دنیا کی سوپر پاور طاقتیں ملیشیا کے طیارہ کی تلاش میں ناکام

ان ممالک میں امریکہ، چین، فرانس، ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، میانمار، تھائی لینڈ، ویتنام، ازبکستان، ترکمنستان وغیرہ شامل ہیں ۔ طیارہ کو گم ہوئے گیارہ دن کا عرصہ ہوچکا ہے۔ ملائیشیاء کی حکومت کا کہنا ہیکہ طیارہ کا رخ جان بوجھ کر موڑا گیا ہے اور جس مقام پر اس کا رابطہ زمینی عملے سے منقطع ہوا (یا کیا گیا) اس مقام سے آگے طیارے کو شمال یا جنوب کی جانب موڑا گیا ہے۔ ملائیشیا کے سول ایوی ایشن کے ادارے کا کہنا ہیکہ فوجی ریڈار پر آخری مرتبہ دیکھے جانے کے چھ گھنٹے بعد تک طیارے کے سگنل کے نشان ملے ہیں۔ فوجی ریڈار نے طیارے کو آخری مرتبہ ملاکہ کی بحری پٹی کے اوپر پرواز کرتے ہوئے ریکارڈ کیا تھا۔ 
اس طیارہ کی گمشدگی یا ہائی جیک کئے جانے کے بعد مختلف سمتوں میں تحقیقات کی جارہی ہیں ۔ عالمی سوپر پاور طاقتیں جو اپنے آپ کو بین الاقوامی سطح پر عصری ٹکنالوجی میں نمایاں بتاتی رہی ہیں اتنے بڑے طیارے کا سراغ لگانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے دیہی علاقوں اور پہاڑوں میں اپنی روزمرہ زندگی میں مصروف لوگوں کو دہشت گرد بتاکر ان پر امریکہ ڈرون حملے کرتا ہے لیکن آج گیارہ دن کا عرصہ گزرجانے کے باوجود ملیشیاء کے طیارہ ایم ایچ 370بوئنگ777 کی کھوج میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔بیشک عالمی طاقتیں خطرناک ہتھیار تو تیار کرلئے ہیں اور ان میں سے بعض خطرناک ہتھیاروں کا استعمال بھی عملی طور پر اسلامی ممالک پرکرچکے ہیں۔ جس کی ایک مثال عراق ، افغانستان کی تباہی سے لی جاسکتی ہے۔ امریکہ اور مغربی طاقتوں کو، انکے دشمن یا مسلم دہشت گردی تو آسانی سے ہزاروں میل دور رہنے کے باوجود دکھائی دیتی ہے لیکن ایک اتنابڑا طیارہ جو گیارہ دن سے لاپتہ ہے اسے تلاش کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ آج 25ممالک ایک طیارہ کی تلاش میں مختلف جہتوں سے مصروف ہیں ۔ یہ طیارہ سمندر کی گہرائی میں دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی زمین کے کسی حصہ میں ۔ سب کو یہی تشویش ہیکہ آخر طیارہ گیا کہاں ہے؟ اطلاعات کے مطابق بتایا جارہا ہے کہ طیارے سے موصول ہونے والے آخری سگنلز سے ظاہرہ ہوتا ہے کہ ملیشیا کے ریڈار کے نظام سے نکل جانے کے پانچ چھ گھنٹے بعد تک بھی طیارہ کام کررہا تھا۔ اس بنیاد پر برٹش ایوی ایشن اتھارٹی کے سیکیورٹی کے سابق سربراہ نارمن شینکس کی تجویز ہے کہ طیارے کی تلاش کا کام نشان زدہ علاقوں کی آخری حدود سے کیا جانا چاہیے اور پھر ہمیں تلاش کرتے کرتے اس مقام تک آنا چاہئے جہاں سے طیارے نے آخر سگنل دیا تھا۔ نارمن شینکس کے خیال میں طیارہ شمال کی طرف نہیں لیجایا گیا بلکہ جنوب کی سمت لیجایا گیا جہاں اس کے ریڈار کی زد میں آنے کے امکانات کم ہیں۔ جنوب میں جانے کی صورت میں طیارے کے پاس بحیرہ ہند سے لے کر آسٹریلیا تک کا علاقہ موجود ہے اور اسے اتنے وسیع علاقے میں کہیں بھی اتارا جاسکتا ہے۔
ابتداء میں طیارہ کی تلاش سمندر میں کی گئی اور بعض اطلاعات کے مطابق اس کا دروازہ دکھائی دےئے جانے کی رپورٹ منظر عام پر آئی تھی جو بعد میں غلط بتائی گئی۔ چونکہ طیارہ میں سوار افراد زیادہ تر چین سے تعلق رکھتے تھے اس سلسلہ میں بعض تعصب پرست ذہنیت نے اسلام دشمنی کا راگ الاپنا شروع کردیا ۔ چونکہ عالمی سطح پر مسلمانوں کو دہشت گردی کا لیبل لگایا جاچکا ہے اسی لئے چین میں موجود مسلمانوں پر بھی شک و شبہ کیا جانا لازمی بات ہے اس سلسلہ میں سوشل میڈیا پر یہ بات بھی ہورہی ہے کہ طیارے کو چین کے علیحدگی پسند مسلمان یوگر نے اغواء کیا ہے۔ اس بات کی دلیل یہ دی جارہی ہے کہ اس طیارہ میں سوار 239افراد میں 153افراد کا تعلق چین سے تھا۔ کہا جارہا ہے کہ مسلمان طیارہ کو اغواء کرکے کوئی بڑا حملہ کرسکتے ہیں۔ اگر واقعی طیارہ کا اغواء کیا گیا اور بے قصور انسانوں کی ہلاکتیں کی گئیں تو اس کے خلاف مسلمان بھی بین الاقوامی برادری کے ساتھ ہونگے کیونکہ مذہب اسلام کبھی بھی بے قصور انسانوں کی ہلاکت کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر طیارہ میں موجود ایک بھی بے قصور شخص کو کسی قسم کی گزند پہنچے تو یہ اسلامی اقدار کے خلاف ہوگا۔ 
چین میں جس مقام پر طیارہ اتارنے کی بات کہی جارہی ہے وہ ہے ’’صحرائے تکلہ مکان‘‘لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لئے طیارہ کو کئی گھنٹوں تک ریڈار سے بچنا ضروری تھا جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ تحقیقات میں یہ بات بھی بتائی گئی کہ طیارہ اپنی سمت تبدیل کرنے کے بعد ہندوستانی جزائر انڈمان اور نکوبارکی جانب جارہا تھا۔ یہ جزائر تھائی لینڈ اور برما کے درمیان واقع ہیں ۔ چونکہ اس خطہ میں فوجی کارروائی کے خطرات کم ہی ہوتے ہیں اس لئے ہوسکتا ہے کہ یہاں کے فوجی ریڈار شاید بند تھے۔ جزیرے کے ایک اخبار ’’انڈمان کرانیکل‘‘ کے مدیر نے یہ بات ماننے سے انکار کردیا ہے کہ طیارہ اس جزیرے پر اترا ہے۔ سی این این سے بات کرتے ہوئے مدیر کا کہنا تھا کہ جزیرے پر جملہ چار اےئر اسٹرپ یا طیاروں کے لینڈ کرنے کی جگہیں ہیں اور اگر طیارہ ان میں کسی بھی اےئر اسٹرپ پر اترتا تو پتہ لگ جاتا کہ طیارہ اس جزیرے پر اترا ہے۔ ویسے انڈمان اور نکوبار جزائر 570جزیروں پر مشتمل ہیں۔ جن میں صرف 36پر لوگ آباد ہیں۔ بوئنگ 777کے ایک سابق پائلٹ اسٹیوبزدگان کا کہنا ہے کہ اگر جہاز کو چھپانا ہی مقصود تھا تو پھر ان جزائر سے اچھی جگہ کوئی اور نہیں ہوسکتی کیونکہ کسی کو خبر ہوئے بغیر طیارہ اتار سکتے ہیں۔لیکن طیارہ اتارنے کے لئے کم از کم 1500میٹر کی پٹی ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر چہ اتنے چھوٹے جزیرے پر اتنا بڑا طیارہ اتارنا آسان کام نہیں ایسی صورت میں جہاز کے پہیے ریت میں دھنس سکتے ہیں اور جہاز کا نچلا حصہ تباہ ہوسکتا ہے۔ اور اگر پہیے کھولے بغیر اتارے تو لینڈنگ سے جہاز کے تباہ ہونے کا خطرہ ہوسکتا ہے اور پروں میں بھرے ہوئے ایندھن سے طیارے کو آسانی سے آگ بھی لگ سکتی ہے۔ اسٹیوبزدگان کا کہنا ہے کہ ان سب کے باوجود اگر طیارہ کو اتار لیا بھی جائے تو کوئی امکان نہیں کہ جزیرے سے دوبارہ طیارہ اڑاکر دوسری جگہ جاسکے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ طیارہ قزاقستان لے جایا گیا ہے کیونکہ شمالی علاقے میں قزاقستان آخری مقام ہے۔ اسی لئے یہ مفروضہ بھی پیش کیا جارہا ہے کہ طیارہ قزاقستان لے جایا گیا ہے۔ قزاقستان کے سول ایوی ایشن کے سربراہ کے بیان کے مطابق اگر طیارہ ان کے ملک میں اتارہ جاتا تو ادارے کو پتہ لگ جاتا اس مفروضے میں اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر طیارے کو قزاقستان لے جایا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ طیارہ ہندوستان، پاکستان اور افغانستان کی فضائی حدود سے گزرا ہے۔ جبکہ یہ تینوں ممالک فوجی تیاری کے لحاظ سے عموماً ہائی الرٹ رہتے ہیں۔ اس لئے اس بات کا امکان موجود نہیں کہ طیارہ ان تینوں ممالک کے فوجی ریڈاروں سے بچ کر قراقستان پہنچ گیا ہو۔
جیسا ذہن ویسی بات
ہوسکتا ہے کہ طیارہ کسی بڑے سانحہ کا شکار ہوگیا ہواوراس سانحہ سے بچنے کے لئے اُس نے جزیرہ لنگکاوی کی جانب اپنا رخ بدلا ہو۔اس سلسلہ میں ایوی ایشن پر بلاگ لکھنے والے کرس گڈ فیلو نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹرانسپونڈر بند ہوجانے اور رابطہ ٹوٹنے کی وجہ آگ بھی ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طیارے کاا پنے مقررہ راستے سے ہٹ کر بائیں جانب مڑنا کسی محفوظ مقام کی جانب پہنچنے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ ’’ اس پائلٹ نے تمام درست اقدامات کئے ہوں۔ اسے دورانِ پرواز کسی بڑے واقعے کا سامنا کرنا پڑا اور اس نے فوراً واپس مڑکر نزدیک ترین محفوظ ہوائی اڈے کا رخ کیا ہو۔ اس کا مقصد جہاز کو کسی شہر میں گرنے یا بلند پہاڑوں سے ٹکرانے سے بچانا بھی ہوسکتا ہے‘‘۔جس کے لئے وہ لنگکاوی میں پلاؤ کی ہوائی پٹی جانا چاہتا تھا اور اس تیرہ ہزار فٹ کی پٹی پر اترنے کا راستہ سمندر پر سے ہے۔ وہ کوالالمپور کی جانب نہیں گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ راستے میں آٹھ ہزار فٹ کے پہاڑ ہیں وہ جانتا تھا کہ لنگکاوی کی جانب جانے والا راستہ آسان اور فاصلہ کم ہے۔ لیکن کرس گلڈ فیلو کے اس نظریہ کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اگر ہنگامی حالت کی وجہ سے جہاز نے راستہ بدلا تو ایسا مینوئل کنٹرول کے تحت کیا جانا چاہیے تھا لیکن نیویارک ٹائمز کے مطابق طیارے نے راستہ کمپیوٹر پر دی جانے والی کماند کے تحت بدلا جس کے لئے طیارے کے کپتان اور فرسٹ آفیسر کے درمیان موجود کی بورڈ پر سات سے آٹھ حروف ٹائب کئے گئے۔ امریکہ اخبار کے مطابق تحقیق کاروں کے اس خیال کو تقویت پہنچی کہ جہاز کا رخ جان بوجھ کر موڑا گیا ہے اور اس میں بدنیتی شامل تھی۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ اس طیارہ کا معاون پائلٹ فروق عبدالحمید نے خودکشی کی کوشش کی ہے اور اس نے تمام مسافروں کے ساتھ رائڈر سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ اقدام کیا ہو۔ اس پر اس لئے بھی شک کیا جارہا ہے کیونکہ اُس نے 2011ء میں تھائی لینڈ کے شہر کوکٹ سے کوالالمپور پرواز کے دوران ایک جنوبی آفریقہ کی خاتون جانٹی روسی کو کاک پٹ میں بٹھایا تھا جو فضائیہ کے اصول و ضوابط کے خلاف ہے۔ 
طیارہ کی پرواز سے متعلق بھی متزاد خبریں ہیں ۔ بتایا جارہا ہے کبھی زمین سے انتہائی کم بلندی یعنی پانچ ہزار فٹ کے فاصلہ پر تھا تو کبھی بتایا جارہا ہے کہ 45ہزار فٹ پر پرواز کررہا تھا۔ پرواز کے دوران کم بلندی اور انتہائی بلندی کی وجہ سے یہ بتائی جارہی ہے کہ طیارے میں کشمکش ہورہی تھی۔ 9/11حملوں کے بعد سے طیاروں میں کاک پٹ کے دروازے مزید محفوظ بنائے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود ان دروازوں سے اندر رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ بزدیگان کے مطابق پائلٹ ہائی جیکنگ سے بچنے کے لے جارحانہ انداز میں طیارہ اڑا سکتے ہیں۔ 
رائل اےئر فورس کے سابق نیویگیٹر شین مفٹ کا کہنا ہے کہ ایک اور خیال جو طیارہ کے لاپتہ ہونے کے بارے میں گردش کررہا ہے وہ یہ ہے کہ جہاز کو 45ہزار فٹ کی بلندی پر لے جایا گیا ہو تاکہ مسافر جلد ہلاک ہوجائیں۔ مسافروں کو ہلاک کرنے کا مقصد یہ ہوسکتا ہے جب جہاز بلندی سے واپس نیچے آئے تو مسافر اپنے موبائل فون استعمال نہ کرسکیں۔ بوئنگ 777کے لئے 45ہزار فٹ پر پرواز کرنا اپنی معمولی بلندی سے اوپر چلے جانا ہے۔ مفٹ کے مطابق اتنی بلندی پر اگر کیبن کا پریشر ختم کردیا جائے تو آکسیجن ماسک خود بخود گرپڑیں گے لیکن بارہ سے پندرہ منٹ میں ان کی آکسیجن ختم ہوجاتی ہے ان کا کہنا ہے کہ جس طرح کاربن مون آکسائڈ اثر کرتی ہے بالکل اسی طرح پریشر کم ہونے سے مسافر بے ہوش ہونے کے بعد مرجائیں گے۔ لیکن اس طرح کی صورتحال میں جو کوئی جہاز کو کنٹرول کررہا ہوگا وہ بھی ہلاک ہوجائے گا تاوقتکہ اس کے پاس آکسیجن حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ ہو۔ خیر یہ تمام الگ الگ لوگوں کے خیالات ہیں اصل حقیقت کیا ہے اور ملیشیاء کا یہ طیارہ حادثہ کا شکار ہوا یا اسے اغوا کیا گیا اس پر پردے پڑے ہوئے ہیں آج دنیا کے سوپر پاور طاقتیں جو عصری ٹکنالوجی میں اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کرتے ہوئے کئی ایک دعوے کرتے ہیں سبقت حاصل کرنے کے دعوے کرتے ہیں وہ بھی ملیشیاء کے اس لاپتہ طیارہ کا پتہ لگانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔شائد پراسرار طور پر غائب اس طیارہ کی حقیقت تک پہنچنے کے لئے ابھی کئی دن یا ماہ لگ جائیں گے۔ 1948ء کے بعد سے اس قسم کے84 پُر اسرارواقعات ہوچکے ہیں ۔ جن میں10 بڑے پُر اسرار واقعات میں سے ملیشیاء کے طیارہ کا یہ سانحہ بھی ہے۔
طیارہ میں سوار مسافروں کاانجام کیا ہوا اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن ان کے افرادِ خاندان غم و اندوہ کے درمیان اپنے عزیز و اقارب کے بارے میں حقیقی صورتحال سے واقف ہونے کے لئے بے چین ہیں کاش انکے افراد خاندان صحیح سلامت مل جائے۔ آمین۔

«
»

کیا یہی ہے تہذیبوں کی جنگ

ممبرا میں پولیس کی دہشت گردی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے