دْنیا بھر کے ممالک میں خواتین کی اسمگلنگ

لندن۔دْنیا بھر کے ممالک خواتین کی اسمگلنگ ، انھیں قحبہ خانوں میں فروخت اور جبری جسم فروشی کے مکرو دھندے میں ملوث ہیں۔برطانیہ کے اخبار آبزرور نے خبر دی ہے کہ برطانیہ میں اسمگل شدہ خواتین کی نیلامی کی جاتی ہے۔ رپوورٹس کے مطابق بیرون ملک سے خواتین کی اسمگلنگ کے خلاف وسیع پیمانے پر کئے جانے والے آپریشن میں یہ روح فر سا انکشاف ہوا ہے کہ ان میں سے بعض کو نیلامی کے ذریعے فروخت کیا گیا ہے۔ خریدنے والوں نے کچھ ہی دنوں بعد انہیں قحبہ خانوں میں جبری جسم فروشی پر مجبور کر دیا۔ ایمرج شائر میں پولیس نے 73 مشتبہ جسم فروشی کے اڈوں پر چھاپے مارے اور سات خواتین کو بر آمد کرلیا۔ ان میں کچھ تو بہت زیادہ زخمی بھی تھیں۔ عورتوں کے تازک جسم پر زخموں کے یہ تحفے قحبہ خانوں سے فراریت کی ناکامی کا تحفہ تھا۔آج کے مہذ ب معاشرے میں خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والا گھناؤنا سلوک ہیبت ناک، شرمناک اور دلوں کو ہلا دینے والا ہے۔ اسمگل شدہ خواتین کا جبری استحصال اور جسم فروشی کا دھندا گاؤں سے بڑے شہروں تک پھیلا ہوا ہے۔ انہیں کمرے سے باہر جھانکنے کی آزادی بھی نہیں ہوتی۔ ستم یہ کہ انہیں ایک ہی دن میں تقریباً 50 سے ساٹھ افراد کی حوس پوری کرنی پڑتی ہے جس سے اسمگلنگ میں ملوث افرادکو ہزاروں پاؤنڈ کی آمدنی ہوتی ہے۔برطانیہ کے وزیر داخلہ نے پولیس فورسز اور پریس و آرگنائزڈ کرائم برائنچ (سوکا) کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس جرم کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر لائیں کہ ہزاروں بچوں اور عورتوں کو ‘‘جدید غلامی’’ میں فروخت کیا جا رہا ہے۔یہ خواتین مشرقی یورپ سے اسمگل کی جاتی ہیں۔ مشرقی یورپ کے جرائم پیشہ افراد انہیں مغربی یورپ میں لے آتے ہیں بالخصوص برطانیہ میں جہاں یہ جرم اس بڑے پیمانے پر ہے کہ پولیس اور ‘‘سوکا’’ اپنے ایک چوتھائی وسائل اسٹریٹ کرائم اور خواتین کی اسمگلنگ سے نمٹنے پر خرچ کر رہے ہیں۔حکومت نے جنسی تجارت کے لئے انسانی اسمگلنگ کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا ہوا ہے جس کا نام ‘‘پینٹا میٹر ‘‘2 ہے۔ ڈنام سے شروع کئے جانے والے اس آپریشن کا مقصد خواتین اور بچوں کو جنسی تجارت کے لئے مجبور کرنے والے گروہوں کے سرغنوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ اس گھناؤنے کاروبار کا شکار ہونے والوں کی مدد اور اس مسئلے کے حوالے سے عوامی آگاہی بڑھانا ہے۔گزشتہ برس بھی اسی طرز کا چار ماہ پر محیط آپریشن شروع کیا گیا تھا جس میں 135 افراد پر انسانی اسمگلنگ سمیت دیگر الزامات میں فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ 500 قحبہ خانوں، مساج پارلرز، گھروں اور دیگر جگہوں سے 90کے قریب عورتوں اور لڑکیوں کو بازیاب کرایا گیا تھا۔ ان میں سے نصف کے لگ بھگ خواتین مشرقی یورپ ، مشرقی بعید اور جنوبی امریکا سے آئی تھیں۔نیلام ہونے والی خواتین کے ساتھ ایک نگراں ہوتا ہے۔ مختلف گروہوں کے لوگ جانوروں کی طرح عورتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ پھر ‘‘بولی’’شروع ہوتی ہے۔ بعض اوقات بولی کی رقم بے حد معمولی یعنی ایک ہزار یورو ہوتی ہے۔ (یاد رہے کہ ہالینڈ میں کم سے کم الاؤنس ایک ہزار یورو کے لگ بھگ ہے) مغربی یورپ اور برطانیہ لائی جانے والی زیادہ تر خواتین مشرقی یورپ ، افریقہ اور مشرق بعید سے تعلق رکھتی ہیں جنہیں سوشلزم کی چھتر چھایہ سے نکالنے کے بعد بہتر زندگی اور روزگار کا جھانسا دیا جاتا ہے لیکن مغربی یورپ پہنچنے کے بعد ان سے پاسپورٹ اور دوسری تمام دستاویرات لے لی جاتی ہیں اور پھر اکثر ان کو نہایت غلیظ مکانوں میں رکھا جاتا ہے۔ بعد میں ان کوگھروں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مشرقی یورپ افریقہ اور مشرق بعید سے حالیہ اسمگل شدہ دس ہزار عورتوں کو برطانیہ میں فی کس ڈھائی ہزار پونڈکے عوض منظم گروہوں کو فروخت کیا گیا ہے اور اس وقت وہ جنسی غلامی میں بندھی ہوئی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق پولینڈ اور رومانیہ سے تارکین وطن کے ایک سیل کی وجہ سے یورپ اور بالخصوص برطانیہ میں جرائم میں خوفناک اضافہ ہو گیا ہے۔ اس بات سے برطانیہ کے ہوم آفس اور پولیس کے یہ خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں کہ جرائم پیشہ افراد پولینڈ اور رومانیہ سے لندن منتقل ہو رہے ہیں۔پولیس کو تشویش ہے کہ جرائم پیشہ افراد دس سال سے کم عمر بچوں کو استعمال کر رہے ہیں جن کے خلاف مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ جرائم کی یہ کمائی واپس رومانیہ بھیجی جا رہی ہے۔ ادھر رومانیہ کی پولیس نے اعتراف کیا ہے کہ رومانیہ کے جرائم پیشہ لوگ برطانیہ بھاگ گئے ہیں۔ یہ لوگ جرائم سے جو کمائی کرتے ہیں وہ رقم رومانیہ کے بینکوں میں جاتی ہے۔ ان سے لگڑری کاریں اور بنگلے خریدے جاتے ہیں۔ رومانیہ کی پولیس انہیں ضبط کرنا چاہتی ہے لیکن شواہد کی عدم موجودگی میں ایسا نہیں کر سکتی۔جنسی تجارت کا یہ مسئلہ مغرب کا اپنا پیدا کیا ہوا ہے۔ مشرقی یورپ میں سو شلزم کے ہوتے ہوئے وہاں ایک بھی ایسا جرم پیدا نہیں ہوا تھا مگر اب سرمایہ دارانہ نظام کی خوبیوں میں سے ایک خوبی جنسی تجارت بن گئی ہے۔ سو اب مغرب کو تلخ سچائیوں کا سامنا کرنے، انہیں پہچان کر قبول کرنے اور پھر اسے نقصان دہ ہونے کا اعلان کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔

«
»

لاکھوں انسانی جانوں کے محافظ ڈاکٹر یوسف حمیدکو نوبل پرائز کیوں نہیں؟

مالکی اقتدار کا خاتمہ ایک ڈراونے خواب سے نجات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے