دوستوں کے انتخاب میں حکمت سے کام لیجیے

 

ڈاکٹر سراج الدین ندوی

دوستوں کے بغیر انسان کی زندگی ادھوری ہے۔ ہر انسان کو ایسے دوست کی ضرورت پڑتی ہے جس کے ساتھ وہ اپنے دکھ درد کو بانٹ سکے، آڑے وقت میں ان سے مشورہ کرسکے ضرورت کے وقت دوست بھی اس کے کام آسکے۔دوستوں کے انتخاب میں آدمی کو بہت حساس ہونا چاہیے۔ اچھے دوست آدمی کو اچھائیوں کی طرف لے جانے میں اور برے دوست آدمی کو برائیوں کی طرف لے جانے کا سبب بنتے ہیں۔آپ دوستی کے لیے ایسے ساتھیوں کا انتخاب کیجئے جو ہر اعتبار سے بہت نیک مخلص اور خیر خواہ ہوں۔ اخلاق وکردار میں بہت نمایا ں ہوں اور عمل صالح کی دولت سے مالا مال ہوں، قرآن پاک میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے دوست اور ولی بن کر رہیں۔ ارشاد ربانی ہے:”مومن مرد اورمومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور مددگار ہیں۔“ٍ(التوبہ:71)
خود بھی دوستوں سے ٹوٹ کر محبت کیجئے۔ ان سے خلوص اور وفاداری کا معاملہ کیجئے۔ ان کے لیے سراپامحبت بن جائیے۔ وہ لوگ خوش نصیب ہیں جو دوسروں سے محبت کرتے ہیں اور دوسرے ان سے محبت کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ نہایت بدنصیب ہیں جو نہ دوسروں سے محبت کرتے ہیں اور نہ دوسرے ان سے محبت کرتے ہیں۔پیارے نبیﷺ نے فرمایا:”مومن سراپا الفت ومحبت ہے اور اس آدمی میں کوئی بھلائی نہیں جو نہ تو دوسروں سے محبت کرے اور نہ دوسرے اس سے محبت کریں۔“
پیارے نبیؐ اپنے صحابہؓ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ہر صحابی یہ سمجھتا تھا کہ اللہ کے رسولؐاس سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ بھی آپؐ سے بہت محبت کرتے تھے۔ آپؐ کے اشارہ پر جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ آپ ؐ کی ذرا سی تکلیف پر پریشان ہواٹھتے تھے۔ جب مشرکین نے حضرت زید بن دثنہؓ کو قتل کرنے کے لیے تیاری مکمل کرلی تو ابوسفیان نے زید بن دثنہؓسے پوچھا: ”اے زید خدا کو گواہ بناکر بتاؤ کیا تم یہ پسند کرو گے کہ آج تمہارے بجائے ہمارے پاس محمدؐہوتے تاکہ ان کا سر قلم کردیا جاتا اور تم کو ہم چھوڑ دیتے اورتم اپنے بال بچوں میں ہوتے؟“ حضرت زیدؓ نے کہا:”خدا کی قسم! میں یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ محمدؐ اس وقت جہاں پر ہیں وہیں ان کے پیر میں کانٹا چبھوکر مجھے رہا کردیا جائے تاکہ میں اپنے اہل وعیال میں بیٹھوں۔“یہ سن کر ابوسفیان پکاراٹھا:”میں نے کسی آدمی کو کسی سے اتنی محبت کرتے ہوئے نہیں دیکھا جتنی محبت محمد ﷺسے ان کے اصحاب کرتے ہیں۔“(بیہقی)
 دوستی میں بھی اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کا خیال رکھئے۔ صرف خدا کے لیے محبت کیجئے۔ابوداؤد کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:”خدا کے کچھ بندے ایسے ہیں جو نہ نبی ہیں اور نہ شہید لیکن خدا قیامت کے دن ان کو ایسے درجات عطا فرمائے گا کہ انبیاء اور شہدا بھی ان کے درجات پر رشک کریں گے۔ صحابہؓ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول یہ خوش نصیب کون ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہوں گے جو آپس میں خدا کے دین کی بنیاد پر محبت کرتے تھے۔ نہ یہ آپس میں رشتہ دار تھے نہ ان کے درمیان کوئی مالی لین دین تھا۔خدا کی قسم قیامت کے دن ان کے چہرے نور سے جگمگارہے ہوں گے بلکہ سراپا نور ہوں گے۔ جب تمام لوگ خوف سے کانپ رہے ہوں گے تو انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اور جب تمام لوگ غم میں مبتلا ہوں گے تو انہیں کوئی غم نہ ہوگا۔ پھرآپ نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی: أَلا إِنَّ أَوْلِیَاءَ  اللّہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ(یونس:62)”سنو! اللہ کے دوستوں پر اس روز نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ انہیں کوئی غم“۔
دوستوں کے ساتھ ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آئیے۔ جب وہ آپ سے ملنے آئیں تو مسکراہٹ اور تپاک کے ساتھ ان کا استقبال کیجئے۔ جب آپ ان سے ملنے جائیں تو مسرت وخوشی کا اظہار کیجئے۔ ملاقات کے وقت روکھے پن اور لاپرواہی سے پرہیز کیجئے۔ افسردہ چہرہ اور بجھے دل کے ساتھ ان سے نہ ملئے کہ ان کا شیشہئ دل ٹوٹ جائے۔پیارے نبیؐ نے فرمایا:”اپنے بھائی کو دیکھ کرمسکرادینا بھی صدقہ ہے۔“ (ترمذی) 
دوستوں کے دکھ درد میں شریک رہیے۔ ان کی خوشیوں میں بھی حصہ لیجئے۔ ان کی مسرتوں میں اضافہ کا سبب بنئے۔ ان کی خوشی کی تقریبات کو بحسن وخوبی انجام تک پہنچانے کے لیے تن من دھن سے مصروف رہیے۔ اگر وہ کسی مصیبت کے شکار ہوجائیں تو صرف زبانی ہمدردی جتا کر نہ رہ جائیے بلکہ عملاً ان کی مصیبت کو دور کرنے یا ہلکاکرنے کی کوشش کیجئے۔ ان کا غم دورکیجئے۔نبی کریم ﷺ نے اہلِ ایمان کی اس خوبی کو یوں بیان فرمایا:”مسلمانوں کی مثال آپس میں محبت کرنے،ایک دوسرے پر رحم کرنے اور ایک دوسرے کی تکلیف کے احساس کے سلسلے میں ایسی ہے جیسے ایک جسم کہ اگر اس کا کوئی عضو بیمار پڑتا ہے تو سارا جسم بخار اوربے خوابی میں اس کاشریک رہتا ہے۔“(بخاری ومسلم)
دوستوں کے ساتھ خشک مزاج اور مردہ دل بن کر نہ رہیے۔ منہ بسور نے، ناک بھوں پھلانے سے پرہیز کیجئے۔ مزاح ولطافت اور مناسب ہنسی مذاق بھی کیجئے تاکہ دوست اکتاہٹ محسوس نہ کریں بلکہ آپ کی شخصیت میں کشش اور جاذبیت محسوس کریں۔ شعر وشاعری اور قصہ ولطائف سے اپنی محفلوں کو پر لطف بنائیے۔ حضرت بکربن عبداللہ صحابہ کرامؓ کی بے تکلفی اور خوش طبعی کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”صحابہ کرامؓ  ہنسی اور تفریح کے طور پر ایک دوسرے کی طرف تربوز کے چھلکے پھینکا کرتے تھے۔“(الادب المفرد)حضرت عبداللہ بن حارث ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے آپؐ سے زیادہ کسی کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔حضرت عبدالرحمنؓ فرماتے ہیں کہ اصحابِ رسولؐ نہ خشک مزاج تھے اور نہ مُردوں جیسی چال چلتے تھے۔ وہ اپنی مجلسوں میں شعر وشاعری بھی کرتے، دورِ جاہلیت کے قصے کہانیاں بھی سناتے لیکن جب ان سے کسی معاملے میں حق کے خلاف کسی بات کا مطالبہ ہوتا تو ان کی پتلیاں غصہ سے اس طرح پھر جاتیں کہ جیسے ان پر جنون کی کیفیت طاری ہے۔(الادب المفرد)
حضرت محمد بن زیادؒسلفِ صالحین کی بے تکلفی اور زندہ دلی کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ میں نے سلفِ صالحین کو دیکھا ہے کہ ان کے کئی کئی کنبے ایک ہی حویلی میں رہتے تھے۔ بارہا ایسا ہوتا کہ ان میں سے کسی کے یہاں مہمان آتا اور کسی دوسرے کے یہاں چولہے پر ہانڈی چڑھی ہوتی تو مہمان والا دوست اپنے مہمان کے لیے ہانڈی اتار لے جاتا۔ بعد میں ہانڈی والا اپنی ہانڈی کو ڈھونڈتا پھرتا اور لوگوں سے پوچھتا پھرتا کہ میری ہانڈی کون لے گیا ہے؟ وہ دوست بتاتا کہ بھائی ہم اپنے مہمان کے لیے لے گئے ہیں۔ ہانڈی والا کہتا:”خدا تمہیں اس میں برکت دے۔“محمد بن زیاد فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جب روٹی پکاتے تب بھی یہی صورت پیش آتی۔
ایک بار نبی کریم ﷺ صحابہ کرامؓ کے ساتھ کھجوریں کھارہے تھے۔ صہیب رومیؓ بھی کھجوریں کھانے میں شریک ہوگئے۔ ان کی ایک آنکھ میں آشوبِ چشم کی بیماری تھی۔ کسی نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ صہیب رومیؓ کی آنکھ آئی ہوئی ہے اور وہ کھجوریں کھارہے ہیں (آنکھ کی تکلیف میں کھجوریں نقصان دیتی ہیں) حضرت صہیبؓ برجستہ بولے میں اس طرف سے کھارہا ہوں، جس طرف کی آنکھ ٹھیک ہے۔ اس جواب پر تمام صحابہ محظوظ ہوئے۔
کبھی کبھارپکنک اور سیروسیاحت کا بھی پروگرام بنائیے۔ ساتھ مل کر کھانے پینے کا بھی اہتمام کیجئے۔مگر بے جا تکلفات اور فضول خرچی سے اجتناب کیجئے۔ نبی کریم ﷺ بھی اپنے دوستوں کی دعوت کرتے اور ان کی دعوت کو بھی قبول فرماتے۔ جب جنگل میں کھانا بنانا ہوتا تو خود بھی کھانا بنانے میں شریک رہتے او ر لکڑیاں چن کر لاتے اور پکنک کا لطف اٹھاتے۔
 دوستوں کو ہدیے تحفے دیجئے۔تحفوں کے انتخاب میں اپنی پسند کی بجائے ان کی پسند کو ترجیح دیجئے۔ تحفوں کے تبادلہ سے دوستی گہری ہوتی ہے،محبت میں اضافہ ہوتاہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو اس سے محبت پیدا ہوگی اور کدورت دور ہوگی۔“ (مشکوٰۃ)یہ ضروری نہیں کہ آپ قیمتی ہدیہ ہی دیں۔ ہدیہ کی قیمت خلوص ومحبت میں اضافہ نہیں کرتی بلکہ وہ مخلصانہ جذبات دلوں کو جوڑتے ہیں جن کے پیش نظر ہدیہ دیا جاتا ہے۔ ہدیہ کی وقعت کااندازہ اس کی قیمت سے نہیں بلکہ اخلاص کی کیفیت سے لگائیے۔ دوستوں کے معمولی تحفہ کی بھی قدر کیجئے۔ کسی ہدیہ کو بھی حقیر نہ سمجھئے۔پیارے نبیؐ اپنے دوستوں کو کثرت سے تحفے دیتے۔ صحابہ کرام ؓ  بھی آپ کو تحفے دیتے اور آپس میں بھی تحفوں کاتبادلہ کرتے۔
دوستوں کے راز کو راز رہنے دیجئے۔ ان کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہ پہنچائیے۔ خود بھی دوستوں سے اپنے مسائل میں مشورہ لیجئے اور وقت طلب انہیں اچھا اور مفید مشورہ دیجئے۔ دوستوں کے لیے ہمراز بنئے اور بنائیے۔ کبھی بھی دوستوں کے راز کو فاش نہ کیجئے۔اگر دوست کا کوئی عیب علم میں آئے تو اس کی پردہ داری کیجئے۔ ایک بار نبی کریم ﷺ منبر پر چڑھے اور نہایت بلند آواز میں حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا:”مسلمانوں کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائیوں کے عیوب کے درپے ہوتا ہے پھر خدا اس کے عیوب کو تشت ازبام کرنے پر تل جاتا ہے اور خدا جس کے عیوب فاش کرنے پر تل جائے تو اس کو رسوا کرکے ہی چھوڑتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر گھس کر ہی کیوں نہ بیٹھ جائے۔“(ترمذی) حضرت عمرؓ نے فرمایا: ”تمہاراسب سے اچھا دوست وہ ہے جو تحفے میں تمہارے عیوب بتائے۔“
دوستی اور تعلقات بنائے رکھنے میں ہمیشہ اعتدال اور توازن بنائے رکھئے۔زیادہ بے تکلفی اور حدسے تجاوز کبھی کبھی تعلقات میں تلخی اوردست درازی کا سبب بن جاتے ہیں۔ حضرت علیؓ کا مشہور مقولہ ہے:”اپنے دوست سے دوستی میں نرمی اور میانہ روی اختیار کرو ہوسکتا ہے کہ وہ کسی دن تمہارا دشمن بن جائے اسی طرح اپنے دشمن سے دشمنی میں نرمی اور میانہ روی اختیار کرو ہوسکتا ہے کہ وہ کسی دن تمہارا دوست بن جائے۔“(الادب المفرد)حضرت اسلمؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ”تمہاری محبت جنون کی شکل اختیار نہ کرنے پائے اور تمہاری دشمنی ایذا رسانی کا سبب نہ بننے پائے۔“ میں نے کہا: ”حضرت وہ کیسے؟“ آپ نے فرمایا:”جب کسی سے محبت کرو تو بچوں کی طرح چمٹنے لگو اور طفلانہ حرکتیں کرنے لگو اور جب کسی سے ناراض ہوجاؤ تو اس کے جان ومال کے درپے ہوجاؤ۔“ (الادب المفرد)
دوستوں سے رنجش اور لڑائی جھگڑے کی نوبت نہ آنے دیجئے۔ اگر کبھی کسی بات پر اختلاف ہوجائے تو فوراً صلح صفائی کرلیجئے۔ صلح صفائی اور دوست کو راضی کرنے میں پہل کیجئے۔ اپنی کوتاہی کا اعتراف کرکے معافی مانگئے۔ صلح وصفائی میں تاخیر بالکل نہ کیجئے ورنہ کشیدگی بڑھتی جاتی ہے اور پھر دوستی کا رشتہ منقطع ہوجاتا ہے۔اگر غلطی دوست کی جانب سے ہوئی ہے تو اس پر گرفت نہ کیجئے۔ اسے نظر انداز کردیجئے۔ اگر دوست غلطی کا اعتراف کرے اور معذرت چاہے تو اس کی معذرت قبول کرلیجئے۔ اسے معاف کرکے صلح صفائی کا راستہ اختیار کیجئے اور تعلقات کو استوار کرلیجئے۔جس نے کسی مسلمان بھائی سے اپنی غلطی پر معذرت کی اور اس نے اس کو معذور نہ سمجھا یا اس کاعذر قبول نہ کیا تو اس پر اتنا گناہ ہوگا جتنا ایک ناجائز محصول وصول کرنے والے پر اس کے ظلم کا ہوتاہے۔
برُے دوستوں سے اجتناب کیجئے۔ فسق وفجور اور لایعنی باتوں اور کاموں میں مشغول رہنے والے افراد کو کبھی دوست نہ بنائیے۔ بے کردار یا بد کردار اور کفر وشرک میں مبتلا لوگوں سے صرف انسانی تعلقات رکھئے۔ ان سے جذباتی اور راز دارانہ دوستی بالکل نہ کیجئے۔ ان کے برے اخلاق عادات اور ذہنی وفکری،شعوری یا غیر شعوری طور پر آپ کو متاثر کرسکتی ہے۔اپنے غیر مسلم دوست کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیجیے۔اس کی دعوت کیجیے،اس کی دعوت قبول کیجیے۔البتہ ان کی خوشی و غم میں اس طرح شرکت کیجیے کہ آپ سے مشرکانہ افعال سرزد نہ ہوں۔

«
»

آزادی کے 75 سال: جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار… شاہد صدیقی (علیگ)

حج کی ادائیگی __ لمحہ بلمحہ دم بدم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے