دنیا تیرا جواب نہیں

  مظفر حسین غزالی

میڈیا اور اخبارات اور گزرے سال 2020میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا اس پر تجزیات پیش ہورہے ہیں۔ اور نئے سال 2021میں جو کھویا اور جن وجوہات سے سنگین مشکلات اور الجھنوں کا سامنا رہا ان سے راحت کیلئے نیا لائحہ عمل کیا ہو اس پر کئی نکات سامنے آرہے ہیں۔ ان سب میں ایک مشترکہ خیال یہ ہے کہ دنیا کے ممالک کے درمیان رنجشوں کا خاتمہ ہو اور باہمی یگانگت اور تعاون کو پھر سے بڑھاوا ملے تاکہ لوگوں کی خوشحالی کو یقینی بنایا جاسکے۔ بڑے اور طاقتورممالک دیگر ممالک پر اجارہ داری قائم کرنے کے زعم میں اب بھی مبتلا ہیں۔ کورونا ویکسین کی فراہمی کو تمام ممالک میں یکساں طور پر یقینی بنانے پر بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ دولت مند ممالک میں کورونا ویکسین کی تیاری اور فراہمی آسان لگنے لگی ہے۔مگر ترقی پذیر اورپسماندہ ممالک میں پریشانیاں اب بھی اپنی جگہ پرقائم ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دولتمند ممالک دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں داخل اندازی اور قیام امن کے نام پر مشکلیں پیدا کرنے کی بجائے کورونا ویکسین کی فراہمی اور تعاون دینے پر توجہ دیں۔ گزرے سال چین سنے اپنے ہمسایہ ممالک میں دخل اندازی کے باعث نئی مشکلیں پیدا کی ہیں۔ چین امریکہ سے سبقت لینے کے گھمنڈ میں اتراتانظر آرہا ہے۔ امریکہ میں نئی حکومت کے قیام کے بعد امید ظاہر کی جارہی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ امریکہ کی بگڑی عالمی ساکھ کو اپنی روشن خیالی اور فراخدلی سے ایک نئے دور کا آغاز ہو۔ یہ بھی اندازہ لگایا جارہا ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی ختم کرنے کی بھی کوششیں ہوں گی۔ نئے سال 2021ء میں گزشتہ سال کی ناکامیوں کا بھر پور جائزہ لینے پر بھی کئی ممالک میں کوششیں ہورہی ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی، قدرتی آفات او رمتعددی امراض سے نمٹنے کئی ممالک کی بے بسی اورناکارہ حکمت عملی نے اپنے عوام کو جان و مال سے محروم کیا ہوا ہے۔ غیر متوقع حالات اور اندیشوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیتوں سے لیس ہونے کا دعویٰ کرنے والے ممالک کو بھی گذرے سال اپنی حقیقت سے روبرو ہونے کا مرحلہ در 
 درپیش آیا اونٹ کو پہاڑ کے نیچے آکراپنے قد کا اندازہ ہوہی گیا۔
وطن عزیز ہندوستان میں کورونا وباء بھی آمد اور پھیلاؤ کے پہلے ہی ملک کی حالت پریشان کن تھی۔ گذرے سال مارچ سے دسمبرتک جس طرح کے حالات سے گذرنا پڑا، یہ ثابت کرگیا کہ ہماری حکمت عملی اور انتظامیہ کا طریقہ ئ کار عصری تقاضوں سے کسی بھی طرح مناسب اور ہم آہنگ نہیں ہے۔ جھوٹ کو سچ کے روپ میں پیش کرنے والے وزیر اعظم نے جملہ بازی، نعرے بازی اور چست تقریروں کو ہی کامیابی سمجھی ہے۔ تکثیریت کو فراموش کرکے ہندو قوم پرستی کو بڑھا وا دینے والی مرکزی حکومت نے ملک کے مسلمانوں اور پسماندہ طبقات میں رائج عدم اطمینان اور بے چینی کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی ہے۔ شاید ان کے نزدیک یہ کوئی سنجیدہ اور اہم مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اقتدار کی ہوس نے زعفرانیت سے شرابور ارباب اقتدار کو اپنے مقاصد کے حصول میں گھیر رکھا ہے۔ سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے کی بات صرف بات ہی رہ گئی ہے۔ ساتھ ساتھ چلنے کی باتیں کرنے والے ملک کے شہریوں میں نفاق پیدا کرنے اور مذہب کی بنیاد پر خلیج بڑھانے میں مصروف ہیں۔ بیماری اوردوائی کے نام پر بھی سیاست کرنے والوں کی سطحیت قابل مذمت ہے۔ اپنے آپ کو ’رشی راج‘ یعنی اچھائیوں سے معمور حکمران جس نے مذہب کو نوعِ انسانیت کی فلاح کا ذریعہ مانا ہے۔ ایسا ثابت کرنے میں لگے ہمارے مودی جی نہ جانے کب اپنے من کی آنکھیں کھول پائیں گے۔ پتہ نہیں من کی بات، کو دیش واسیوں کی بات سمجھنے والے ہمارے مودی جی تقریباً چالیس دنوں سے  اپنے مطالبات منوانے احتجاج کررہے کسانوں کی آواز کو آواز کب سمجھیں گے؟ عوام کے مفادات اپنے انفرادی مفاد سے عظیم تر ہوتے ہیں، یہ بات جب بھی حکومت سمجھنے لگے گی تب اچھے دن ضرور آئیں گے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

ویلما روڈولف: ایک معذور لڑکی جس نے تاریخ رقم کی!

2020: پوچھ اپنی تیغ ابرو سے ہماری سرگزشت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے