کی اتنی ہی اہمیت ہے تو پھر کھلاڑیوں کی کارکردگی کا قصیدہ کیوں پڑھا جاتا ہے؟ اور اگر وہ پہاڑ کی چوٹی پر نہ پہونچ سکیں تو انہیں گالیاں کیوں دی جاتی ہیں؟
ہم ضروری خبریں سننے کے بعد اگر رویش کمار ہوں تو این ڈی ٹی وی انڈیا کا پرائم ٹائم دیکھتے ہیں اور دس بجے آج تک میں باجپئی کے جائزہ۔ 25 کی رات کو بھی دن بھر کی طرح ہر ٹی وی پر سیمی فائنل کا قبضہ تھا دس بجے آج تک لگایا تو پرانا گانا ۔ ’’کرچلے ہم فدا جان و تن ساتھیو* اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو۔‘‘ اسی کے ساتھ بیک گراؤنڈ میں اسلحہ سے لدے پھندے فوجی جوان آتے ہوئے دکھائے جارہے تھے۔ خیال آیا کہ شاید 1962 ء کے چینی حملہ کے بعد کے کچھ مناظر دکھانا چاہ رہے ہیں۔ گانا ختم ہوا تو کرکٹ کے کمانڈر انچیف دھونی دکھائے گئے اور پھر باجپئی صاحب نے ملک کا نقشہ دکھاکر بتایا کہ ملک میں کرکٹ کب آیا کہاں کہاں کیا کیا ہوا اور نہ جانے کیا کیا۔ ہم نے لاحول پڑھی اور لیٹ گئے۔ ایک مہینہ کے ایسے مناظر 125 کروڑ ہندوستانیوں کی اُمیدوں کا وزن سیکڑوں جگہ ہون کے ذریعہ بھگوانوں کو بھی اس میں شریک کرنا۔ ان سب کے بعد کون ہے جو امتحان ہال میں متوازن ذہن کے ساتھ پرچہ حل کرسکے؟ آسٹریلیا ایسی ٹیم تھی کہ پہلے دن ہی سے ملک کے دشمن کہے جانے والے پاکستان کے اور تجربہ کار کھلاڑی نے بھی یہ کہہ دیا تھا کہ ہندوستان آسانی سے جیت جائے گا اتنے بوجھ کے ساتھ ٹیم میدان میں اُتری جس کے سامنے 329 سیڑھیاں تھیں جہاں اُسے پہونچنا تھا کیا یہ ہمارا قصور نہیں ہے کہ ہم 125 کروڑ ہندوستانی اپنے صرف گیارہ لڑکوں کے کاندھوں پر سوار ہوکر انہیں پہاڑ عبور کرنے کے لئے کہیں پھر ان کی ناکامی پر اُن کے فوٹو جوتوں سے رگڑنے اور جذباتی پاکستانیوں کی طرح سڑکوں پر ٹی وی توڑنے لگیں جبکہ انہیں اپنے ٹی وی توڑنے کے بجائے ٹی وی چینلوں کے ذمہ داروں اور رپورٹروں پر لعنت بھیجنا چاہئے جنہوں نے ایسا ماحول بنا دیا جس سے وہ تمام کھلاڑی بھی دھونی، اُن کی بیگم اور جڈیجہ کی طرح سٹہ کے ملزم بن گئے۔ یہ کیسا ستم ہے کہ اگر ہارکر آؤگے تو ہم تمہیں ماریں گے تمہارا گھر توڑیں گے تمہارا منھ کالا کریں گے۔ اگر پوری دنیا میں یہی ہونے لگے تو کون ہے جو کرکٹ ٹیم میں آنے کے لئے لاکھوں کی رشوت دے گا اور ذمہ داروں کے جوتے چاٹے گا؟؟ ہم سب کو اپنے رویہ پر غور کرنا چاہئے اور جنوبی افریقہ اور برطانیہ سے ہار کا غم برداشت کرنا سیکھنا چاہئے کیونکہ کرکٹ اتفاق کا کھیل ہے۔

«
»

میں اسے کیا جواب دوں؟

صبر کرو ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے