ڈرون حملے غیر قانونی اور بعض جنگی جرائم کے زمرے میں بھی آتے ہیں

ایمنٹسی کا دعوی ہے کہ یہ امریکی ڈرون منصوبے پر اب تک کی جامع ترین رپورٹ ہے جسے انسانی حقوق کے نقط نظر سے تیار کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں پاکستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں کی تفصیلات بتائی گئی ہیں جس کے بارے میں ایمنٹسی کا دعوی ہے کہ اس پروگرام میں کسی قسم کی کوئی شفافیت نہیں پائی جاتی ہے۔ایمنٹسی انٹرنیشنل کے پاکستان پر محقق مصطفی قادری نے بتایا ڈرون حملوں کے ارد گرد رازداری کے پردے میں امریکی انتظامیہ کو عدالتوں اور عالمی قوانین کے دائرہ کار سے آزاد قتل کرنے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ اپنے ڈرون پروگرام کے بارے میں حقائق سامنے لائے اور ان لوگوں کو جو اس کے ذمہ دار ہیں سزا دے۔
انھوں نے مزید کہا ڈرون حملوں کے متاثرین کی داد رسی کی امید تو دور کی بات امریکہ بعض حملوں کے بارے میں ذمہ داری ہی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔
یہ رپورٹ ایک اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں جاری کی گئی جس نے یمن میں ڈرون اور دوسرے حملوں پر اپنی رپورٹ جاری کی تھی۔ایمنٹسی نے منظر عام پر آنے والے ان تمام پینتالیس ڈرون حملوں کا جائزہ لیا ہے جو شمالی وزیرستان میں جنوری سنہ 2012 سے اگست سنہ 2013 کے درمیان کیے گئے۔ اس خطے میں دنیا بھر میں کسی اور جگہ کی نسبت سب سے زیادہ حملے کیے گئے۔
ان حملوں میں سے نو کے بارے میں تنظیم کا دعوی ہے کہ اس نے تفصیلی تحقیق کی جس میں ہلاکتوں کی تعداد کا ریکارڈ شامل ہے۔ اس سے تنظیم کے مطابق یہ سوال ابھرتا ہے کہ یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہیں جسے جنگی جرائم یا ماورائے عدالت قتل کے برابر شمار کیا جا سکتا ہے۔اکتوبر 2012 کو 68 سالہ خاتون ممانہ بی بی ایک دوہرے ڈرون حملے میں اس وقت ہلاک ہو گئیں جب وہ اپنے کھیتوں میں سبزیاں کاٹ رہی تھیں اور ان کے ارد گرد ان کے چند پوتے پوتیاں تھیں۔ یہ ڈرون حملہ بظاہر ایک ہیل فائر میزائل سے کیا گیا تھا۔
جولائی 2012 کو اٹھارہ مزدوروں کو جن میں ایک چودہ سالہ لڑکا بھی شامل تھا افغانستان کی سرحد پر ایک دور افتادہ گاں میں ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا جب وہ ایک سخت دن کی محنت مزدوری کے بعد بیٹھ کر کھانا کھانے لگے تھے۔سرکاری دعوں کے برعکس جن میں کہا گیا تھا کہ ان حملوں میں دہشت گرد ہلاک کیے گئے ایمنٹسی کی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد جنگی کارروائیوں میں ملوث نہیں تھے اور نہ ہی ان سے کوئی خطرہ تھا۔مصطفی قادری کا کہنا ہے ہمیں ان ہلاکتوں کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خطے میں حقیقی خطرات لاحق ہیں اور ڈرون حملے بعض صورتوں میں قانونی بھی ہو سکتے ہیں مگر یہ یقین کرنا بہت مشکل ہے کہ ایک مزدوروں کا گروپ یا بچوں سے گھری ایک بوڑھی عورت سے کسی کو کیا خطرہ درپیش ہو سکتا ہے قطع نظر اس کے کہ ان سے امریکہ کو کوئی خطرہ ہو گا۔
ایمنسٹی نے ایسے حملوں کی بھی تفصیلات جمع کیں جب ایک حملے کے نتیجے میں زخمی یا ہلاک ہونے والے افراد کی مدد کے لیے جب دوسرے افراد لپکے تو انھیں ایک اور حملے کا نشانہ بنایا گیا۔اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ امداد کے لیے پہنچنے والے بھی اسی گروہ کا حصہ ہو سکتے ہیں مگر ایک حملے کے بعد کی افراتفری میں کیسے اس نوعیت کی تفریق کی جا سکتی ہے۔امریکی صدر براک اوباما نے مئی سنہ 2013 میں ایک پالیسی خطاب میں ڈرون حملوں کے حوالے سے شفافیت میں اضافے کی یقین دہانی کروائی تھی مگر اس پر عمل در آمد ہونا ابھی باقی ہے۔ان حملوں کے حوالے سے رازداری نے امریکہ کو چھوٹ دے رکھی ہے اور ان حملوں کے متاثرین کی جانب سے ہرجانے یا انصاف کی کوششوں کو روکنے کی صلاحیت بھی دی ہے۔
امریکی ڈرون حملوں کے علاوہ ایمنسٹی کے مطابق شمالی وزیرستان کے شہری پاکستانی افواج اور مسلح جنگجوں کے درمیان ہونے والی لڑائی کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ مقامی آبادی مستقل خوف کے عالم میں رہتی ہے اور دونوں جانب سے تشدد سے بچ نہیں سکتی ہے۔ ان حملوں کی وجہ سے مقامی لوگ ہر وقت اڑتے ڈرون طیاروں کی جانب سے حملے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔قادری کا کہنا ہے کہ المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان کے لیے تعینات امریکی ڈرونز قبائلی علاقے کی عوام میں اسی قسم کے خوف و ہراس پیدا کر رہے ہیں جو کبھی القاعدہ اور طالبان سے پیدا ہوتے تھے۔رپورٹ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ مقامی لوگوں کو اپنے گاں یا ضلع میں طالبان یا القاعدہ جیسے گروہوں کی موجودگی پر کوئی قابو نہیں ہے۔
القاعدہ سے منسلک گروپ نے درجنوں مقامی لوگوں کا امریکی ڈرون حملے کے جاسوس ہونے کے الزام میں قتل کیا ہے۔میر علی کے رہائشیوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ سڑک اور گلیوں کے کنارے مستقل طور پر لاشیں پڑی ملتی ہیں جن کے ساتھ انتباہی پرچیاں ہوتی ہیں کہ جو کوئی بھی امریکہ کی جاسوس کا ملزم ہوگا اس کا یہی حشر ہوگا۔
مقامی لوگوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ وہ مسلح گروپ کی زیادتیوں کے خلاف مقامی حکام کے سامنے رد عمل کے خوف سے شکایت بھی نہیں کر سکتے۔ بہت سے لوگ تو ایمنسٹی انٹرنیشنل سے امریکی ڈرون حملے پر بات کرنے میں بھی خوف محسوس کر رہے تھے۔ جن لوگوں نے کھل کر بات کی انہیں بعد میں دھمکیاں بھی ملیں۔پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ امریکی ڈرون حملے کی مخالفت کرتا ہے لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کو اس بات پر تشویش ہے کہ پاکستان کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا جرمنی اور برطانیہ کے بعض حکام اور ادارے امریکہ کو ڈرون حملے کرنے میں تعاون کر رہے ہیں جو کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
قادری نے کہا پاکستان کو چاہیے کہ وہ ڈرون حملوں کے متاثرین کی داد رسی کرے اور انصاف دلائے۔ پاکستان، آسٹریلیا، جرمنی اور برطانیہ کے حکام کو چاہیے کہ ان تمام حکام اور اداروں کی ضرور جانچ کریں جن پر امریکہ کو ڈرون حملے میں تعاون فراہم کرنے اور قبائیلی علاقوں میں دوسرے ناجائز کام انجام دینے کا شبہہ ہے۔انھوں نے کہا پاکستانی حکام ان تمام امریکی ڈروں حملوں کی معلومات ضرور ظاہر کرے جنھیں وہ ضبط تحریر میں لائے ہیں اور ان پر انھوں نے کیا کارروائی کی ہے یا وہ ان حملوں کے متاثرین کی امداد کے لیے کیا کرنے والے ہیں۔
رپورٹ میں شمالی وزیرستان کے باشندوں کے انسانی حقوق کا تحفظ کرنے میں پاکستان کی ناکامی کا بھی ذکر ہے۔ ان میں انصاف کے حصول اور مناسب طبی امداد کی کمی اور پاکستانی ملٹری کی بمباری کے سبب اموات، لوگوں کا زخمی ہونا اور نقل مکانی شامل ہے۔اس علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے القاعدہ، طالبان اور دوسرے گروہ کے لوگوں کو سزائے موت کا سہارا لیے بغیر انصاف دلانے میں پاکستان کے خراب ریکارڈ کا بھی ذکر ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے مشترکہ طور پر امریکی کانگریس سے کہا ہے کہ وہ ان معاملوں کی جانچ کرے جن کو ان دونوں تنظیموں نے دستاویزی شکل دی ہے اس کے ساتھ دوسری غیر قانونی اموات کی بھی جانچ کرے اور اگر انسانی حقوق کی پامالی کے کوئی شواہد ہیں تو انہیں عام کرے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکی حکام سے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں کیے جانے والے ڈرون حملوں کی حقیقت اور قانونی جواز کو عام کرے اور امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں ہونے والی اموات پر اگر کوئی جانچ کی گئی ہے تو اس کی معلومات فراہم کرے۔ان تمام معاملوں میں جہاں غالب امکان ہے کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں غیر قانونی اموات ہوئی ہیں ان کی فوری، مکمل اور آزادنہ جانچ کی یقین دہانی کرائے۔غیر قانونی ڈرون حملوں کے مرتکبین کو سزائے موت کا سہارا لیے بغیر عوام کے علم میں کیفر کردار تک پہنچائے۔اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ غیر قانونی ڈرون حملوں کے شکار افراد بشمول ان کے خاندان والوں کو انصاف تک مثر رسائی حاصل کرائے، ہرجانہ اور دوسرے قسم کی چارہ گری کرائے۔
شمالی وزیرستان میں غیر قانونی قتل اور دوسرے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والوں کو سزائے موت سے اجتناب کرتے ہوئے انصاف پر مبنی سزائیں دی جائیں۔ ان میں امریکی ڈرون حملے کے ساتھ ساتھ پاکستانی مسلح افواج کے حملے اور طالبان اور القاعدہ جیسی تنظیموں کے ذریعے حملے بھی شامل ہیں۔
ان تمام امریکی ڈرون حملوں کی معلومات عوام کو فراہم کیں جائیں جن کے بارے میں پاکستانی حکام کو خبر ہے اس کے ساتھ ہلاکتوں کی تفصیل اور متاثرین کو فراہم کی گئی امداد کی تفصیل بھی فراہم کرائی جائے۔
بین الاقوامی برادری سے کہا ہے کہ وہ امریکی ڈرون حملوں کی مخالفت کرے جو بین الاقوامی قوانین کے خلاف ورزی کرتی ہیں اور امریکہ اور پاکستان پر زور دیں کہ وہ مذکورہ بالا تجاویز پر عمل درآمد کرے۔ جب امریکہ یا دوسرے ممالک کے ذریعے مہلک قوت کا استعمال کیا جائے تو دنیا کے ممالک کو چاہیے کہ وہ سرکاری طور پر اس کے خلاف آواز بلند کریں اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ان کے تدارک کی کوشش کریں۔کسی بھی صورت حال میں ان امریکی ڈرون حملوں میں شامل ہونے سے اجتناب کریں جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ ان میں انٹلیجنس اور دیگر سہولیات مشترک کرنا بھی شامل ہے۔پاکستان حکام سے کہا ہے کہ وہ امریکی ڈورون حملوں اور پاکستانی فورسز کے حملوں کے شکار لوگوں کو مناسب انصاف اور ہرجانہ دلائے اور امریکی حکام سے ڈرون حملوں کے متاثرین کے لیے ہرجانہ اور دوسرے قسم کی چارہ جوئی کرائے۔

«
»

اقوام متحدہ مظلوم ودربَدرانسانوں کے لیئے مسیحا

معاشی مسائل سے دماغی صلاحیت محدود

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے