ہمت نہ ہاریے بس کوشش کرتے رہیے!

نقی احمد ندوی  

1879ء میں پیدا ہونے والا وہ شخص جسے ناکام اور کندذہن قرار دے دیا گیا  اس دنیا میں سب سے زیادہ ذہین اور عبقری شخصیات میں سے ایک نکلا۔ درحقیقت آئیشائن چار سال کے ہو گئے مگر بولنے سے قاصر تھے۔ سولہ سال کی عمر میں زوریک کے سوئز فیڈرل پولیٹکنک اسکول کے داخلہ امتحان میں فیل ہو گئے، اور گریجویشن میں ان کی پڑھائی اتنی کمزور تھی کہ بس تعلیم چھوٹتے چھوٹتے رہ گئی۔ دراصل ان کے والد ان کی کارکردگی کو دیکھ کر اپنے صاحبزادہ کو بہت ہی ناکام تصور کرنے تھے اور یہ تصور ان کو مرتے دم تک تھا جس نے نوجوان آئیشائن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
گریجویشن کے بعد وہ مخمصہ میں تھے کہ اب کیا کرنا ہے۔ تھوڑے دنوں بعد انھوں نے انشورنس کمپنی میں سیلزمین کا کام پکڑ لیا اور گھر گھر جا کر انشورنس بیجا کرتے تھے۔ اس کے دو سال بعد مختلف قسم کے آلات کی تکنیکی جانچ کی نوکری کی اور ایک ٹینٹ آفس میں اسسٹنٹ گرافر کا جاب کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وہی شخص تھا جس نے Theory of relativity کا ایسا زبردست فارمولا پیش کیا جس نے کائنات کے نظام کی گہرائی کوسمجھنے میں نہ صرف مدد کی بلکہ فزکس اور حساب کے میدان میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے بہت سارے فزکس کے بنیادی حقائق کو آشکارہ کر کے1921ء میں نوبل پرائز حاصل کیا۔
اسٹیفن کنگ  امریکہ کہ مشہور قلم کار ہیں اس شخص نے پوری دنیا کے کروڑوں لوگوں کو اپنی کہانیوں کے ذریعہ ڈرایا اور بہلایا ہے، بلاشبہ وہ بہت ہی کامیاب، بہت سارے ایوارڈز سے نوازے جانے والے ناول نگار، چھوٹی کہانیوں اور اسکرین پلے کے تخلیق کار اور مصنف ہیں۔ ان کی بہت ساری تحریریں فلموں، ٹیلی ویژن شوز اور کومک بکس کی شکل میں پیش کی گئی ہیں۔ ان کا سب سے بڑا کمال ڈراونی اور خوف ناک کہانیوں کے لکھنے کا ہے۔
اسٹیفن کنگ اور ان کے بھائی دیفینڈ کی پرورش ان کے ماں کو کرنی پڑی کیونکہ ان کے والد ایک بار گھر سے سگریٹ خریدنے کے لیے نکلے تو پھر کبھی واپس نہیں آئے۔ وہ امریکہ کے Maine میں پلے بڑھے اور ہائی اسکول کے زمانہ سے ہی لکھنا شروع کر دیا اور اپنی پہلی کتاب 1967ء میں شائع کی۔
شروع شروع میں بہت ہی معمولی تنخواہ پر کئی کام کیے اور بالآخر ایک مقامی ہائی اسکول میں ٹیچر کی جگہ مل گئی، مگر انھوں نے چھوٹی کہانیاں اور ناولوں کے لیے نئے نئے خیالات کی ترتیب وتخلیق کو جاری رکھا۔
وہ اپنی کہانی سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب میں چھوٹا تھا تو میرے مضامین اور کہانیوں کو پبلشروں نے اتنا ٹھکرایا کہ مجھے ان کے Rejection Noteکے لیے ایک کیل دیواری میں ٹھونکنی پڑی اور جب وہ کیل بھی برداشت نہیں کر پائی تو بڑی سی کیل لگانی پڑی،  آج 1918ء میں اسٹیفن کنگ کی کل دولت کا اندازہ 440/ ملین ڈالر لگایا جاتا ہے، جو انہیں دنیا کے چند مالدار قلم کاروں میں سے ایک بناتا ہے۔ 
1973ء میں انھوں نے ”Carrie“ ناول کا مسودہ فائنل کیا جس کو شائع کرنے کے لیے بہت سارے پبلشروں کو دیا، جس میں ایک پبلشر نے یہ نوٹ بھیجا: ”ہم لوگوں کو ساینس پر مبنی صرف منفیات سے بھرے فکشن اورکہانیوں میں کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ یہ فروخت نہیں ہوں گے۔“
جب ”Carrie“ شائع ہوا تو پہلے ہی سال دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوگیں۔ اسٹیفن نے منیجر کی نوکری اب چھوڑ دی اور اپنا پورا وقت لکھنے میں صرف کرنے لگے۔
ان کی تخلیقات بہتر سے بہتر ہوتی گئی مگر ان کی  نجی زندگی میں خود اپنی ہی ذات سے عداوت جھیلنی پڑی۔ 1980 کی دہائی میں ان کو ڈرگ اور الکوحل کی ایسی لت لگ گئی کہ وہ خود کہتے ہیں: ”Cujo“ کی ڈوازنی ناول میں نے کیسے لکھی وہ بہت ہی مشکل سے مجھے یاد ہے، ان کی حالت اس قدر ابتر ہو گئی کہ گھر والوں اور دوستوں کو بیچ میں آنا پڑا اور ان کی نشہ کی عادت کو چھوڑوانا پڑا، کنگ اسٹیفن پھر سے ایک نئی طاقت سے دوبارہ آے، خود کو سنبھالا اور لکھنا شروع کیا۔
”اسٹیفن کنگ ایک ایسے شخص کی تابناک مثال ہے جس نے ناکامیوں کو کبھی زندگی میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔“ ان کی کامیابی کا صرف ایک راز تھا کہ کبھی ہمت نہیں ہاری۔ نہ تو فیملی بیک گراؤنڈ اور نہ ہی مالی مشکلات نے ان کو آگے بڑھنے سے روکا۔ جب اتنے سارے پبلشروں نے ان کی تخلیقات کو شایع کرنے سے انکار کردیا تھا اور ان کو ٹھکرا دیا تھا تو وہ یہ فیصلہ کر سکتے تھے کہ اب لکھنے کا فائدہ نہیں، مگر انھوں نے لکھنا نہیں چھوڑا، انھوں نے ہر انکار کومثبت اندازمیں قبول کیا اور اس سے سیکھتے ہوئے اپنے ہنر اور تخلیقی صلاحیت کو مزید چمکانے میں اس سے مدد لی۔
اس دور کی سب سے زیادہ متاثر کرنے والی کامیابی کی کہانیوں میں جے، کے رولنگ کی کہانی ہے، بیشتر لوگ اس کو صرف Harry Potter کی مصنفہ کے طور پر جانتے ہیں، مگر بیشتر لوگ یہ نہیں جانتے کہ وہ استاد بننے سے پہلے کن حالات سے گزری، رولنگ کی زندگی آسان نہیں تھی، بلکہ اس نے زندگی میں بہت سخت جدوجہد کی۔
Harry Potterلکھنے کا خیال 1990ء میں اس کے ذہن میں اس وقت آیا، جب وہ مانچیسٹر سے لندن ٹرین سے سفر کر رہی تھی، رولنگ نے   اپنی کہانی لکھنی شروع کی، مگر سال کے اخیر میں اس کی ماں ایک  پیچیدہ بیماری سے انتقال کر گئی، 1992 میں وہ پرتگال چلی گئی،جہاں اس نے ایک شخص سے شادی کر لی اور ایک بیٹی پیدا ہوئی، مگر 1993 میں اس کی شادی ٹوٹ گئی اور طلاق ہو گیا، چنانچہ وہ اسکاٹ لینڈ کے شہر ایدن برگ،جہاں پر اس کی بہن رہا کرتی تھی، آگئی۔ اس وقت وہ ہیری پوٹر کتاب کے تین چیپٹرس لکھ کر اپنی اٹیچی میں رکھے ہوئی تھی۔
اس وقت رولنگ خود کو انتہائی ناکام تصورکر رہی تھی، نوکری چھوٹ گئی تھی، طلاق ہو چکی تھی اور روپے پیسے سارے ختم ہوچکے تھے، اس پر طرہ یہ کہ ایک بچی کی کفالت کی ذمہ داری بھی کندھوں پر تھی، چنانچہ وہ ڈیپریشن میں چلی گئی، اور ہار مان کر گورنمنٹ سے غریبی امداد کے لیے اپنا نام لکھوا دیا، یہ انتہائی مشکل وقت تھا مگر پھر بھی اس نے اپنے آپ کو سبنھالے رکھا۔
1995ء میں اس نے ہیری پوٹر کا مسودہ بارہ پبلشروں کو چھاپنے کے لیے دیا مگر سب نے چھاپنے سے معذرت ظاہر کر دی۔ مگر ایک پبلشر بہت ہی معمولی قیمت صرف ۰۰۵۱ پونڈ پر شایع کرنے کے لیے راضی ہوگیا۔ پہلی بار صرف ایک ہزار کاپی چھپی جس میں پانچ سو لائبریریوں میں تقسیم کی گئیں۔
1997 اور 1998 میں اس کتاب نے Nestle Smarties Book Prize  اور British Book Award for childeren's Book of the year جیتا، اس کے بعد رولنگ کی گاڑی چل پڑی۔ آج رولنگ کی یہ کتاب چالیس کروڑ فروخت ہوچکی ہے اور برطانیہ کی سب سے مقبول ترین مصنفہ کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ ابھی اس کے پاس بنگلہ ہے، گاڑی ہے، اور کروڑپتی ہے، اگر اس نے بھی بارہ پبلشروں کے انکار پر ہمت ہاری ہوتی اور لکھنا ہی چھوڑدیا ہوتا تو آج رولنگ اس مقام پر نہ ہوتی۔ 
آپ دنیا کے جس شعبہ میں ہیں اور جس مقام پر جانا چاہتے ہیں بس اپنے کام کو پوری ایمانداری اور محنت کے ساتھ کرتے جایے ایک نہ ایک دن آپ کا خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا، بس ہمت مت ہاریے، کوشش کرتے جایے! 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

کشمیری رہنماؤں سے مودی کی ملاقات؛ یہ منظر اور اس کا پس منظر کیا بولتا ہے

ٹول کِٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے