دنیا کے نادار اورپسماندہ طبقات کے مسیحا:نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم

ابو نصر فاروق،

    ساتویں صدی عیسوی میں دنیا اُس مقام پر کھڑی تھی جہاں سرمایہ داراور سماج کے اونچے لوگوں نے اپنے ہی جیسے پسماندہ،نادار اور محتاج لوگوں کو اپنا غلام اوراستعمال کے سامان اور جانور جیسا بنا رکھا تھا۔اُن کو غلام کا نام دے کر اُن کی خرید بکری ویسے ہی کی جاتی تھی جیسے بھیڑ بکری اور گھوڑے گدھے کی ہوتی ہے۔ان زر خرید غلاموں کو مالک کے سامنے کچھ بھی کہنے اور فریاد کرنے کا ذرا بھی حق نہیں تھا۔جس طرح جانور اور سامان فریاد نہیں کرتے ویسے ہی یہ کسی بھی ظلم و زیادتی کے خلاف فریاد نہیں کر سکتے تھے۔مردوں اور عورتوں دونوں کا ایک ہی حال تھا۔
    عرب میںبھی ایسے ہی حالات اور ماحول میں اللہ کے نبی رحمت مبعوث ہوئے اوراُنہوں نے اپنی قوم کو ایک ایسا کلام سنانا شروع کیا جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دے رہا تھا کہ :’’اللہ یقینا اُن سب کے کرتوت جانتا ہے چھپے ہوئے بھی اور کھلے ہوئے بھی،وہ اُن لوگوں کوہرگز پسندنہیں کرتا جو غرور نفس میں مبتلا ہوں۔‘‘(نحل:۲۳)تکبر،غرور اور گھمنڈ یہ ہے کہ کمزور ، ناداراور پسماندہ لوگوں کو حقیر اور ذلیل سمجھا جائے اور اُن کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جائے۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ سماج کے سرمایہ داروں اور اونچے لوگوں کے سلسلے میں اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہا ہے۔
    ’’واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اُس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔اُن میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا،اُس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اُس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا، فی الواقع وہ فسادی لوگوں میں سے تھا۔‘‘ (القصص:آیت ۴)مصر کا بادشاہ فرعون جو اپنی رعایا پر ظلم و زیادتی کرتا تھا اُس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ بتا رہا ہے کہ ایسا کرنا در اصل زمین پر فساد برپا کرنا ہے، جو اللہ کے نزدیک سنگین جرم ہے۔
    حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا: بیواؤں اور مسکینوں کی خبر گیری کرنے والا خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے کے  جیسا ہے اور میرے خیال میں آپ نے فرمایا اُس نمازی کے جیسا ہے جو تھکتا نہیں اور اُس روزہ دار کے جیسا ہے جو کبھی روزہ نہیں چھوڑتا ۔(بخاری، مسلم)
    عام طور پر دنیا کے مذہی لوگ عبادت اور نیکی سمجھ کر کچھ رسموں اوررواجوں کی پیروی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ عبادت گزار ہیں۔دور حاضر کے مسلمانوں نے بھی ایسا ہی سمجھ رکھا ہے کہ جو نمازی ہے اورتسبیح و دعا کا اہتمام کرتا ہے وہ نیک متقی اور عبادت گزار بندہ ہے۔سب جانتے ہیں کہ نمازی، تسبیح پڑھنے والا اور حج کرنے والا جہاد جیسی عبادت کا حقدار نہیں ہو سکتا ہے ، لیکن اوپر نقل کی گئی رسول اللہﷺ کی حدیث بتا رہی ہے کہ بیوہ ، مسکین کی دیکھ ریکھ کرنے والا جہاد جیسا عمل کر رہا ہے۔اسلام سماجی خدمت کو اعلیٰ عبادت کا درجہ دیتا ہے اور پسماندہ طبقات کا سب سے بڑا مسیحا ہے۔
    ’’ابن عمرؓ کہتے ہیں ، رسول اللہﷺ نے فرمایا :مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اُس کی مزدوری دے دو۔‘‘(ابن ماجہ)
    مزدور اور کامگار کتنی محنت سے خون کو پسینہ کی طرح بہا کرگرمی ، سردی اور برسات میں لوگوں کی خدمت کرتا ہے اور دولت مندوں کو محنت و مشقت سے بچا لیتا ہے۔دولت مند اور سرمایہ دار اونچے لوگوں کو ان کامگار اور مزدور لوگوں کا احسان مند ہو نا چاہئے لیکن سرمایہ دار اونچے لوگ ان محنت کشوں کو حقیر نگاہوں سے دیکھتے اور ذلیل سمجھتے ہیں۔ اسلام ان کا مسیحا ہے جو اپنے ماننے والوں سے کہتا ہے کہ مزدور کا پسینہ سوکھنے سے پہلے ہی اُس کی مزدووری دے دو۔کہا جاسکتا ہے کہ اسلام اصلی معنوں میںکامگار اور محنت کش لوگوں کا مسیحا ہے۔
    ’’ابوہریرہؓ کہتے ہیں ، رسول اللہﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تین قسم کے لوگ ہیں جن کے خلاف قیامت کے دن میری طرف سے مقدمہ دائر ہوگا۔ ایک وہ لوگ جنہوںنے میرے نام پر کوئی معاہدہ کیا پھر بلا کسی معقول وجہ کے اُسے توڑ ڈالا۔دوسرے وہ جو کسی شریف آدمی کا اغوا کریں پھر اُسے غلام بنا کربیچ دیں۔ تیسرے وہ جوکسی کو مزدوری پر لگائیں، اُس سے پورا کام لیںاور مزدوری نہ دیں۔‘‘(بخاری)
    سرمایہ دار اور اونچے طبقے کے اکثر لوگ اپنے ماتحت کام کرنے والوں کی محنت اور قربانی کا پورا حق ادا نہیں کرتے ،بلکہ اُن کی مزدور ی میں کٹوتی کر کے اُن کو اُن کے حق سے محروم کردیتے ہیں۔نبیﷺ فرما رہے ہیں کہ جو لوگ تین طرح کے لوگوں کی حق تلفی کریں گے یا اُن پر ظلم کریں گے اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کے خلاف اُن کمزوروں کی طرف سے خود اُن کی وکالت کر کے ظالموں کو سزا دے گا۔سوچئے،اللہ کمزوروں کا طرفدار بنے گا اور دولت مندوں اور طاقتوروں کا مخالف۔کیا یہ مقدمہ دولت مند اور بڑے لوگ جیت پائیں گے  ؟  اس فرمان رسولﷺکو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنا، شریف آدمی کو اغوا کر کے بیچ دینا اورمزدور کو پوری مزدوری نہیں دیناکتنا سنگین جرم ہے۔ اسلام پسماندہ طبقات، محنت کشواں اور کامگار لوگوں کی حفاظت کو جتنا یقینی بناتا ہے دنیا کا کوئی قانون ایسا نہیں کرتا ہے۔کیا آج کے مسلمان ایسے ہیں  ؟
    ’’سہلؓ بن سعد کہتے ہیں،رسول اللہﷺ نے فرمایا:میں اور یتیم کا سرپرست نیز دوسرے بے سہارا لوگوں کا سرپرست جنت میں پاس پاس رہیںگے۔ یہ کہہ کر آپ نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی لوگوں کو دکھا کر بتایا کہ میں اور یہ سرپرست جنت میں اتنے قریب (گویا پڑوسی بن کر ) رہیں گے۔دونوں انگلیوں کے بیچ میں ذرا سا فاصلہ رکھا۔‘‘(بخاری) جس کو رسول اللہ ﷺ سے محبت ہو گی کیا وہ کسی یتیم کا حق مارے گا  ؟
    یتیم اُس کو کہتے ہیں جس کا باپ نہ ہو۔ کسی بھی بچے کی بہترین پرورش اور اُس کے تمام حقوق ادا کرنے کی ذمہ داری باپ پر ہوتی ہے۔ جو بچہ یتیم ہو گیا وہ اپنے ان تمام حقوق سے محروم ہو گیا۔سماج کا ایسا شریف آدمی جو یتیم کی بے بسی اور بے کسی پر رحم کھا کراُ س کو سہارا دیتا ہے اور اُس کا سرپرست بن جاتا ہے اُس کو پیارے نبیﷺ خوش خبری دے رہے ہیں کہ وہ رسول اللہﷺ کا جنت میں پڑوسی ہوگا۔رسول اللہﷺ کو جنت کا سب سے اونچا درجہ عطا کیا جائے گا جس کا حقدار کوئی دوسرا فرد نہیں ہو سکتا ہے۔ مگر یتیم کا سرپرست اُس درجہ کا حقدار بن جائے گا۔اس فرمان رسولﷺ کو جاننے والا اورماننے والا کیا اس فراق میں نہیں رہے گاکہ اُسے کوئی یتیم ملے اور وہ ایسی اعلیٰ درجے کی نیکی کما سکے  ؟ نمازی اور حاجی تو بہت ہیں لیکن کیا ایسے مسلمان دکھائی دیتے ہیں جو یتیموں کے مسیحا بنیں  ؟   یتیم خانوں اور مدرسوں میں نادار بچے کس حال میں رہتے ہیں کوئی جاکر یہ تماشہ دیکھے!
    ’’ایک انصاری نے آں حضور  ﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا(مانگا)۔آپ  ﷺنے فرمایا تیرے گھر میںکچھ سامان ہے  ؟  انصاری نے جواب دیا،ایک کمبل ہے جس کا کچھ حصہ ہم بچھاتے ہیں اور کچھ حصہ ہم اوڑھتے ہیں، اور ایک پیالہ ہے جس سے ہم پانی پیتے ہیں۔نبی   ﷺ نے وہ دونوں چیزیں منگوا کر دو درہم میں نیلام کر دیں۔آپ   ﷺنے دونوں درہم انصاری کو دیتے ہوئے فرمایا ایک درہم کا کھانا اور دوسرے درہم کی کلہاڑی خرید لو،اور کلہاڑی لے کر میرے پاس آؤ۔رسول اللہ  ﷺنے اپنے دست مبارک سے کلہاڑی میں لکڑی ڈالی اور فرمایا جاؤ جنگل میںجا کر لکڑیاں کاٹو اور پندرہ دن سے پہلے میرے پاس نہ آنا۔وہ انصاری اسی طرح لکڑیاں کاٹتا اور بیچتا رہا۔اور جب وہ پندرہ دن کے بعد آں حضور   ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تواُس کے پاس دس درہم کی پونجی تھی جس سے اُس نے کھانااور کپڑا خریدرکھاتھا۔آپ  ﷺنے فرمایایہ(محنت کا طریقہ) تمہارے لئے اس بات سے بہتر ہے کہ سوال( کی ذلت) قیامت کے دن چہرے پر داغ دھبے کی صورت میں نمودار ہو۔‘‘(انتخاب حدیث:ص:۱۳۳)
    محتاج ، مجبور، بھیک مانگنے والے سے کسی کو کب ہمدردی ہوتی ہے ؟ لیکن نبیﷺ نے ایسے فرد کو بے سہارا چھوڑ نہیں دیا بلکہ اُس کے لیے اپنے ہاتھوں سے کلہاڑھی بنا کر دی،محنت و مشقت سے حلال روزی کمانے کا درس دیا اور وہ آدمی تھوڑے ہی دنوں میں بھکاری سے مالدار بن گیا۔نبیﷺ کی اس مثال کو اگر آج کے مسلمان اپنے لئے نمونہ بنالیں اور تمام بھیک مانگنے والوں کو کسی نہ کسی کام سے لگادیں تو کیا مسلمانوں میں بھیک مانگنے والے رہیں گے  ؟ اور نقاب اوڑھ کر پٹنہ کی سڑکوں پر ہر جمعرات کو بھیک مانگنے والی عورتیں مسلمانوں کی بے حسی اور بے شرمی کا تعارف کرائیں گی  ؟
     حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اُنھوں نے فرمایا: یہ آیت ہم چھ افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے: میرے بارے میں،  عبداللہ بن مسعود، صہیب، عمار، مقداد اور بلال رضی اللہ عنہم کے بارے میں۔ اُنھوں نے فرمایا: قریش(کے سرداروں) نے رسول اللہﷺ سے کہا: ہم ان (غریب افراد) سے کم تر نہیں بننا چاہتے، لہٰذا انھیں اپنے پاس سے ہٹا دیجیے۔ اس بات سے رسول اللہ ﷺکے دل میں اللہ کی مشیت سے کوئی خیال آیا تو اللہ تعالی نے یہ  آیت نازل فرما دی:   ’’ان لوگوں کو اپنے پاس سے مت ہٹایئے جو صبح و شام اپنے رب کو اُس کی رضا کے حصول کے لیے پکارتے ہیں۔‘‘( ابن ماجہ:۴۱۲۸)
    ’’مصعب بن سعدؓ سے روایت ہے ، انہوں نے کہاسعدؓ نے خیال کیا کہ اُسے اپنے سے کمتر لوگوں پر برتری حاصل ہے(اس بات پر) آںحضور ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں ضعیفوں اور کمزوروں کی وجہ سے ہی خدا کی طرف سے مدد اور روزی میسر ہوتی ہے۔‘‘(بخاری)
    جب نبیﷺ کے لئے قرآن کا حکم آ گیا کہ پسماندہ لوگوں کو اپنے پاس سے دور مت کیجئے تو کیا موجودہ مسلمانوںکو یہ حق ہے کہ وہ سماسج کے نادار اور پسماندہ لوگوں کو ذلیل نگاہوں سے دیکھیں ، اُن کا اپنے گھروں میں اور اپنی محفلوں میں آنے جانے پر ناراض ہوں،گھر میں کام کرنے والے ملازموں کے ساتھ ناروا سلوک کریںاور اُنہیں نیچی نظر سے دیکھیں۔جو ایسا کرتے ہیں وہ اللہ کو اور اللہ کے رسولﷺ کو ناراض کرتے ہیں۔ ایسے بدنصیب لوگ اللہ کی رحمت اور نبیﷺ کی شفاعت کے حقدار کیسے بن سکتے ہیں  ؟ اورکیا مسلمانوں کے تمام اونچے لوگوں کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ پسماندہ  مسلمانوں کی مدد کر کے اُنہیں اس پستی کی لعنت سے بچائیں اور سماج میں اُن کے لئے بھی عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع مہیا کریں  ؟
    ایک بار حضورﷺکچھ ضرورت سے بازار جارہے تھے،آپﷺکے پاس صرف آٹھ درہم تھے۔راستے میں آپﷺنے دیکھا کہ ایک عورت بیٹھی رو رہی ہے،آپﷺکو بہت ترس آ یا۔اُس کے پاس گئے اور پوچھا،بڑی بی کیا بات ہے،کیوں رو رہی ہو  ؟ اُس نے کہا گھر والوں نے دو درہم دے کر سودا لینے کے لیے بھیجا تھا،درہم راستے میں کہیں گر گئے،اب وہ کیا خیال کریں گی!یہ کہہ کر بڑھیا پھر رونے لگی۔آپﷺنے دو درہم نکال کر بڑھیا کے ہاتھ پر رکھے اور اُس کو تسلی دیتے ہوئے آگے بڑھ گئے اور بازار سے دو درہم میں ایک قمیص خرید کر واپس ہو رہے تھے تو دیکھا کہ وہ بڑھیااب بھی وہیں بیٹھی رو رہی ہے۔ آپﷺنے دریافت فرمایابڑی بی ! اب کیا بات ہے ؟  اُس نے کہا یا رسول اللہﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان،میں آپﷺکو کہاں تک تکلیف دوں۔گھر سے نکلے کافی دیر ہو گئی ہے،گھر والیاں انتظار کر رہی ہوں گی،اتنی دیر میں پہنچوں گی تو برا بھلا کہیں گی اور سزا دیں گی۔بڑھیا کی بات آپﷺنے بڑے دھیان سے سنی اور تشفی دیتے ہوئے فرمایا: اچھا چلو گھر چلو !بڑھیا چلی اور اُس معمولی بڑھیا کے پیچھے پوری دنیائے انسانیت کے سردار،رحمت عالمﷺ اُس کے گھر تک گئے ۔ تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ کچھ انصار کے گھر نظر آئے ۔بڑھیا نے بتایا کہ میں انہیں گھروں میں کام کر تی ہوں۔ان کے مرد باہر گئے ہوئے ہیں،گھر میں صرف عورتیں ہی عورتیں ہیں۔
    گھروں کے قریب جاکر آپﷺنے ذرا زور سے کہا : اے بیبیو ! تم پر سلامتی ہو اور خدا کی رحمت و برکت ہو ! گھروں میں خاموشی رہی اور کوئی جواب نہ آیا۔آپﷺنے دوبارہ پھر وہی الفاظ دہرائے۔تیسری آوازپرساری عورتوںنے مل کر جواب دیا :آپﷺپر بھی سلامتی ہو اور خدا کی رحمت و برکت،اے اللہ کے رسولﷺ!ہمارے ماں باپ آپﷺپر قربان۔ آپﷺ نے پوچھا،بیبیو !کیا تم نے میری پہلی آواز نہیں سنی  ؟ خواتین نے جوشِ عقیدت میں کہا، یا رسول اللہ !ہم نے آپﷺ کا پہلا ہی سلام سن لیا تھا لیکن جی یہ چاہا کہ آپﷺ کی زبان مبارک سے یہ مبارک بول ہم اور ہمارے بچے بار بار سنیں۔رسول اللہ مسکرائے پھر فرمایا :یہ تمہاری خادمہ ڈر رہی تھی کہ تم اسے برا بھلا کہو گی اور سزا دوگی،اتفاق سے اسے دیر ہو گئی ہے،میں اس کی سفارش کرنے آیا ہوں۔رسول اللہﷺکے الفاظ سن کر خواتین کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔یا رسول اللہ ﷺ!یہ آپﷺکو سفارش میں لائی ہے تو ہم اسے اسی وقت آزاد کرتے ہیں،اب اس پر کسی کا حق نہیں ہے۔باندی کی اس آزادی پر آپﷺکا چہرہ چمک اُٹھا اور آپﷺان بیبیو ںکو دعا دیتے ہوئے خوش خوش گھر واپس آئے۔(یہ واقعہ ماہنامہ حجاب،رامپور سرورعالم نمبر،اکتوبر ۱۹۹۴ء سے نقل کیا گیا ہے)
    کیا آج کے مسلمان اپنے پیارے نبیﷺ کی ان سنتوں کی پیروی کرنے کی ہمت کریں گے  ؟ اور آج کی دنیا میں جب پسماندہ اور غریبی کی سطح سے نیچے رہنے والوں کی زندگی جہنم بنائی جا رہی ہے ،وہ اُن کی فلاح و بہبود کا فرض ادا کر کے موجودہ دنیا میں اسلام کو نظام رحمت ثابت کرنے کا جہاد کریں گے  ؟  ربیع الاول کا یہ مہینہ دنیا بھر کے تمام مسلمانوں سے آج یہی سوال کر رہا ہے۔
    نبی رحمت ﷺ کی سیرت پاک ایسے نادر ونایاب واقعات سے بھری پڑی ہے، لیکن بدنصیب مسلمانوں کو رسول اللہﷺ کی سیرت پڑھنے کا موقع کہاں ہے  ؟  اُن کو جلوس نکالنے، جھنڈا لہرانے، نعرہ لگانے ،سڑکوں پر بھیڑ جمع کرنے اور میلاد کے جلسوں سے فرصت کہاں ملتی ہے کہ وہ نبیﷺ کو جاننے پہچاننے اور اُن کی محبت اورعظمت کی قدر کرنے والے بن سکیں  ؟ صارمؔ کہتے ہیں:
بے سہاروں کا کوئی سہارا نہ تھا ، جو تھے مظلوم اُن کا گزارا نہ تھا
وہ جو آئے تو جینے کا ڈھنگ آ گیا ،  مٹ گئے سارے غم اُن پہ لاکھوں سلام
بنت حوا کی کوئی عزت نہ تھی اُس دور میں -بے نواؤں کی کوئی وقعت نہ تھی اُس دور میں
اور غلاموں کی کوئی طاقت نہ تھی اُس دور میں – آپؐ ہیں سب کے مسیحا آپ پر لاکھوں سلام
ژۃظضظۃژ

 

«
»

ہندوتوا‘کی سیاست کا سماجی مساوات کے نعرے کے ذریعہ مقابلہ

جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے