از: ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
(ماخوذ: فضلائے ندوہ کی قرآنی خدمات)
ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ندوۃ العلماء کے ان فاضل فرزندوں میں ہیں جن کا نام تاریخ علم و ادب اور ہندوستان کی تاریخ ترجمہ نگاری کا حصہ بن چکا ہے، اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے اپنی عمر سے زیادہ علمی خدمات انجام دی ہیں تو بے جا نہ ہوگا، ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے اسباب کیاہیں مگر یہ بات مسلَّم ہے کہ علمی حلقوں میں ان کی ضخیم علمی خدمات کا شایان شان تعارف نہیں ہے۔
عبدالحمید اطہر ندوی کی ولادت کرناٹک کے مردم خیز شہر بھٹکل میں ہوئی، ان کے والد کا اسم گرامی عبدالرحیم رکن الدین ہے، انھوں نے ۱۹۹۷ء میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل سے عالمیت کی، پھر وہ ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے اور وہاں تخصص فی الادب العربی و تخصص فی الحدیث کی سند حاصل کی، بعد ازاں لکھنؤ یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔
وہ ٹریننگ کورس کے لیے ’’معہد النور کویت‘‘ میں بھی کچھ عرصہ مقیم رہے، ان کی عملی زندگی کی ابتدا جمعیت شباب الاسلام سے ہوئی، کچھ عرصہ اس سے وابستہ رہے پھر بھٹکل کی مولانا ابو الحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی میں ۲۰۰۲ تا ۲۰۰۶ء خدمات انجام دیں، اب وہ تجارت سے وابستہ ہیں، اعزازی طور پر جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں ادب عربی کی تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں، جامعہ اسلامیہ کی مجلس عاملہ کے رکن بھی ہیں۔
ڈاکٹر عبد الحمید اطہر کی کتابیں جس کثرت سے شائع ہوئی ہیں، اس سے تعجب کی انتہا نہیں رہتی کہ آخر وہ کس وقت لکھتے ہیں، اور ان کے وقت میں اللہ نے کس قدر برکت دی ہے، ان کا اصل میدان عربی سے اردو اور نوائطی زبان میں ترجمہ ہے، ان کی اب تک سو سے زائد کتابیں اور رسائل منظر عام پر آچکے ہیں، ان کے یہاں موضوعات کا تنوع ہے لیکن چونکہ انھوں نے خاص طور پر شیخ نادر النوری، شیخ جاسم المطوع، ڈاکٹر مصطفی محمد طحان، مولانا سید سلمان حسینی ندوی اور ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی وغیرہ سے استفادہ کیا ہے، اس لیے بنیادی طور پر ان کی کتب کے موضوعات اصلاحی، تربیتی اور فکری ہوتے ہیں، انھوں نے نوجوانوں کی اصلاح و تربیت اور ان میں تحریکی مزاج پیدا کرنے کے لئے بھی متعدد کتابوں کا ترجمہ کیا ہے، ادب اسلامی کے نمائندہ اہل قلم کی کتابوں کا ترجمہ کیا ہے، بلکہ بعض عربی ناول کو بھی اردو کا قالب دیا ہے، فکر اسلامی کی کتب کو اردو میں منتقل کیا ہے، ان کی ایک قرآنی خدمت یہ ہے کہ وہ بھٹکل سے نکلنے والے بچوں کے ماہنامہ ’’پھول‘‘ کے لیے مسلسل قرآنیات کا کالم لکھتے ہیں، جس میں بچوں کی نفسیات کا خیال رکھتے ہوئے منتخب آیات کا ترجمہ و تشریح کرتے ہیں۔
یہاں عبدالحمید اطہر صاحب کے تذکرہ کی وجہ ان کی وہ خدمات ہیں جن کا تعلق براہ راست قرآن مجید سے ہے، اس سلسلہ میں انھوں نے دو کام کیے ہیں اور دونوں ہی بہت وقیع اور اہمیت کے حامل ہیں، ذیل میں ان کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
نوائطی معانی قرآنی:
بھٹکل اور اس کے اطراف میں تقریبا ۱۵۰/ کلو میٹر کے علاقہ میں نوائطی زبان بولی جاتی ہے، یہ زبان تقریبا صرف مسلمانوں کی زبان ہے، اس پر کوکنی اور مراٹھی زبان کے خاصے اثرات ہیں، یہاں جو قوم نوائط آباد ہے، اس کا سلسلہ نسب عام طور پر عربی یمنی قبائل، قبیلۂ قریش اور بعض دیگر عرب قبائل سے ملتا ہے، ان میں سے جو لوگ دوسری زبانیں نہیں سمجھتے ہیں ان کے لیے عبدالحمید اطہر صاحب نے پیغام قرآن کو نوائطی زبان میں منتقل کرکے بڑی اہم خدمت انجام دی ہے، نوائطی زبان میں ان کے اس ترجمہ کے دو ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، پہلا ایڈیشن رمضان ۱۴۳۸ھ میں شائع ہوا اور دوسرا بھی حال ہی میں آیا ہے، عبدالحمید اطہر صاحب کی تصریح کے مطابق متن قرآن کا براہ راست عربی سے نوائطی زبان میں ترجمہ کیا گیا، البتہ دوران ترجمہ عربی تفاسیر سے استفادہ کیا گیا، پھر نظر ثانی کے دوران متعدد اردو تراجم و تفاسیر کو نہ صرف سامنے رکھا گیا بلکہ ان سے قابل قدر استفادہ بھی کیا گیا، ان میں سر فہرست تفہیم القرآن، تفسیر ماجدی اور ترجمہ شیخ الہند ہے، پھر مفتی تقی عثمانی، مولانا سید سلمان حسینی ندوی اور مولانا بلال حسنی ندوی کے تراجم ہیں۔
نظرات فی کتاب اللہ:
نظرات فی کتاب اللہ ۱۳۰۰/ صفحات پر مشتمل دو ضخیم جلدوں میں معروف اسلامی اسکالر، مجاہدہ اور اخوانی خاتون محترمہ زینب الغزالی الجبیلی کی تفسیر ہے، عبدالحمید اطہر صاحب کے قلم گہر بار سے اس کا ترجمہ تین جلدوں میں چھپ کر منظر عام پر آیا ہے، یہ ترجمہ ابھی جلد ہی طبع ہوا ہے، محترمہ کی یہ تفسیر زمانہ قید وبند میں کتاب اللہ کی تلاوت اور اس میں تفکرو تدبر کا نتیجہ ہے، اس تفسیر میں اختصار کا لحاظ رکھا گیا ہے، عام فہم اسلوب اختیار کیا گیا ہے، تفسیر ماثور سے قابل قدر استفادہ کیا گیا ہے، زینب الغزالی نے تفسیر القرآن بالقران کا بھی اس میں اچھا نمونہ پیش کیاہے، اس میں اصالہ کے ساتھ معاصرت کا پہلو غالب ہے، آیات کی تشریح عصری تناظر میں کرنے کی کوشش کی گئی ہے، حقوق نسواں، نسائی فکر اور خواتین کے مسائل سے متعلق اس میں خاطر خواہ گفتگو کی گئی ہے، جس کی وجہ صاف ہے کہ یہ ایک خاتون کی تالیف ہے اور کہا جا سکتاہے، کہ ایک خاتون کے قلم سے نکلی ہوئی پہلی مفصل ومکمل تفسیر ہے، اس تفسیر کو اسکا عصری اور دعوتی پہلو دیگر تفسیروں سے ممتاز کرتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مولفہ بذات خود معاصر مسائل کو حل کرنے والی تحریک کا حصہ رہی ہیں، اور اپنی زندگی دعوت کی راہ میں گزاری ہے۔
یہ تفسیر نہ صرف خواتین کے لیے، بلکہ دعوت کے میدان میں سر گرم عمل لوگوں کے لیے خاص طور پر اور پورے اردو خواں طبقہ کے لیے عام طور پر ایک بڑا بیش قیمتی تحفہ ہے، جس طرح نوائطی زبان میں پہلے ترجمہ قرآن کا اعزاز عبدالحمید اطہر صاحب کو حاصل ہوا اسی طرح یہ اہم قرآنی خدمت بھی ان ہی کے حصہ میں آئی، انھوں نے آیات کے ترجمہ کے لیے مولانا مودودی کے سلیس و عام فہم ترجمہ کو ترجیح دی اور اسی کا انتخاب کیا، البتہ دوران تفسیر مذکور آیات کے ترجمہ میں دیگر تراجم سے بھی استفادہ کیا ہے۔
جواب دیں