ڈاکٹر علیمؔ عثمانی۔ نعت گوئی کے آئینے میں

ڈاکٹر نذیر احمد ندوی

ہزار بار بشویم دہن زمشک وگلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبیست
نعت نبیؐ یا مدح رسولؐ ایک مؤمن شاعر کا سرمایۂ آخرت اور ’’متاع مغفرت‘‘ ہے نیز حب نبیؐ کا بین ثبوت اور عشق رسولؐ کی روشن دلیل ہے، ہر دور میں باذوق اہل سخن بارگاہ رسالت مآب میں نذران�ۂ عقیدت پیش کرتے رہے ہیں، اس زریں سلسلہ کا آغاز دور نبوی ہی سے حضرت حسان بن ثابت، عبد اللہ بن رواحہ، اور کعب بن مالک جیسے شعراء صحابہ کے ذریعہ ہوگیا تھا جن کے کلام بلاغت نظام کو دربار نبوۃ سے سند توصیف و تائید بھی حاصل ہوئی، پیغمبر اسلام کے دفاع اور اس پیغام رسانی نیز شرح و ترجمانی کے صلہ میں زبان نبوت سے جن کے حق میں دعائیہ کلمات نکلے جس کی بدولت یہ ’’شعرائے رسول‘‘کے معزز لقب سے سرفراز ہوئے، یہ مبارک سلسلہ بلا انقطاع تا ہنوز جاری ہے۔
آپ محبوبیت نعت کا اندازہ کریں:۔ گرم اس دور میں ہے محفل حسانؓ رسول (علیمؔ عثمانی)
ایک مسلم کو کمال ایمان اسی وقت عطا ہوتا ہے جب وہ عشق نبیؐ سے سرشار ہوجاتا ہے، دل و جان سے آپؐ پر نثار ہونے کے لئے بے قرار اور آپؐ کا ہر حکم بجالانے کے لئے تیار ہوجاتا ہے، اسی لئے وہ ہم دم سے تابع فرماں، منتظر اشارۂ چشم رہتا ہے، فیصلۂ نبوی کے سامنے سپر اندازی، اپنی ہر خواہش نیز عفا و آرزو سے دست برداری اختیار کرلیتا ہے، اس کی ہر ادا آپؐ کی فرماں برداری اور تابعداری کی عکاسی نیز آپؐ سے پختہ ارادت اور گہری عقیدت کی غمازی کرتی ہے، خدا وند قدوس کا ارشاد ہے:’’ فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فی ما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی أنفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما‘‘ آ پ کے پروردگار کی قسم یہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہونگے جب تک یہ اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو حکم وثالث نہ بنالیں اور آپؐ کے فیصلہ سے اپنے دل میں ذرا بھی تنگی محسوس نہ کریں اور مکمل طور پر اسے تسلیم نہ کرلیں ۔
نعت گوئی ایک نہایت نازک اور بے حد حساس موضوع ہے، جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے، یہ وہ ’’پر پیچ‘‘ راہ ہے جس میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے اور ہر لحظہ توازن واعتدل ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
مقام مسرت ہے کہ ہمارے محسن وکرم فرما مخدوم معظم جناب ڈاکٹر علیمؔ عثمانیؒ جو نہ صرف روایتی غزل کے معروف و مقبول شاعر تھے بلکہ نعتیہ شاعری میں اپنے ہم عصروں کے درمیان ایک منفرد مقام رکھتے تھے ، خود موصوف اپنے بارے میں فرماتے ہیں؂
اے علیمؔ اس میں گنجائش شک نہیں، یہ ہے سب رحمت رحمۃ للعالمیں
آپ جیسے اسیران زلف غزل نعت کی صنف میں طارق فن ہوگئے۔

نعت گوئی میں شہرت نہ پائیں علیم ؔ اپنے فن کی مگر آبرو ہم بھی نہیں۔

لکھتا تھا جو توصیف بتاں میں وہ علیمؔ اب
کچھ دن سے ادھر شاعر دربار نبیؐ ہے
بلاشبہ ڈاکٹر صاحب اس راہ سے نہایت کامیابی سے گذرے ہیں اور بے حد خوش اسلوبی کے ساتھ اس موضوع کے حق کی ادائیگی سے عہدہ برآں ہوئے ہیں، انہوں نے بجا طور پر کہا ہے :
بیش کہئے تو لگے ماتھے پہ داغ تشریک
مطمئن دل نہیں ہوتا ہے اگر کم کہئے ۔ 
ڈاکٹر صاحب کے نعتیہ کلام کے مطالعہ سے ان کی شریعت کے بنیادی مآخذ: قرآن و حدیث سے گہری واقفیت کا اندازہ ہوتا ہے جس کا ثبوت ان کے وہ معنی خیز اشعار ہیں جنہیں بطور نمونہ درج ذیل کیا جارہا ہے۔
اس دور میں ثواب وہ پا ئے گاسو شہید کا
جس میں بھی پائی جائے گی آپؐ کی اک ادا فقط
حد کن فکاں میں کوئی بھی نہیں جو 
ہمارے نبی کی طرح دلربا ہو
بالاتفاق سب سے حسیں دو جہاں میں ہیں
وہ آمنہ کے چاند و ہی عائشہ کے پھول
طائف میں جسنے جسنے نے کیا تھا لہولہان
برے اسی اسی پر نبیؐ کی دعا کے پھول
دین نبی کی راہ میں جو ہوگئے شہید
تاحشر خشک ہوں گے نہ ان کی بقا کے پھول
ہم تو انہیں کے عارض انور پہ ہیں نثار
قرآن کے بقول جو ’’والضحٰی‘‘ کے پھول
جناب ڈاکٹر علیمؔ عثمانی صاحب کی حیات مستعار ہی میں ان کے ایماء ، ومشورہ سے ان کے نعتیہ کلام کا ایک مجموعہ مرتب ہوگیا تھا جس پر حضرت عنبر شاہ واثی نے عارفانہ انداز میں اور جناب مولانا سید سلمان حسینی ندوی مد ظلہ العالی نے اپنے ادیبانہ قلم سے میری فرمائش پر تقریظ لکھی تھی، یہ مجموعہ باقاعدہ کتابت و طباعت کے مراحل سے گذرنے بھی نہ پایا تھا کہ جس’’بارگاہ فن‘‘ میں یہ شعری سرمایہ محفوظ تھا وہ ایک شب طوفان باد و باراں میں زمین بوس ہو گئی، جس کے ملبے تلے یہ سرمایہ نذر خاک دآب ہوگیا، اس طرح ان کے نعتیہ کلام کا یہ مجموعہ زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آنے سے رہ گیا جس کے نتیجہ میں تشنہ کامان عشق رسولؐ ان گلہائے عقیدت سے مشام جاں معطر کرنے سے محروم رہ گئے، جو انہوں نے بارگاہ نبوت میں پیش کئے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کی وفات حسرت آیات کے بعد کافی جد وجہد اور تلاش بسیار کے بعد ان کے اس نعتیہ کلام کو یکجا کیا جو کہ گردش دوراں اور دست برد زمانہ سے محفوظ رہ گیا تھا ، اس کی ترتیب و تسوید میں کافی عرق ریزی کے بعد اس شعری ورثہ کی حفاظت کی صو رت نظر آئی ایک مختصر نعتیہ مجمو عہ متاع مغفرت کی شکل میں۔ امید ہے کہ نعتیہ کلام کا یہ مجموعہ شوق کے ہاتھوں سے لیا جائے گا اور عشق کی نگاہوں سے پڑھا جائے گا۔(یو این این)

شعبۂ عر بی ندوۃ العلماء ،لکھنؤ

«
»

تیرے حسن خلق کی ایک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی

ملک کی تقسیم کا ذمہ دار کون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے