ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
ڈاکٹر کفیل خان نے قانونی لڑائی میں کامیابی حاصل کی۔ یوگی حکومت جو ہر محاذ پر اپنی ناکامیوں اور ظالمانہ اقدامات کی وجہ سے رسوا ہوتی رہی ہے‘ اُسے ایک اور شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بے لوث عوامی خدمت گذار ڈاکٹر کو محض اس لئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑی کہ اس کی مقبولیت یوگی کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ کوئی اور ہوتا تو شاید ٹوٹ جاتا، بکھر جاتا۔ کفیل خان نے صبرآزما حالات میں مہینوں گذار دیئے۔ ان کے ارکان خاندان میں کسی کے خوف کے بغیر قانونی کے ایوانوں پر دستک دی۔ چوں کہ انصاف کے بعض عدالتیں‘ وقت کے دھارے کے ساتھ اپنا وقت موڑنے لگی تھیں‘ اس لئے یہ اندیشہ تھا کہ ڈاکٹر کفیل خان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوگا‘ یا ان کا مستقبل بھی سنجیوبھٹ جیسا ہوگا جنہوں نے ارباب اقتدار سے ٹکرانے کی کوشش کی تھی۔ مگر ہندوستان کے سیکولر عوام نے جو دستوری اور جمہوری حقوق کو پامال ہونے سے بچانا چاہتے تھے انہوں نے بھرپور ساتھ دیا۔ ایک ایسے وقت جبکہ سپریم کورٹ کے بعض فیصلوں سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوا۔ پہلے ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ اور پھر الہ آباد ہائی کورٹ کے ججس نے عدلیہ کے گرتے ہوئے معیار کو سہارا دیا۔ اور عام ہندوستانی کو اس بات پر یقین دلایا کہ اب بھی عدلیہ پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر کفیل خان نے معنی خیز انداز میں STF کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کا انکاؤنٹر نہیں کیا۔ البتہ یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ انہیں مستقبل میں بھی کسی نہ کسی مقدمے میں پھنسایا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر کفیل خان گورکھپور میں رہتے ہیں۔ یوگی سے ان کی گڑھ میں ٹکرا رہے ہیں۔ ان کا حال شیر کی کچھار میں گھس کر اس کا شکار کرنے یا سانپ کے بل میں ہاتھ ڈال کر اس کا پھن کچلنے کی کوشش جیسا ہے۔ ابھی تک انہوں نے شیر کو سرکس کا شیر اور سانپ کو بن دانتوں کا غیر زہریلا ثابت کیا ہے۔ اب تو ان کی ہمت بڑھ گئی ہے‘ مستقبل میں وہ یقینا ایک عظیم طاقت بن کر اُبھریں گے۔ یوگی حکومت کو کم وقت میں دو مرتبہ عدالت کے ہاتھوں شرم سار ہونا پڑا۔ پہلے انہیں چوراہوں پر لگائے گئے وہ ہورڈنگس ہٹا دینے کی ہدایت دی گئی تھی جس میں مخالف سی اے اے مظاہرین کی تصاویر کو نمایاں کیا گیا تھا۔ اور دوسری مرتبہ الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹر گووند ماتھور نے علیگڑھ میں کی گئی ڈاکٹر کفیل خان کی تقریر کے بارے میں اپنے ریمارک لکھے ہیں کہ اس میں کہیں بھی اشتعال انگیزی کا ثبوت نہیں ملتا۔ بلکہ ان کی تقریر قومی اتحاد اور یکجہتی کے جذبوں کو پروان چھڑاتی ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف قانون قومی سلامتی غیر قانونی ہے۔ ان کی فوری رہائی کے احکامات یقینا اُترپردیش حکومت کے لئے گوشمالی سے کم نہیں۔ ہمارے ملک میں انتقامی سیاست عام ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ظلم وہی کرتا ہے جو بنیادی طور پر بزدل ہوتا ہے، کمزور اور کم ظرف انتقام لیتا ہے۔ جب کبھی ارباب اقتدار کو اپنے مخالفین سے انتقام لینا ہوتا ہے تو یا تو انہیں فرضی الزامات کے تحت جیلوں میں سڑا دیا جاتا ہے۔ اتنے مقدمات دائر کئے جاتے ہیں کہ ضمانت ملنے ملنے تک اس کی زندگی کا ایک بڑا حصہ گذر جاتا ہے یا پھر اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کو اُن علاقوں میں مامور کردیا جاتا ہے جہاں ان کی زندگی کو خطرہ یقینی ہو۔ یا ایسے عہدوں پر فائز کردیا جاتا ہے جن پر یہ کچھ نہ کرسکیں۔
حکومت کے ہاں میں ہاں ملانے والے چاپلوس‘ خوشامدی اور بدعنوان عہدیدار ہزار جرائم کے ارتکاب کے باوجود قانونی گرفت سے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر گرفتار ہوبھی جائیں تو کسی نہ کسی بہانے انہیں رہا بھی کردیا جاتا ہے۔ گجرات کے سابق ڈی جی پی ونجرا جیسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ جبکہ سنجیو بھٹ سیاسی انتقام کی شرمناک مثال ہیں۔ 2002ء کے فسادات میں ملوث عناصر کو بے نقاب کرنے والے اور اس وقت کے چیف منسٹر گجرات نریندر مودی کے خلاف سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرنے والے اس آئی پی ایس آفیسر کو اس کی تحویل میں ایک قیدی کی موت کے الزام میں ملازمت سے برطرف کرکے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ سنجیو بھٹ خاطی تھے یا حکومت کے خلاف عوام اٹھانے والے خطاکار۔ آج بھی ان کے آواز اٹھائی ہے مگر قانون کی دیوی کی آنکھوں پر اور اس کے سائے میں بیٹھنے والوں کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی ہوئی ہے۔ گجرات فسادات کے وقت گجرات کے وزیر داخلہ ہرین پانڈیا تھے۔ انہو ں نے بھی اس وقت کے چیف منسٹر کے خلاف بیان تھا۔ کچھ دن بعد وہ راستہ سے ہٹادیئے گئے۔ سنجیو بھٹ جیسے ا ور بھی ایمان دار عہدیدار موجود ہیں جو اپنی ایمانداری کی سزا بھگت رہے ہیں۔
ہندوستان جمہوری ملک ہے۔دستور نے ہر شہری کو آزادی دی ہے۔ مگر یہ آزادی انہی کے پاس ہے جس کے ہاتھ میں اقتدار کی لاٹھی ہے جس سے وہ قانون، عدلیہ نظم و نسق کو اپنی مرضی سے ہانکتا رہتاہے۔ جنہوں نے اس کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی دستوری اور جمہوری حقوق کے تحفظ کے لئے جدوجہد کی اسے راستے سے ہٹادیا گیا۔ جیلو ں میں ڈال کر ان کی آواز خاموش کردی گئی۔ آج انسانی حقوق کے کئی علمبردار جیلوں میں بند ہیں۔ حال ہی میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو بھی پولیس مظالم کا بھی سامنا کرنا پڑا اور جیلوں میں بھی رہنا پڑا۔ حاملہ خاتون صفورا زرگرکو تین مہینے جیل میں رہنا پڑا جبکہ دیون گنا کالیتا جیسی مخالف سی اے اے کارکن پر مسلم خواتین کو فساد کے لئے اُکسانے کا الزام عائد کرتے ہوئے جیل میں رکھا گیا ہے۔ انہیں ضمانت ملتی ہے مگر سیاہ قانون UAPA کے تحت مقدمہ دائر کرتے ہوئے ضمانت کو نامنظور کروایا جاتا ہے۔ شرجیل امام بھی ایسے ہی ایک شکار ہیں‘ ان سب کے علاوہ اترپردیش سیاست کی ایک اہم ہستی اعظم خان بھی یوگی حکومت کی انتقامی سیاست کا بدترین شکار ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے بانی رکن جو رکن پارلیمنٹ بھی رہے‘ ریاست کے وزیر داخلہ بھی رہے جنہوں نے رام پور میں محمد علی جوہر یونیورسٹی قائم کی تھی‘ ان پر اراضیات پر ناجائز قبضوں کے چالیس مقدمات اور لوٹ مار اور جعل سازی کے 12مقدمات دائر کئے گئے ہیں۔ ان کی یونیورسٹی کو جسے انہوں نے تنکا تنکا جوڑ ک تعمیر کیا تھاتباہ و برباد کیا۔ اترپردیش کے سابق چیف منسٹر اکھیلیش یادو نے کفیل خان کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اعظم خان بھی بہت جلد رہا ہوجائیں گے۔ اعظم خان نے امر سنگھ کو سماج وادی پارٹی کی تقسیم کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ جبکہ امر سنگھ نے شدت سے اعظم خان کی مخالفت کی تھی۔ اعظم خان نے امر سنگھ کے خلاف جو دعوے کئے تھے وہ سچ ثابت ہوئے کیوں کہ خود کو سیکولر ثابت کرنے والے امر سنگھ نے نہ صرف بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی بلکہ ان کی موت کے بعد پتہ چلا کہ انہوں نے اپنے اربوں روپیوں کے اثاثہ جات آر ایس ایس کے نام پر وقف کردیئے تھے۔
آر ایس ایس بی جے پی چاہتی یہی تھی کہ سماج وادی پارٹی ہو یا کانگریس یا کوئی بھی سیاسی جماعت آپس میں انتشار کاشکار ہوجائے۔ امرسنگھ‘ سماج وادی کی صفوں میں داخل ہوکر ایک طرف انہوں نے ملائم سنگھ یادو سے دوستی نبھانے کا وعدہ کیا دوسری طرف باپ بیٹے کے درمیان نفرت اور اختلافات کی دیوار کھڑا کردی‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُترپردیش میں بی جے پی کے اقتدار کی راہ ہموار ہوئی۔ اعظم خان اس حقیقت کو جان گئے تھے کہ انہوں نے علی الاعلان اس کا انکشاف کیا اوراس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا جب یوگی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی پہلی انتقامی کاروائی کی اور محمد علی جوہر یونیورسٹی کو نقصان پہنچایا اور پھر اعظم خان کو حوالات میں بھیجا۔
ڈاکٹر کفیل خان، سنجیوبھٹ، اعظم خان یہ سب طاقتور لوگ ہیں‘ معاشی طور پر مرفع حال ہیں۔ ان کا حال کیا ہوگا جن کا کئی نہیں۔ ایسے ہزاروں افراد جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی پر فرقہ پرست ہمیشہ پریشان رہتے ہیں۔ ان کی آبادی پر کنٹرول کرنے کے مطالبات کئے جاتے ہیں‘ حتیٰ کہ ہندوستان کی واحد مسلم کثیر آبادی والی ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کے فیصد تناسب کم کرنے کے لئے اقدامات شروع ہوگئے ہیں۔ مگریہ فرقہ پرست مسلمانوں کی آبادی کو ایک خاص مقام پر بڑھتا ہوا دیکھ کر خوش بھی ہوتے ہیں اور یہ مقام ہے ہندوستان کی جیلیں۔ ہندوستان میں مسلمان کی آبادی 14.2فیصد ہے‘ جبکہ 16.6فیصد مسلم سزا یافتہ قیدی جیلوں میں ہیں اور 18.7فیصد مسلم قائدین کے مقدمات زیر سماعت ہیں بیشتر مسلم قائدین ناکردہ خطاؤں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ جھوٹے مقدمات فرضی الزامات کے تحت برسوں جیلوں میں سڑایا جاتا ہے اور پھر جب ان کی جوانی ڈھل جاتی ہے رشتہ ناطے ٹوٹ جاتے ہیں‘ دنیا اُجڑجاتی ہے تب وہ باعزت بَری کردیئے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے بعد جیلوں میں دوسری بڑی آبادی آدی واسی کی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ملک میں 4.72لاکھ قیدی ہیں۔ ان میں 4.53لاکھ مرد اور 19ہزار 81خواتین ہیں۔سب سے زیادہ قیدی یوپی میں ہیں جہاں قانون کے نام پر جنگل راج ہے
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
05ستمبر ۲۰۲۰
جواب دیں