دشمن کو بھی یہ غم نہ ملے

وگنان انجینئرنگ کالج کے تفریح اور صنعتی دورہ پر گئے ہوئے طلباء اور طالبات کی جس طرح سے اچانک موت ہوئی ہے اس پر چاہے کسی پر بھی الزام لگایا جائے ان کی موت کا وقت مقرر تھا بس بہانے کی ضرورت تھی۔ چوں کہ کہیں نہ کہیں لاپرواہی ہوئی ہے‘ کسی نہ کسی نے غفلت برتی ہے‘ اس لئے انہیں سزا تو بہرحال ملے گی مگر جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کبھی نہیں ہوسکتی ماں باپ بھائی بہنوں کو جو زخم لگے ہیں وہ کبھی مندمل نہیں ہوسکتے۔ وقت چاہے کتنا ہی گذر جائے یادیں ہمیشہ ستاتی رہتی ہیں اور وقتاً فوقتاً ان یادوں سے زخم پھر سے ہرے ہوجاتے ہیں۔ ہماچل پردیش کے دریائے بیاس میں اچانک پانی چھوڑے جانے کی وجہ سے یہ المناک سانحہ پیش آیا۔ ماضی میں بھی ایسے کئی سانحات ہوچکے ہیں۔ گذشتہ سال اترکھنڈ میں بھی اس سے کہیں زیادہ بدترین سانحہ میں ہزاروں افراد بشمول طلباء و طالبات اور سیاح لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ کبھی ٹرین حادثات تو کبھی چلتی بس میں آگ لگ جانے کے واقعات میں بھی سینکڑوں افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ہر حادثے کے بعد اظہار افسوس، مذمت ہوتا ہے۔ تحقیقات کا اعلان کیا جاتا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے پہلے اور کئی حادثات پیش آتے ہیں اور ہم اس میں الجھ جاتے ہیں۔ پچھلے سانحات کو بھول جاتے ہیں۔ ہاں! ہر حادثہ اُن لوگوں کے زخموں کو تازہ کردیتا ہے جن کے اپنے اُسی قسم کے حادثات کا شکار ہوئے ہوں۔
حیدرآبادی طلباء و طالبات کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے لئے ذمہ دار کون ہے؟ ہماچل پردیش کے وہ آفیسر اور انجینئرس جنہوں نے سائرن بجائے بغیر پانی چھوڑا تھا۔ یا کالج کے وہ ذمہ دار جن پر ان طلباء و طالبات پر نظر رکھنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ جو اِن بچوں کو تفریح کیلئے پہلے سے اُن مقامات سے متعلق معلومات حاصل کئے بغیر لے گئے تھے یا پھر والدین جنہوں نے اپنے بچوں کی خواہش اور ضد کی خاطر اپنے بچوں کو دور دراز مقامات جانے کی اجازت دی تھی یا پھر کالج انتظامیہ جو صنعتی دوروں کے نام پر طلبہ کو تفریحی مقامات لے جاتے ہیں اور بعض طلبہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس دورہ پر روانہ ہونے کے لئے مجبور ہوتے ہیں کیوں کہ انہیں یہ ڈر رہتا ہے کہ صنعتی دورہ پر نہ جانے سے کہیں انتظامیہ ان کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائے۔ اس المناک سانحہ کے بعد جواہر لال نہرو ٹکنالوجیکل یونیورسٹی نے مستقبل میں دور دراز کے علاقوں کے صنعتی دوروں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ کیوں کہ اکثر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ کالجس کے طلبہ تفریحات کے دوران حادثات کے شکار ہوتے ہیں چونکہ وہ عمر کے اُس دور میں ہوتے ہیں جہاں خطروں سے کھیلنا اپنے ساتھیوں سے مقابلہ صنف مخالف کو مرعوب کرنا بھی تفریح کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ اکثر و بیشتر طلبہ یا تو غرقاب ہوتے ہیں یا پھر کسی اور قسم کے سانحہ سے دوچار ہوتے ہیں۔ غرقابی کے مقابلے میں طلبہ اور نوجوانوں کی زیادہ تر ہلاکتیں ٹریفک حادثات میں ہوتی ہیں۔ تیز رفتار کے ساتھ بائک ریسنگ میں اَن گنت طلبہ و نوجوان لقمہ اجل بنتے ہیں۔ ہر سال یہ تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں موٹر سائیکل یا کار ریسنگ یا رئش ڈرائیونگ کی وجہ سے حادثات کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں یا پھر موت و حیات کی کشمکش میں زندگی کے کافی دن گذارتے ہیں تو اس کے لئے میری نظر میں ان کے والدین و سرپرست بھی بڑی حد تک ذمہ دار ہوتے ہیں۔ کیوں کہ وہ ان کی خواہشات کی تکمیل کی خاطر انہیں ان کی پسند کی گاڑی ٹو وہیلر یا فور وہیلر تو فراہم کردیتے ہیں مگرانہیں اس بات کا پابند نہیں کرتے کہ وہ اس کا احتیاط کے ساتھ استعمال کرے۔آئے دن حیدرآباد کے آوٹر رنگ روڈ پر یا حیدرآباد و وقارآباد شاہراہ پر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی حادثات میں ہلاکتوں کی خبر ملتی ہے۔ اولاد کسی کی بھی ہو اس کی موت پر ہر ماں باپ کا کلیجہ کانپ اٹھتا ہے۔ اگر ماں باپ اپنے بچوں کو پابند کریں کہ وہ اوسط رفتار سے ہی ٹو وہیلر یا فور وہیلر چلائیں دوسری صورت میں ان سے یہ سہولت چھین لی جائے گی تو بڑی حد تک اس کا اثر ہوسکتا ہے۔
آدھی رات کے بعد مختلف محلوں میں نوجوان ٹووہیلرس کو صرف ایک پہیہ پر چلاتے ہیں۔ ان کے چند ساتھی ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں مگر جو بھی یہ منظر دیکھتا ہے اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کیا ماں باپ اپنے بچوں کی ان سرگرمیوں سے واقف نہیں ہوتے یا جان بوجھ کر انجان بن جاتے ہیں۔ حال ہی میں دہلی کے ایک علاقہ میں رات کے آخری پہر موٹر سائیکلوں پر ایسے ہی کرتب دکھاتے ہوئے ہلڑ مچانے والے نوجوانوں پر ایک فوجی عہدیدار نے فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجہ میں ایک نوجوان برسر موقع ہلاک ہوگیا تھا۔ اس کی موت پر اہلیان محلہ نے افسوس تک ظاہر نہیں کیا کیوں کہ وہ اس قسم کی سرگرمیوں سے بیزار تھے۔ ٹیلیویژن چیانلس پر آئے دن نوجوانوں کے جوکھم بھرے واقعات دکھائے جاتے ہیں کہ کس طرح چلتی ٹرین سے لٹکتے ہوئے نوجوان، کنارے لگے ہوئے برقی کھمبوں کو چھوتے ہیں‘ تیز رفتار ٹرین سے کودتے ہیں اور پھر اس پر سوار ہوتے ہیں اس قسم کے واقعات میں بھی کئی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔
حادثات میں ہلاکتوں کا جہاں تک تعلق ہے دنیا کے ہر ملک میں یہی حالات ہیں یہ اور بات ہے کہ ہندوستان میں حادثاتی اموات کا تناسب بعض ترقی یافتہ ممالک سے کم ہے۔عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 1.2ملین افراد دنیا بھر میں ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوتے ہیں۔ ان میں سے 51فیصدکا تعلق ان ممالک سے ہوتا ہے جہاں کم عمر بچوں کو وہیکلس چلانے سے متعلق قانونی پابندی نہیں ہے۔اور 50فیصد ہلاکتیں اُن ممالک میں ہوتی ہیں جہاں کی سڑکوں کی حالت خستہ ہے۔ گذشتہ چار برس کے دوران حادثاتی اموات میں 1.6فیصد اضافہ ہوا ہے۔غیر طبعی اموات میں 10فیصد اضافہ ہوا ہے۔ غرقابی سے 8تا 9فیصد، آگ سے متعلق حادثات 7-8فیصد اضافہ ہوا ہے۔جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے سب سے زیادہ حادثاتی اموات چھتیس گڑھ (60.6فیصد)، مہاراشٹرا میں 53.9فیصد، مدھیہ پردیش 50.4فیصد، تاملناڈو46.5فیصد، کرناٹک 41.2فیصد، گجرات40.4فیصد، آندھراپردیش 35.8 فیصد اور راجستھان 30.6فیصد حادثاتی اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔ کثیر آبادی والی ریاستوں میں حادثاتی اموات کی شرح کم ہیں جیسے اترپردیش 15.1 اور مغربی بنگال 15.3فیصد قابل ذکر ہیں۔1971 سے 1980کے دوران ہندوستان میں 113952 حادثاتی اموات ہوئی تھیں۔ اور 2011سے تاحال لگ بھگ چار لاکھ انسانی جانیں حادثات کی نذر ہوئی ہیں۔ ان حادثات کے لئے بھلے کوئی بھی ذمہ دار کیوں نہ ہوں۔
ہلاکتیں اجتماعی ہوں یا انفرادی ہر ماں باپ کے لئے اپنی اولاد کی موت ، بیوی کے لئے شوہر کی موت اور اولاد کے لئے ماں باپ کی موت کا صدمہ اتنا ہی ہوتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اولاد کا غم سب سے بڑا غم ہوتا ہے۔انسان ہر غم بھلا سکتا ہے سوائے اولاد کے غم کو۔اس کے باوجود ماں باپ انجانے میں‘ غیر ارادی طور پر اپنی اولاد کو موت کی سوغات دیتے ہیں۔ کبھی ان کی ہر جائز و ناجائز خواہش کی تکمیل کے ذریعہ‘ کبھی ان کی صحت کو نظر انداز کرتے ہوئے حفظانِ صحت کے اصولوں کی پرواہ کئے بغیر ایسی خوراک بھی دینے لگتے ہیں جو ان کے لئے زہر سے کم نہیں۔ان کی نگہداشت میں لاپرواہی بھی بچوں کی تباہی اور بعض ا وقات بری عادتوں جیسے منشیات وغیرہ کے استعمال کے عادی بنانے کے ذمہ دار ہوجاتے ہیں جو اِن بچوں کی ان کی آنکھوں کے سامنے موت کاسبب بنتی ہیں۔ بہرحال موت برحق ہے‘ ہر حال میں آنی ہے۔ اس کے باوجود احتیاط لازم ہے۔ اور یہ ماں باپ کا فریضہ ہے۔

«
»

نیپالی زندہ بھگوان کماری جس کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے

کوئی جہاں میں اُردو کو مٹا نہیں سکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے