ڈاکٹر وحید انجم کی انسانیت نواز افسانچہ نگاری

بالکل ایسا ہی معاملہ صنفِ افسانچہ کا ہے۔قلم کاروں، خصوصاًافسانہ نگاروں کی بھیڑ میں ایک افسانچہ نگاربھی جیسے ادب کے خاموش جنگل میں چہچہاتا رہتا ہے اور اپنی مختصر سی خیال آفرینی کے ذریعہ چند لمحات کے لیے سہی، قاری کو مسحور کر تا رہتا ہے۔عقاب یا کسی خونخوارپرندے کا حوالہ بھی یہاں بے معنی نہیں ہے، اِس لیے کہ اِدھر کچھ دنوں سے افسانچہ نگاری کے فن پر بھی بے جا قسم کے بلکہ خونخوار قسم کے حملے ہو رہے ہیں۔ مثلاً ، ہندوستان کے مشہور افسانچہ نگار ڈاکٹر ایم اے حق صاحب نے فیس بک کی اپنی ٹائم لائن پر کسی پروفیسرکا یہ بیان(کہ اُردو افسانچہ، ادب میں ایک نا جائزاولاد کی حیثیت رکھتا ہے) نقل کیا تو اِس کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اِس کی حمایت میں بھی خاصی تعداد میں رائیں آئی تھیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ افسانچہ نگاروں کی حوصلہ شکنی کا ایک خاموش عمل ادبی معاشروں میں بہرحال موجود ہے اور قابل افسانچہ نگاروں کو ہراساں کرتا رہتا ہے ۔مبارکباد کے مستحق ہیں وہ افسانچہ نگارجو ایسی تمام تر مکروہات سے بے نیازو بے خوف ہو کر مذکورہ مترنم چڑیا کی طرح اپنی دِل نشین چہچہاہٹ کی لے بلند کرنے میں پابندی کے ساتھ مصروف ہیں۔

کرناٹک میں اُردو ادب کی زرخیر زمین گلبرگہ(نیا نام کلبرگی) کے متوطن افسانچہ نگار ڈاکٹر وحید انجم صاحب کا شمار بھی ایسے ہی با ہمت افسانچہ نگاروں میں ہوتا ہے۔مترنم چڑیا کے ترنم جیسی کیفیت ڈاکٹر وحید انجم صاحب کے افسانچوں کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی اِن کے قارئین پر طاری ہو جاتی ہے۔اور یہی اُن کے ایک کامیاب افسانچہ نگار ہونے کی دلیل ہے۔ 
ڈاکٹر وحید انجم صاحب کی تازہ کتاب’’تماشائی‘‘ میں سب سے چھوٹا افسانچہ ۱۵؍ الفاظ پر مشتمل ہے ، مگر کئی کہانیوں پر بھاری ہے۔اور سب سے بڑا افسانچہ بھی ایک صفحہ سے زیادہ کا نہیں۔مطلب یہ کہ ڈاکٹر صاحب نے ہئیتِ افسانچہ کی حدودکا شعوررکھتے ہیں اور ایک ایماندار افسانچہ نگار ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ انہوں نے فنکارانہ سطح پر اپنی ذات میں برپا انسانیت نواز لہروں کے اِظہارکے لیے افسانچوی فارم کا کامیاب استعمال فرمایا ہے، جیسا کہ کسی انگریزی مفکر کا یہ قول ہے:”Short story writers may define their works as part of the artistic and personal expression of the form.(یعنی،مختصر کہانی (افسانہ یا افسانچہ) لکھنے والے اپنے کام کی وضاحت فارم کی فنکارانہ اور ذاتی اِظہار کے حصہ کے طور پر کر سکتے ہیں)،ڈاکٹر وحید انجم اِس قول کی صداقت کا ثبوت اپنے افسانچوں کے حوالے سے پیش فرماتے ہیں۔
اپنے مجموعہ کے لیے ڈاکٹر موصوف نے جو نام تجویز فرمایا ہے،وہ بھی خاصہ معنی خیز ہے۔’’تماشائی‘‘ اور’’مشاہد ‘‘ میں جو فرق ہے اُسے ڈاکٹر صاحب خوب سمجھتے ہیں ۔ تماشائی کبھی کسی گہرے مشاہدے کا متحمل نہیں ہو سکتا ،بلکہ راہ چلتے چلتے کسی منظر سے ایک ہلکا سا تاثر لے کر گزر جاتا ہے۔ایک تماشائی کی حیثیت سے اُنہوں نے اپنے اطراف و جوانب میں جو مناظر دیکھے ہیں، اُنہیں وہ ایک تماشائی کی حیثیت سے ہی دیکھے ہیں۔لیکن چونکہ وہ ایک عام تماشائی ہی نہیں ،بلکہ ایک تخلیق کار بھی ہیں تو انہوں نے اپنے تماشائی ہونے کی حیثیت کو بدل کر ایک مشاہد قلمکار کا فریضہ نبھایا ہے اور اپنے مشاہدات کو مختصر مگر جامع افسانچوں میں ڈھال دیا ہے۔ چنانچہ معمولی سے معمولی مشاہدے کو فکر انگیزی عطا کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب کسی نکتے کو اختصار سے بیان کر کے گزر جاتے ہیں ، تو اِس کا اثر بہت دیر تک قاری کے ذہن و قلب پرمترتیب رہتاہے۔کمال کی بات یہ ہے کہ کہانی بیان کرتے ہوئے وہ کبھی اپنے اسلوب سے سمجھوتہ نہیں کرتے۔ اپنی زبان کے رکھ رکھاؤکا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔
ڈاکٹر وحیدانجم صاحب کی افسانچہ نگاری میں فکر کی جو رَوکارفرما ہے وہ بلا شبہ اِنسانیت نواز احساسات اور جذبات سے مملو ہے۔ اُن کے افسانچوں میں کہیں حرص و ہوس ،بے ایمانی، انا پرستی، ظلم و ستم اور جوڑ توڑکی صورتحال پر کاٹ دار تبصرہ ملتا ہے(افسانچہ بعنوان بے خبر)،تو کہیں وہ بڑھاپے کی مکروہات کااحاطہ کرتے نظر آتے ہیں (افسانچہ بعنوان بال ہٹ)۔ موجودہ دورکے قانون بیزار کرب زدہ ،بے چین و بے راہ رو انسان کا ذکرنہایت ہی کرب آگیں اُسلوب میں کرتے ہیں، جسے نہ دیش کے قانون کی پرواہ ہے نہ خدا ہی کے قانون سے کوئی غرض(افسانچہ بعنوان :کر ب و انتشار)۔ ایک افسانچہ (بعنوان :وحشی) میں وہ اِنسان کے پیدائشی وحشی ہونے کی جبلّی حقیقت بیان کرتے ہیں جس کے وحشی پن کو،بقول ڈاکٹر صاحب تعلیم و تربیت، مذہب اور دُنیوی بندیشیں سرے سے ختم نہیں کر سکتیں۔(افسانچہ بعنوان :تعلیم اور ڈگری)میں وہ حقیقی تعلیم اور اخلا ق کے درمیان کے تعلق کا ذکر فرماتے ہیں اورہمدردی محبت اور ایثار کے جذبات کے حوالے سے اِنہیں ضروری سمجھتے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ سند یا فتہ (ڈگری ہولڈر) بن کر کرسی تو مل جاتی ہے مگراِس کے لیے اخلاق اور انسانیت کو کھو دینا پڑتا ہے ۔ کہیں وہ خدمت خلق کی اہمیت واضح فرماتے ہیں اور خادم کے حقیقی تصورسے روشناس کراتے نظر آتے ہیں(افسانچہ بعنوان :خادم)۔ ہارٹ اٹیک سے بوڑھے والدین کی اچانک موت کو وہ جدید دور کے خود غرض اور نافرمان بچوں کے لیے ایک نعمت کہہ کرایک ایسا کربناک طنزکرتے ہیں کہ جسے پڑھ کر جسم پر رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔(افسانچہ بعنوان :نجات)۔
(افسانچہ بعنوان :مہر ہ )میں ہمارے کرپٹ معاشرے کی وہ بھیانک تصور دکھاتے ہیں۔دور حاضر کے تاجران کے ذوقِ اشتہاریت کی دیکھا دیکھی، تعلیمی اداروں کے بھی اِس میدان میں کود پڑنے کی تشویش ناک لہر پروہ ملو ل نظر آتے ہیں(افسانچہ بعنوان :اشتہاری دنیا )۔
ہم نے یہ چندمثالیں مشتے از خروارے ہی پیش کی ہیں، ورنہ قارئین کو ڈاکٹر صاحب کے ہر افسانچہ میں کوئی نہ کوئی اِنسانیت نوازپیغام ضرور ملے گا۔اُن کے افسانچوں کے درجِ ذیل عنوانات سے اُن کے دائرۂ مشاہدہ کی وسعت کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں:
"صلے کی پر وا۔۔۔دوراندیش۔۔۔تعلیمی شاپ ۔۔۔کر دار۔۔۔اپنی بستی ۔۔۔سخی داتا۔۔۔دعوٰے دار۔۔۔دو باتیں ۔۔۔المیہ۔۔۔تب اور اب۔۔۔بدلتے رنگ۔۔۔خاک سے خاک تک۔۔۔ماسٹر مائنڈ ۔۔۔کلرک ۔۔۔عمر رفتہ ۔۔۔بارش۔۔۔مہر ہ۔۔۔بے آواز گھنٹی ۔۔۔زبان۔۔۔اشتہاری دنیا۔۔۔پڑوسی ۔۔۔بازار زیست۔۔۔زحل کی چال۔۔۔ذائقہ ۔۔۔ہندی مسلما ن۔۔۔ وغیرہ ، وغیرہ ۔بیٹی اور عورت کے عناوین پر ایک سے زائد افسانچے شاملِ مجموعہ ہیں،جن میں صنفِ نازک کے ساتھ روا کھے جانے والے سلوک کی کرب ناک جھلکیاں نظر آتی ہیں۔
چلیے،صنفِ افسانچہ نگاری پرجس کے بارے میں ڈاکٹر وحید انجم صاحب کا خیال ہے اور بجا طور پر ہے کہ کرناٹک میں اس صنف پر کام بہت کم ہوا ہے ، لگ بھگ ایک سو افسانچوں پرمشتمل ڈاکٹر وحید انجم صاحب کی تازہ ترین کتاب’’تماشائی‘‘غالب کالونی جیلان آباد گلبرگہ سے اُردو کے شائقین کی خدمت میں بڑے طمطراق کے ساتھ پیش ہونے جا رہی ہے۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ افسانچہ کی صنف پر ڈاکٹر وحید انجم کی طبع آزمائی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
دُعا کرتا ہوں کہ اللہ ڈاکٹر وحید انجم کی عمر میں برکت دے، تاکہ وہ اِسی طرح اپنی بے لوث خدمات سے اُردو ادب کو سرشار فرماتے رہیں۔آمین۔

«
»

اس گھر کو آگ لگ گئی……………….

ٹیپوسلطان بمقابلہ سنگھ پریوار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے