پروڈیوسرس کو ان پروگراموں کے لئے حکومت کی طرف سے لاکھوں روپئے دیئے گئے ہیں مگر انھوں نے کم پیسے میں پروگرام بنا لئے اور بیشتر پیسے ہضم کرلئے۔ اس میں خود دوردرشن کے افسران کی ملک بھگت بھی شامل ہے۔بعض پروگراموں مین مجاہدین آزادی کی توہین کی خبریں بھی ہیں جن پر فوراً روک لگانا ضروری ہے۔
ڈی ڈی اردو چینل کا آغاز اردو والوں کا دیرینہ خواب تھا مگر ایک مدت گزرجانے کے بعد بھی یہ خواب ادھورا ہی ہے، کیونکہ یہاں اردو کے فروغ کا کام کم اور اس کی بربادی کا انتظام زیادہ ہوا۔ اس چینل کے ساتھ ساتھ یہاں اردو زبان بھی اس ستم ظریفی کی شکار رہی جس کا شکوہ آزادی کے بعد سے اردو والے کرتے رہے ہیں۔ اس چینل کے جتنے بھی انچار چ اب تک ہوئے ہیں ان میں سے سوائے ایک(فیاض شہریار) کے کوئی بھی اردو زبان و رسم الخط سے واقف نہ تھا۔ اس کے موجودہ انچارچ وجے بھگوان اردو کی ابجد بھی نہیں جانتے۔ اس ملک میں کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا کہ کسی انگلش چینل کا انچارچ ایسے شخص کو بنایاگیا ہو جو انگلش نہ جانتا ہو، کسی بنگلہ ، تمل، تیلگو چینل کا انچارچ کسی ایسے شخص کو بنا دیا جائے جو اس سے آگاہ نہ ہومگر اردو پر یہ ستم ہوتا رہا ہے کہ اردو اکیڈمیوں کے سکریٹری تک اردو نہیں جانتے ۔ حد تو تب ہوگئی جب اس چینل کا اڈوائزر انور جمال کو مقرر کیاگیا جو اردو کا ایک لفظ بھی نہیں لکھ پڑھ سکتے۔انھیں اس لئے اڈوائزر بنایا گیا کیونکہ وہ تب کے دور درشن ڈائرکٹر جنرل تریپواری شرن کے دوست تھے ۔اس ستم رسیدہ چینل کے لئے آج تک ایک بھی مستقل ملازم نہیں رکھا گیا جو چند افراد اس کے لئے کام کرتے ہیں انھیں گیارہ گیارہ مہینے کے کنٹراکٹ پر رکھا گیا ہے۔۔ڈی ڈی اردو کے آغاز کو ایک مدت گزر چکی ہے مگر آج تک اچھے پروگرام دینا تو دور وہ زبان بھی درست کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس نے پہلے تو اکویزیشن کے تحت کچھ پروگرام خریدے جو کسی اور زبان کے لئے بنائے گئے تھے مگر اردو کہہ کر اردو چینل پر چلے اور پھر کمیشننگ شروع کی جس کے پروسیز میں ہی پانچ سال لگ گئے۔ اب یہ ٹیلی کاسٹ ہونے لگے ہیں مگر دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ کس طرح ان میں زبان و بیان کی غلطیاں موجود ہیں اور جس چینل کو اردو کے فروغ کے لئے شروع کیا گیاتھا وہ اردو زبان کے لئے سلاٹر ہاؤس کا کام کر رہا ہے۔اس سرکاری چینل میں زبان کو جس طرح سے قتل کیا جارہاہے اسے دیکھتے ہوئے تو لگتا ہے کہ اسے اردو کو قتل کرنے کے لئے ہی لانچ کیا گیا تھا۔ ایک ایک ایپی سوڈ کے لئے سرکار کی طرف سے لاکھوں روپئے دیئے گئے ہیں مگر بیشتر پروگرام غیر معیاری ہیں اور ان کا سب سے خراب پہلو ہے زبان اور تلفظ۔یہاں شاید ہی کوئی فکشن آپ کو ایسا مل جائے جس میں ’’خ‘‘ ’’ق‘‘ اور ’’غ‘‘ کا تلفظ درست کیا جاتا ہو۔ ’’خدا ‘‘کو ’’کھدا‘‘ ’’خیر‘‘کو ’’کھیر‘‘ غلط کو ’’گلط‘‘کہا جانا عام بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ اردو کی خدمت کی جارہی ہے یا بدخمتی؟ اصل بات یہ ہے کہ زبان و بیان کی غلطیوں سے بھرے ہوئے ان پروگراموں کو رشوت لے کر پاس کیا گیا ہے۔عزیزن بائی، جستجو، ستاروں کی سیر، سفر نامہ،ہندوستان کی تلاش ان چند پروگراموں کے نام ہیں جو ڈی ڈی اردو پر ٹیلی کاسٹ ہورہے ہیں اور غیر معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کی غلطیوں سے بھی بھرے ہوئے ہیں۔ غزل اور اردو شاعری پر مشتمل پروگراموں میں بے بحر شعر پڑھنا عام بات ہے مگر چینل کے ذمہ داروں نے انھیں ٹیلی کاسٹ کے لئے او کے کیا ہے۔ ڈی ڈی اردو کے لئے لکھنے والے ایک رائٹر کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک اچھا پروگرام تحریر کیا تھا مگر جب پیش کیا گیاتو دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اینکر اردو زبان نہیں بول سکتا تھا اور جو غزلیں گائی گئیں ان میں بھی بے شمار غلطیاں موجو دتھیں۔
اردو پر ہی یہ ستم کیوں؟
پروگراموں کے پریزنٹیشن کے وقت دور درشن نے کئی راہ نما اصول بنائے تھے جن کا اگر خیال رکھا گیاہوتا تو اس قدر زبان وبیان کی غلطیاں نہ ہوتیں اور ایسے خراب پروگرام نہ بنتے۔ یہاں لوگوں نے پریزنٹیشن کے وقت بڑی بڑی فلمی ہستیوں کو آگے کیا اور انوپم کھیر، اوم پوری، سشمیتا مکھرجی، نیلیما عظیم جیسے جانے پہچانے چہرے آئے نیزاردو کے بڑے بڑے اسکالروں کو سامنے کیا گیا تاکہ یقین دہانی کرائی جاسکے کہ اچھے پروگرام اور معیاری زبان دی جائیگی مگر پروگرام پاس ہونے کے بعد ان باتوں کو بھلا دیا گیا اور پیسے بچانے کے چکر میں پروڈیوسرس نے سارے ضابطوں کو طاق پر رکھ دیا۔ پروفیسر نصیر احمد خاں، پروفیسر اسلم پرویز اورمعصوم مرادآبادی جیسے اردو کے پروفیسرس اور اسکالرس کو پریزنٹیشن میں بٹھایا گیا تھا ،مگر پروگرام بننے کے بعدپریویو کے وقت انھیں نہیں بلایا گیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ زبان کا بہتر معیار قائم نہ رہ سکا۔ان پروگراموں کی شوٹنگ کے وقت عام طور پر کوئی اردو دان نہیں ہوتا تھا جو زبان کی معیار کا خیال رکھے۔
ڈی ڈی اردو کا آغاز اردو زبان کی ترقی کے لئے کیا گیا تھا مگر اب تک جو حالات اس چینل کے ساتھ رہے ہیں انھیں دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہاں اردو کی ترقی محض ایک بہانہ تھی اور اس کے پیچھے سابق یوپی اے سرکار کا مقصد اردو والوں کو بیوقوف بنانا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس چینل کے لئے آج تک کوئی ملازم نہیں رکھا گیا یعنی کسی اردو والے کو یہاں ملازمت نہیں دی گئی۔ چینل کے تمام کام انھیں لوگوں سے لئے گئے جو پہلے سے یہاں موجود تھے۔ ان میں بیشتر وہ ہیں جو اردو زبان سے بالکل ہی واقفیت نہیں رکھتے۔بعض لوگوں کو خصوصی طور پر یہاں لایا گیا مگر قارئین کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ وہ بھی ایسے افراد تھے جن کا اردو سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ جب سابق ڈائرکٹر جنرل کے دوست انور جمال کو اڈوائزر مقرر کیا گیا تواس کے لئے نہ تو کوئی اشتہار نکالا گیا اور نہ ہی کوئی انٹر ویو کیا گیا۔ ۷۰ سالہ عزیز قریشی کو بغیر کسی ضابطے کے یہاں کے پروگراموں کا انچارج بنا دیا گیا جب کہ ان کا فلم یا ٹی وی کے بجائے تھیٹر سے تعلق رہا ہے۔سابق ڈائرکٹر جنرل خود اردو سے محبت کرنے والے انسان ہیں اور ان کی نیت پر ہم شک نہیں کرسکتے مگر اسی کے ساتھ یہ بھی سچائی ہے کہ انھوں نے اقرباء پروری کی کہ ایسے لوگوں کو چینل کی ذمہ داری سونپی جو اس کے حقدار نہیں تھے اور ان کے اعتماد کا فائدہ اٹھاکر کئی بدعنوانیاں کی گئیں۔
جب دور درشن نے اپنی گائیڈ لائن توڑی
دور درشن نے اچھے پروگرام کے لئے گائیڈ لائن تیار کی تھی اور اسی کے تحت پریزنٹیشن ہوا تھا مگر خود اس کے ملازمین نے ہی اس کی دھجیاں اڑائیں اور رشوت لے کر ایسے ایسے کام کئے جو صراحتاً اس کی خلاف ورزی تھے۔ مثلاً بعض پروگراموں کے ڈائرکٹر و رائٹر کے نام رشوت لے کر بدل دئے گئے ۔ حالانکہ گائیڈ لائن کے مطابق ایسا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے ان کی این او سی لازمی ہے۔ یہ گائیڈ لائن ہی نہیں بلکہ نئے کاپی رائٹ ایکٹ کی بھی خلاف ورزی ہے مگر یہاں رشوت سے ہر کام ہوجاتا ہے۔ ۔ یونہی ایک پروگرام ’’غبارِخاطر‘‘ میں اردو جاننے والے ٹام الٹر کو مولانا آزاد کا کردار نبھانا تھا مگر خرچ بچانے کے لئے پروڈیوسر نے کسی غیر معروف اداکار کو لے کر بنالیا جو گائیڈ لائن کی صراحتاً خلاف ورزی تھی اور اس پر دور درشن کوکوئی اعتراض نہ تھا۔ حالانکہ خود ٹام الٹر اور اس کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ایم ۔سعید عالم(علیگ) نے اس کے خلاف شکایت درج کرا رکھی ہے۔ آر ٹی آئی سے جو معلومات فراہم ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں انور جمال سمیت کئی لوگوں کا ہاتھ تھا اور بڑے پیمانے پر دھاندھلی کی گئی ہے۔تازہ اطلاع کے مطابق اب گڑبڑی کایہ معاملہ کورٹ تک پہنچنے والاہے۔
یہ رقم کہاں گئی؟
دوردرشن نے ایک ایک ایپی سوڈ کے لئے پرائیویٹ پروڈیوسرس کو دو لاکھ سے تین لاکھ تک دیئے ہیں ۔ فکش کے محض 13ایپی سوڈس کے لئے 39/39 لاکھ روپئے ایک ایک پروڈیوسر کو دیئے گئے ہیں مگر ان میں سے بیشتر نے فی ایپی سوڈ مشکل سے پچاس ہزار ہی خرچ کیا ہے اور باقی پیسے بچا لے گئے اور اس پر ڈی ڈی کو کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں کے ذمہ دارافسران کی خود ان پروڈیوسرس کے ساتھ ملی بھگت ہے۔دور درشن کی پہچان اقربا پروری، رشوت ستانی اور بدعنوانی سے عبارت ہے اور یہ شناخت آج بھی قائم ہے۔یہی سبب ہے کہ معیاری پروگرام کم ہی بنتے ہیں ۔جیسے’’ہندوستان کی تلاش‘‘ ایک انتہائی غیر معیاری ڈرامہ ہے جو صرف اس لئے دکھایا جارہا ہے کہ یہ سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کے پلے پر مشتمل ہے۔ یہ کسی اعتبار سے ٹی وی چینل پر پیش کئے جانے کے لائق نہیں مگر پھر بھی دکھایا جارہا ہے کیونکہ اس میں خود سلمان خورشید بھی اینکر کے طور پر نظر آتے ہیں۔ اس کو بنانے کے لئے لاکھوں روپئے ڈی ڈی اردو نے دیئے تھے اور بغیر کچھ خرچ کئے یہ تیار ہوگیا۔ اس قسم کے گھٹیا پروگراموں کی یہاں کمی نہیں۔ حالانکہ رنگِ غزل، داستانِ اردو، آخر کب تک؟جیسے بعض اچھے پروگرام بھی بنے ہیں مگر اس قسم کے پروگرام کم ہیں۔
مجاہدین آزادی کا مذاق
اس وقت ڈی ڈی اردو پرجو پروگرام دکھائے جارہے ہیں ان میں نہ صرف تاریخ سے کھلواڑ کی گئی ہے بلکہ بعض ایسے پروگرام بھی پیش کئے جا رہے ہیں جن میں مجاہدین آزادی کی توہین بھی گئی ہے۔ ’’عزیزن بائی‘‘ وہ پروگرام ہے جس کے اشتہار پر ڈی ڈی پیسے خرچ کر رہا ہے۔ یہ ۱۸۵۷ء کی ایک عظیم مجاہدۂ آزادی اور مغنیہ عزیزن کی زندگی پر ایک ڈرامہ ہے، جسے انگریزوں سے سخت نفرت تھی اور اس نے اپنے کوٹھے کو آزادی کے متوالوں کے نام وقف کرر کھا تھا۔ وہ رقص وموسیقی کے ساتھ ساتھ اردو زبان پر بھی دسترس رکھتی تھی اور امیرخسرو سے لے کر میر تقی میرؔ تک کا کلام گاتی تھی۔ اس نے کانپور میں انگریزوں سے لوہا لیا تھا اور انجام کار اسے موت کی سزا ملی تھی۔ ’’عزیزن بائی‘‘ میں اس کردار کوادا کرنے والی لڑکی انتہائی خراب زبان بولتی ہے اور غلط تلفظ کرتی ہے۔ اس عہد میں کوٹھوں کی تہذیب کو بہت اعلیٰ سمجھا جاتا تھا جہاں بڑے بڑے نواب زادے اور شہزادے تہذیب کا سبق سیکھنے جایا کرتے تھے مگر اس سیریل میں اس عظیم فنکارہ کو ایسے معمولی انداز میں پیش کیا گیا ہے گویا وہ کسی جھونپڑپٹی کی پروردہ ہو اور اس کا تعلق کسی اٹھائی گیرے خاندان سے ہو۔ ایک دوسرے مجاہدِ آزادی شمس الدین (جو عزیزن کا عاشق بھی تھا)کو کسی چھچھورے عاشق کی طرح پیش کیا گیا ہے۔اس پر ستم یہ کہ سیریل ۱۸۵۷ء کے بجائے ۲۰۱۴ء کے دور کو دکھاتا ہے۔ آج کی دلی کی کچی کالونیوں کی دیواریں نظر آتی ہیں جن میں وہ لالٹین لٹکی نظر آتی ہے جس کا استعمال آج بھی ہمارے ملک کے گاؤوں میں ہوتا ہے۔ اتنے گھٹیا قسم کے سیریل کو کس طرح منظوری ملی ہوگی سمجھا جاسکتا ہے۔
اردو کے واحد سرکاری چینل ڈی ڈی اردو کے بارے میں خود اس کے ڈی جی نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ملک میں اردو کا نمبر ایک چینل ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ گڑبڑیوں، بدعنوانیوں ، لسانی غلطیوں اورگھٹیا پروگراموں کے معاملے میں بھی یہ نمبر ایک چینل ہے۔ یہاں بیٹھے ہوے لوگ ہی اس کا بیڑا غرق کرنے کے درپے ہیں ۔سابقہ یو پی اے سرکار میں کئی گڑبڑیاں ہوئی ہیں او ر ڈی ڈی اردو اس کی ایک مثال ہے مگر نئی سرکار اسی وعدے کے ساتھ آئی ہے کہ وہ ان خرابیوں کو درست کریگی۔ آج ارود والوں کو بھی امید ہے کہ اس چینل میں چل رہی گڑبڑیوں کو درست کیاجائے گا اور اس کے لئے ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ کیا وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاوڈیکر اس کے لئے تھوڑا سا وقت نکالیں گے؟
جواب دیں