ڈاکٹر راحت کی یاد نے کچہ اس طرح ستایا کہ دل نے پھر قلم اٹھانے پر مجبور کردیا۔۔۔!

باسل بھٹکلی

اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو۔
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتاہے۔

ڈاکٹر راحت اندوری کے ساتھ ہی شاعری کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا، وہ ایک ایسے شاعر تھے کہ عصر حاضر میں ان کا ثانی ملنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے،
وہ ایک قوم پرست دل کے مالک تھے جو بات دل میں اترتی تھی وہ زبان سے ادا ہوجاتی تھی، ان کا شعر سیاست کے ایوانوں تک پہنچنے کی طاقت رکھتا تھا،
ان کے انوکھے اور پر اثر انداز بیاں کی بناء پر دنیا بھر میں ان کے قدر دان موجود ہیں، مرحوم کی کئی نظمیں اور شعر زبان زد عام ہیں اور ان کے اشعار بھارت کے سیاسی جلسے جلوسوں میں بھی ماحول گرما دیتے تہے، یقیناً ان کی وفات سے ادبی دنیا کو بہت ہی بڑا صدمہ ہوا ہے، ان کی غزلیں اور نظمیں زبان زد عام تھیں اور انہیں ہند و پاک میں یکساں مقبولیت حاصل تھیں ان کا یہ شعر سیاست دانوں میں کافی مقبول تھا اور انتخابی جلسوں کی رونق ہوا کرتا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں۔
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے۔

بے پناہ مقبولیت رکھنے والے ڈاکٹر راحت اندوری کی شاعری، ان کے لب ولہجے اور انداز کا کمال تھا کہ دہلی، لکھنؤ، اندور، بنارس، کراچی، لاہور، دبئی اور نیویارک سمیت ہر اس جگہ عوامی پذیرائی انہیں ملتی تھی جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، ان کی آمد پر ہال تالیوں سے داد و تحسین سے گونجتا رہتا تھا، بلاشبہ وہ مشاعرہ لوٹ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

میں نے راحت صاحب کی شاعری کا مطالعہ مشاعروں کے حوالے سے نہیں کیا ہے، راحت کی شاعری زندگی کے چھوٹے بڑے مسائل، عہد حاضر کے سیاسی اور سماجی حالات اور ایک عام آدمی کے دکھ درد کی ترجمان ہے، ان کی شاعری میں کسی گہرے فلسفے یا کسی پیچیده رمز کی عقدہ کشائی نہیں لیکن یہ کم اہم بات نہیں کہ ہم اس میں زندگی کی دھڑکنیں سنتے ہیں، یہ شاعری ہمیں اپنے اطراف پھیلی ہوئی وسیع تر دنیا کے شب و روز کی سچی تصویریں دکھاتی ہے،
تخلیقی سطح پر سادہ اور مانوس لفظیات کے استعمال اور ایک غیر مبہم پیرایۂ اظہار نے مرحوم کی شاعری کو ایسا ذائقہ عطا کر دیا ہے جو عوام اور خواص دونوں کو اپنے دائرۂ اثر سے باہر جانے نہیں دیتا۔ 
راحت صاحب کا لہجہ تیکھا ہے، ان کے شعری مزاج میں صاف گوئی، بے خوفی اور بے باکی ہے جو میرے نزدیک ایک حقیقی فن کار کا جوہر ہے، میں نے مرحوم کی جو کتابیں دستیاب ہو سکیں ان کا بغور مطالعہ کیا ہے، ان کے یہاں ایسے بہت سے اشعار مل جائیں گے جن سے سرسری گزر جانا آسان نہیں ہوگا،
ان میں فکر ہے، شعور ہے، فن ہے اور وہ رچاؤ اور ہنر داری ہے جو کسی شعر کو ادب پاره بناتی ہے، میں راحت صاحب کو اسی نوع کے اشعار کے حوالے سے پہچانتا ہوں۔ 

ڈاکٹر راحت اندوری کے قطعات میں عقل و جذبات کا ایک خاص توازن موجود ہے، اور سیاسی، قومی، ملکی اشعار میں جوش وتاثیر پائی جاتی ہے،
اور مرحوم کے اشعار میں سادگی، حسن وشیرینی، طنز ومزاح، سلاست وروانی ملتی ہے،
الفاظ میں بلا کی گھن گرج نظر آتی ہے اور کسک وکھٹک بھی موجود ہے،
آپ کے قلم اور لفظوں کی طاقت تک پہنچنا مشکل رہے گا، صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا نے ایک ایسا شاعر کھویا ہے کہ جس کی غزلیں آنے والی نسلوں کے لیے بھی قوت محرکہ رہیں گی۔

مرحوم کے چند مشہور قطعات ملاحظہ کیجیے:

نشہ ایسا تھا کہ مے خانے کو دنیا سمجھا۔
ہوش آیا تو خیال آیا کہ گھر جانا ہے۔
———-
مرے جذبے کی بڑی قدر ہے لوگوں میں مگر۔
میرے جذبے کو مرے ساتھ ہی مر جانا ہے۔
———-
شام ڈھلے ہر پنچھی کو گھر جانا پڑتا ہے۔
کون خوشی سے مرتا ہے، مر جانا پڑتا ہے۔
————
زم زم و کوثر تسنیم نہیں لکھ سکتا۔
یا نبی آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا۔
میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحت۔ 
آپ کے نام کی اک میم نہیں لکھ سکتا۔
———
کشتی ترا نصیب چمک دار کردیا۔
اس پار کے تھپیڑوں نے اُس پار کردیا۔
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے۔
لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کردیا۔
دو گز سہی مگر یہ مری ملکیت تو ہے۔
اے موت تونے مجھ کو زمیں دار کردیا۔
———-
مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو۔
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے۔
——-
لوگ ہر موڑ پہ رُک رُک کے سنبھلتے کیوں ہیں۔
اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں۔
———
بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر۔
جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں۔
———
ساتھ چلنا ہے تو تلوار اٹھا میری طرح۔
مجھ سے بزدل کی حمایت نہیں ہونے والی۔
———
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں۔
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے۔
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے۔
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے۔
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے۔
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے۔
——-
میرے حجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو۔
آسمان لائے ہو، لے آؤ زمین پر رکھ دو۔
اب کہا ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل۔
اب تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو۔
——-
الوداع راحت صاحب!!!
دعاگو اور دعاؤں کا طالب/ باسل بہٹکلی۔

«
»

یومِ آزادی: کیا ہم سچ میں آزاد ہیں ؟

مرحوم مظفر کولا : خادم نونہال ، تاجر خوش خصال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے