اور شری نریندر مودی کا یہ اعلان بھی انتخابی وعدہ ہے بالکل ایسا ہی جیسا جموں و کشمیر الیکشن سے پہلے مسلمانوں کے سری نگر کے ہر نقصان کو پورا کرنے کے لئے جموں و کشمیر سے کیا تھا مگر کہا وہاں بھی نہیں تھا کہ شرط یہ ہے کہ ہماری حکومت بنوادو اور کہا بہار میں بھی نہیں ہے کہ اگر ہماری حکومت بنوادو۔ لیکن دیا کشمیر کو بھی نہیں ہے اور دیا بہار کو بھی نہیں جائے گا۔ اگر زیادہ شور مچا تو امت شاہ یہ کہنے کے لئے موجود ہیں کہ ’’یہ بھی انتخابی جملہ تھا۔‘‘
بہار کے محترم اخبار ہمارے مضمون چھاپ کر ہماری حوصلہ افزائی کررہے ہیں اور انہیں پڑھ کر مختلف مقامات سے ہمیں حکم دیا جارہا ہے کہ بہار کے الیکشن کے موقع پر لکھو بھی اور ہوسکے تو خود بھی آؤ۔ ہم تحدیث نعمت کے طور پر لکھ رہے ہیں کہ انتخابی مہم چلانے کے ماہروں میں ہم بھی گنے جاتے تھے لیکن آج صحت کا یہ حال ہے کہ دل کی مدد کے لئے پیس میکر لگا ہوا ہے جو تیسرا ہے اور گھر میں واکر کے سہارے اپنی ضرورت کے لئے چل پھر لیتے ہیں کیونکہ ایک ٹانگ کی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہے جسے کوئی ڈاکٹر نہ جوڑ سکا۔ اگر اچھے ہوتے تو اس لئے آتے کہ اپنے بھائیوں کے سامنے پنا دل کھول کر رکھ سکیں اور بتا سکیں کہ اس ملک کے مسلمانوں کے اندر سے ہی ان کے دشمن ہمیشہ کھڑے کئے گئے ہیں اور آج بھی کھڑے کردیئے گئے ہیں۔
شمالی اور وسطی ہندوستان نے تو وہ زخم کھائے ہیں جو اُن کے عزیزوں کے لاہور اور کراچی جانے سے لگے اور بہار نے وہ زخم جھیلے ہیں جو مشرقی پاکستان جانے والوں کے بدترین حالات سے لگے۔ مغربی پاکستان میں آج بھی وہ سب جنہوں نے پاکستان بنوایا تھا مہاجر ہیں اور اُن کے ساتھ اس سے بھی زیادہ ہورہا ہے جتنا ہندوستان میں اُن کے برادران وطن کررہے ہیں اور بنگلہ دیش میں پھنس جانے والے بہاری بھائی جو کررہے ہیں اس کی تفصیل ہم سے کہیں زیادہ آپ کے پاس ہوگی۔ یہ وہی سازش تھی کہ مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو ووٹ دے اور آج بھی وہی سازش کی جارہی ہے کہ کوئی لیڈر اور کوئی مولوی صاحب میدان میں اتارے جارہے ہیں۔ اُن کی جیب نوٹوں سے بھردی گئی ہے اور انہیں یقین دلا دیا گیا ہے کہ تم جس لیڈر یا وزیر کو چاہو کتّا کہو چاہے گدھا کہو یا کوئی گالی دو تمہارے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ بس تم صرف اتنا کرو کہ مسلمان کا ووٹ مسلمان کو دلوادو۔
ہندوستان میں کیرالہ کے علاوہ کوئی ریاست ایسی نہیں ہے کہ جہاں 75 فیصدی مسلمان ایک ہی علاقے موپلستان میں ہوں اور تعلیم نے انہیں اتنا باشعور بنا دیا ہو کہ وہ ایسے فیصلے کریں جن کی بدولت 100 فیصدی مسلمان مسلم لیگ کو ہی ووٹ دیں۔ بہار، بنگال، اُترپردیش اور مدھیہ پردیش کے مسلمانوں میں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور کوئی نہیں جو اُنہیں بتاسکے کہ اگر بہار میں 50 مسلمان یا اُترپردیش میں 100 مسلمان اسمبلی کے ممبر ہوجائیں لیکن الگ الگ پارٹیوں کے ہوں تو ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ اُترپردیش میں 70 ایم ایل اے ہیں اور آٹھ مسلمان وزیر ہیں لیکن ہر مسلمان کو شکایت ہے کہ ان کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام بھی نہیں ہوپاتا۔ اُترپردیش میں بھی ایک مسلمان ڈاکٹر ہیں انہوں نے بھی اپنی ایک پارٹی بنا رکھی ہے۔ تین برس پہلے اُن کے تیور ایسے تھے کہ وہ خود وزیر علیٰ بننے والے تھے، ایک ہندو جنرل سکریٹری کو وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعلیٰ بنانے والے تھے اور 200 سیٹیں جیتنے کا یقین دلایا تھا۔ مسلمانوں نے عقل سے کام لیا۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کے دو ساتھی جیت گئے۔ جیسے دہلی میں بی جے پی کے تین جیت گئے ہیں۔
ہمارا کوئی تعلق نہ نتیش کمار سے ہے نہ لالو یادو سے نہ اور کسی پارٹی کے لیڈر سے اور اُترپردیش کے چند لیڈروں سے جو تعلق ہوا بھی کرتا تھا وہ اپنی خانہ قید جیسی زندگی سے نہ رہنے کے برابر ہوگیا ہے۔ ہم مسلمانوں کو ہندوستان میں بادشاہ گر نہیں سمجھنا چاہئے۔ پورا ہندوستان کانگریسی حکومت بنوا بنواکر بہت قیمت ادا کرچکا ہے خاص طور پر آخری کانگریسی وزیر اعلیٰ ستیندر نرائن سنہا کے زمانہ میں جب بھاگل پور تاراج کردیا گیا تب مسلمانوں کو عقل آئی اور انہوں نے جھاڑو سے کوڑے کی طرح کانگریس کو بہار سے نکالا اور لالو یادو کو 15 برس تک بادشاہ بنایا لیکن وہ بھی امیدوں پر کھرے نہیں اُترے تب نتیش کمار کو بہار کی قسمت سپرد کردی۔
یہ 2014 ء کا سال تھا جس میں مودی نے ہر ہندو کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور مسلمان پوری طرح کٹ گئے۔ اب مودی صاحب ہر جگہ اس نسخہ کو آزمانا چاہتے ہیں لیکن دہلی میں اروند کجریوال نے انہیں اتنا بڑا جھٹکا دیا ہے کہ وہ اب بہار میں اس کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دہلی میں بسے بہاریوں نے کجریوال کو بھرپور حمایت دے کر اپنا بنا لیا ہے اور اب دشمن کا دشمن دوست کے محاورہ کی سچی تصویر نظر آرہی ہے۔ ایک صحافی نے ہم سے معلوم کیا کہ سوا لاکھ کروڑ کے اعلان کا کیا یہ مطلب سمجھا جائے کہ مودی صاحب کو بہار میں دہلی کی پرچھائیں دکھائی دے رہی ہے؟ دوسرے دوست نے کہا کہ نتیش اور کجریوال کا ضرورت سے زیادہ قریب آنے سے اقتدار کے ماتھے پر پسینہ کیوں آرہا ہے؟ ہم نہ لالو کو امیرالمومنین کہہ رہے ہیں اور نہ نتیش کو خلیفۃ المسلمین۔ بات صرف یہ ہے کہ اسلامی شریعت کا ایک فیصلہ یہ ہے کہ اگر دو برائیوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا ہی پڑے تو چھوٹی برائی کو قبول کرلو۔ اب بی جے پی اور محاذ میں سے چھوٹی برائی کون ہے اس کا فیصلہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ بہار کی موجودہ حکومت کو دیکھ لیا جائے اور گجرات کی مودی حکومت کو دیکھ لیا جائے۔ اور اب بھی جو وہاں مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے اسے دیکھ لیا جائے۔
وہ تمام مسلمان جن میں ہم بھی شامل ہیں جنہوں نے پاکستان بننے کے بعد ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے ان کے متعلق مسلم لیگ کے بہت بڑے لیڈر سردار عبدالرب نشترؔ نے تقسیم کے بعد پاکستان جاتے وقت دہلی میں اپنی آخری پریس کانفرنس میں اس سوال کے جواب میں کہ وہ جو تین کروڑ مسلمان ہندوستان میں رہ گئے ہیں ان کا کیا ہوگا؟ نشتر نے کہا تھا مندر میں جائیں گے۔ دھوتی پہنیں گے تلک لگائیں گے جے رام جی کہیں گے۔ داڑھی منڈاکے چوٹی رکھائیں گے؟؟؟؟ تب بھی ہم نفع میں ہیں ہم نے چھ کروڑ مسلمانوں کا ایمان بچا لیا۔ آج ہم ہندوستانی مسلمانوں کو فخر ہے کہ پاکستان سے زیادہ دینداری اور اسلامیت ہندوستان میں ہے اور جو کوئی مسلمان پاکستان جاتا ہے وہ پاکستان پر لعنت بھیجتا ہوا واپس آتا ہے۔
اُترپردیش میں بدترین فساد مراد آباد اور میرٹھ میں ہوئے مراد آباد کے وقت ماں تھی اور میرٹھ کے وقت ان کا بیٹا۔ بہار میں جتنے بھی بھیانک فساد ہوئے سب کانگریس کی حکومت کے زمانہ میں ہوئے۔ ملائم سنگھ نے مسلمانوں کو کیا دیا کیا نہیں دیا یہ نہ دیکھ کر ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہم سے کیا لیا اور کیا نہیں لیا۔ مایاوتی کو بھی مسلمانوں نے بار بار موقع دیا لیکن ڈاکٹر طارق، خالد مجاہد، مرحوم یعقوب، نوشاد، ناصر وغیرہ وغیرہ سب مایاوتی کے زمانہ میں گرفتار ہوئے۔ ملائم سنگھ کے زمانہ میں چار کلو آر ڈی ایکس کے ساتھ کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ اسی پیمانے سے بہار کے بھائیوں کو ناپنا چاہئے اور اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ جو مسلمان کے ووٹ کسی مسلم پارٹی کو دینے کی بات کہے وہ ان کا دوست نہیں دشمن کا آلۂ کار ہے اور نہ مسلمانوں میں جعفر پیدا ہونا بند ہوئے ہیں اور نہ صادق۔ یہ اس وقت بھی پیسے سے پیدا ہوئے تھے اور اب بھی پیسہ ہی ان کا بیج ہے پیسہ ہی کھاد اور پیسہ ہی پانی۔ یہ الیکشن صرف نریندر مودی اور نتیش کمار کے درمیان نہیں ہے بلکہ دہلی کو چھوڑکر کجریوال کے آنے سے ثابت ہورہا ہے کہ بہار کے انقلابیوں اور مسلمانوں کے شعور اور اُن کی قوت فیصلہ کا امتحان بھی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جے پرکاش نرائن کا بہار آج بھی وہی ہے جو ملک کو آگے کا راستہ دکھائے گا اور بنگال ہو یا اُترپردیش سب اُس کی قیادت میں آگے بڑھیں گے۔
جواب دیں